گاڑی کے مسائل اور ان کے حل سے متعلق مکمل گائیڈ لائن
سلیم بھائی ہر ماہ اپنی آمدن سے کچھ حصہ بچا کر الماری کے کونے میں رکھتے تھے اور ان کی اہلیہ نے اچھی خاصی بڑی رقم کی کمیٹی بھی ڈالی ہوئی تھی۔ جس دن بھابھی کی کمیٹی کھلی تو سارا گھر خوشی سے جھوم اُٹھا۔ جمع پونجی اور کمیٹی سے ملنے والی رقم سے اب اچھی سی سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدی جاسکتی تھی۔ کچھ دن کی محنت، آن لائن تلاش اور ہفتہ وار کار بازار کا چکر لگانے کے بعد اچھی کنڈیشن میں معمولی استعمال شدہ گاڑی گھر کے باہر پورے محلے کو دعوتِ نظارہ دے رہی تھی۔
گاڑی تو خرید لی، اب اس کا خیال کیسے رکھنا ہے یہ فکر سلیم بھائی کو ستانے لگی تھی۔ گاڑی خریدنے میں ڈینٹر صاحب اور مکینک بھائی نے خصوصی تعاون کیا تھا لیکن اب سلیم بھائی ان دونوں پر مزید اعتماد کرنے سے کچھ گھبرا رہے تھے۔ دوست احباب نے بھی مکینک حضرات کی جانب سے اصل سامان نکال کر دو نمبر سامان لگانے جیسی کہانیاں سُنا سُنا کر خوب خوفزدہ کردیا تھا۔
یہ فرضی کہانی کسی مخصوص سلیم یا کلیم بھائی کی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں یہ ہر متوسط گھرانے کا قصہ ہے۔ اوسط آمدن والے گھرانوں کے لیے گاڑی خریدنا ایک خواب ہی ہوتا ہے اور غریب تو بہرحال ایسا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ بہت سے گھرانوں میں سارے بھائی مل کر گاڑی خریدنے کی خواہش رکھتے ہیں اور پھر محنت کا پھل ایک دن گاڑی کی صورت میں مل بھی جاتا ہے۔ عام طور پر پاکستان میں ہم بینک سے لیز شدہ گاڑی لینے سے گھبراتے ہیں اور اس کے پیچھے بہت سے عوامل ہوتے ہیں جن پر باقاعدہ بحث کی جاسکتی ہے۔
بہت سے گھرانے اکثر خاص خاص مواقع پر یا کسی تقریب میں جانے کے لیے ہی گاڑی نکالتے ہیں۔ اس کی 2 وجوہات ہیں: ایک تو پیٹرول کا خرچہ کیونکہ سی این جی اب کم ہی دستیاب ہوتی ہے اور دوسرا یہ خیال کہ گاڑی جتنا چلے گی اتنا ہی کام نکالے گی۔
گاڑی کی دیکھ بھال تو اس شخص کا بھی مسئلہ ہے جو روزانہ گاڑی چلانے کی استطاعت رکھتا ہے لیکن گاڑی کی روزانہ بدلتی کیفیت سے پریشان رہتا ہے۔ اب بدلتی کیفیت سے مراد یہ ہے کہ جیسے جیسے گاڑی چلتی ہے اس کے مختلف پرزے آواز کرنے لگ جاتے ہیں یعنی پرانے ہوکر تبدیلی یا مرمت کا خرچہ مانگتے ہیں۔
پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیاں دنیا بھر میں دستیاب ماڈل کا سب سے بنیادی ورژن ہوتا ہے یعنی ان میں بہت سے ایسے فیچرز نہیں ہوتے جو کسی دوسرے ملک میں موجود بالکل ویسے ہی ماڈل میں مل جاتے ہیں۔ چلیں اس بحث کو بھی چھوڑتے ہیں۔ گاڑی خرید تو لی ہے اب اس کی دیکھ بھال کیسے کریں؟ اگر آپ بھی اسی مشکل سے گزر رہے ہیں تو ہماری گائیڈ لائن کو آخر تک پڑھ لیں امید ہے فائدہ ہوگا۔
زیرو میٹر گاڑی
'زیرو میٹر' یا بالکل نئی گاڑی کو احتیاط کے ساتھ چلایا جائے تو تقریباً ایک لاکھ کلومیٹر یا 3 سے 5 سال تک کوئی بڑا کام نہیں نکلتا۔ نئی گاڑی کے نخرے بھی کم اٹھانے پڑتے ہیں اور غیر ضروری چیک اپ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ابتدائی 25 سے 30 ہزار کلومیٹر تو انجن آئل بھی کار ڈیلر شپ سے مفت تبدیل ہوتا ہے۔ اس کے لیے گاڑی کے ساتھ مینؤل بُک میں ٹوکن ملتے ہیں جن پر درج ہوتا ہے کہ کتنے فاصلے یا ماہ تک آپ آئل تبدیلی کی مفت سہولت سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ جب آپ آئل بدلوانے کمپنی کے منظور شدہ ڈیلر شپ کے پاس جاتے ہیں تو وہاں باقی چھوٹا موٹا چیک اپ بغیر کہے ہی کرلیا جاتا ہے۔ نئی گاڑی کی مخصوص شرائط کے ساتھ وارنٹی بھی ہوتی ہے۔
زیرو میٹر گاڑی کا خیال کیسے رکھیں؟
اگر آپ اتنی سکت رکھتے ہیں کہ مستقل ڈیلر شپ سے گاڑی کی دیکھ بھال کروائیں تو یہ آپ کی مرضی ہے۔ بہت سے لوگ ڈیلر شپ کے مہنگے کام کی وجہ سے گلی محلے کے مکینک سے رابطہ کرتے ہیں۔ آپ ڈیلر شپ کے پاس جائیں یا محلے کے مکینک کے پاس، بس یہ یاد رکھیں کہ جب تک گاڑی کی دیکھ بھال سے جڑے چند بنیادی معاملات سے آپ خود واقف نہیں ہوں گے تو نقصان کا اندیشہ ہمیشہ رہے گا۔
نقصان کی 2 صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ گاڑی میں کوئی کام نکلا ہوگا یعنی کوئی پزرہ اپنا کام ٹھیک سے نہیں کررہا ہوگا یا پھر کوئی لیکیج ہو رہی ہے اور آپ اسے نظر انداز کررہے ہیں، اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی ایک پرزے کی خرابی دیگر ساتھی پرزوں کی کارکردگی کو بھی خراب کرسکتی ہے اور نتیجتاً چھوٹا سا کام بھی تاخیر کی وجہ سے بڑے کام میں تبدیل ہوچکا ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مکینک برادری انتہائی غیر ذمہ دار واقع ہوئی ہے۔ اپنی گاڑی کے مرض کی تشخیص کے لیے آپ اگر مدد نہیں کریں گے تو مکینک بھائی کچھ بھی بدلنے یا خراب ہونے کا حکم صادر کردیں گے اور پھر آپ پریشان گھومتے پھریں گے کہ یار سب بدلوا دیا لیکن خرابی پھر بھی موجود ہے۔
اس کی وجہ سادہ سی ہے آپ کے مکینک نے گاڑی کی خرابی کی غلط تشخیص کی ہے اور چونکہ آپ مرض سے متعلق درست آگاہی نہیں دے سکے تھے اس لیے آپ خود بھی قصور وار ہیں۔ اپنی گاڑی کی دیکھ بھال سے متعلق بنیادی معلومات ضرور رکھیں۔
چلیے اب دوبارہ زیرو میٹر گاڑی کی طرف آتے ہیں۔ جب آپ ڈیلر شپ سے ٹوکن دے کر مفت انجن آئل تبدیل کروائیں گے تو خالی بوتل آپ کو ملے گی۔ اس بوتل پر درج ہوگا کہ کمپنی کون سے گریڈ کا انجن آئل آپ کی گاڑی کے لیے تجویز کرتی ہے۔ آئل کا گریڈ دراصل انجن کی ساخت اور ملک کے موسم کو مدِنظر رکھ کر تجویز کیا جاتا ہے۔
اب اگر آپ ڈیلر شپ سے ہی مستقل آئل تبدیلی وغیرہ کا ارادہ رکھتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ بوتل پر درج آئل آپ متعلقہ پیٹرول پمپ سے تبدیل کروا سکتے ہیں۔ اگر آپ کا انجن آئل 5 ہزار کلو میٹر والا ہے تو کوشش کریں کہ کلومیٹر کا ہدف مکمل ہونے سے کچھ پہلے ہی آئل تبدیل کروا لیں کیونکہ یہ انجن کی صحت کے لیے بہتر ہوگا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ٹریفک جام اور اے سی کے ساتھ دیر تک گاڑی کا کھڑا رہنا میٹر پر ریکارڈ نہیں ہوتا لیکن انجن بہرحال چلتا رہتا ہے اس لیے آئل تھوڑا پہلے ہی تبدیل کروالیں۔
آئل کے ساتھ آئل فلٹر ضرور تبدیل کروائیں کیونکہ فلٹر میں کافی پرانا آئل رہ جاتا ہے جو نئے آئل کو گندا کرنے کا سبب بھی بنے گا نیز یہ کہ فلٹر کی عمر بھی آئل کے ساتھ پوری ہوچکی ہے۔ انجن آئل عمومی طور پر ہزار سی سی گاڑیوں میں 3 لیٹر اور 1300 سے 1800 سی سی انجن میں 4 لیٹر تک ڈالا جاتا ہے۔ انجن آئل مکمل تصدیق کے ساتھ اتنا ہی ڈلوائیں جتنا مینؤل میں درج ہے۔ کم آئل ڈالنا انجن کے لیے نقصاندہ اور زیادہ آئل انجن کی مختلف سیلیں لیک کرنے کا سبب بنے گا۔ انجن میں اوپر کی طرف آئل چیک کرنے کی اسٹک موجود ہوتی ہے، اسٹک پر موجود نشان درست مقدار کے لیے بہتر رہنمائی کرسکتا ہے۔
آئل فلٹر پر 600 یا 700 روپے ہی خرچ ہوتے ہیں۔ ڈیلر شپ انجن آئل اور فلٹر کے ساتھ انجن ایئر فلٹر بھی بدلتی ہے لیکن یہ فیصلہ آپ خود بھی کرسکتے ہیں، اگر انجن ایئر فلٹر آپ کو درست حالت میں محسوس ہو تو ایئر پریشر سے صاف کروا کر دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آئل تبدیلی کے ساتھ اے سی فلٹر یعنی کیبن فلٹر پر بھی ہوا لگوا لیں اور اگر خراب دکھائی دے رہا ہو تو تبدیل کروا لیں۔ انجن ایئر فلٹر لگ بھگ 700 روپے اور کیبن اے سی فلٹر 400 روپے کا دستیاب ہوتا ہے۔
اگر بیٹری پانی والی ہے تو پانی چیک کرلیں۔ ویسے آج کل معیاری ڈرائی بیٹری بھی باآسانی مل جاتی ہے اور بعض گاڑیوں میں ڈرائی بیٹری ہی لگی ملتی ہے۔ کوشش کریں کہ مہینے یا 6 ہفتوں میں ایک مرتبہ گاڑی ٹاپ واش کروالیں، مکمل سروس کی ضرورت کم کم ہی ہوتی ہے کہ جس میں اوپر اٹھا کر گاڑی کو صاف کیا جاتا ہے اور انجن بھی پانی سے دھویا جاتا ہے۔
آئل تبدیلی کے وقت ایک نظر ریڈی ایٹر کے کولنٹ لیول پر بھی ڈال لیں۔ گاڑی کے انجن کو ٹھنڈا رکھنے والے نظام پر آگے تفصیلی بات ہوگی۔
نئی گاڑی میں آخری جائزہ طلب چیز ٹائر کا پریشر ہے جو تمام ٹائروں میں برابر ہونا چاہیے۔ پنکچر والی دکان پر اب جدید میٹر والے ایئر پمپ ہوتے ہیں، لہٰذا وہاں آسانی سے یہ کام 20 سے 30 روپے میں ہوسکتا ہے۔
15 سے 20 ہزار کلومیٹر پر بریک چیک اپ یا بریک سروس کروا لیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مکینک بریک پیڈ کو کھول کر ریگ مال سے صفائی کرکے واپس لگا دے گا۔ اچھے والے بریک پیڈ تقریباً 40 سے 50 ہزار کلومیٹر چل جاتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بریک ڈسک پر کوئی نشان موجود نہ ہو۔ بریک اگر آواز کرے تو ضرور چیک کروالیں، ہوسکتا ہے کسی جگہ سے بریک پیڈ خراب ہوکر ڈسک سے ٹکرا رہا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بیئرنگ اور بریک ڈرم کسی جگہ سے معمولی لیک ہو جو بروقت نشاندہی سے باآسانی ٹھیک ہوجائے۔
اگر گاڑی کا آر پی ایم کھڑی گاڑی میں اے سی کے ساتھ یا بغیر اے سی کے اوپر نیچے ہو اور گاڑی تھرتھرائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیوننگ اب ضروری ہوگئی ہے۔
نئے ماڈل کی گاڑیوں میں ٹیوننگ کی ہر ماہ ضرورت نہیں ہوتی۔ نئی گاڑیوں میں ٹیوننگ سے مراد تھروٹل باڈی کا اسپرے سے صاف کرنا ہے۔ یہ کام خود بھی کیا جاسکتا ہے لیکن مکینک سے 300 یا 500 روپے میں کروانا بہتر ہے۔
تھروٹل باڈی انجن کے ایئر فلٹر کے ساتھ انجن تک جانے والا پائپ کا دہانا ہوتا ہے۔ مکینک ایئر فلٹر کا باکس کھول کر پائپ علیحدہ کرتا ہے اور ڈبلیو ڈی اسپرے سے صاف کردیتا ہے۔ اس کے بعد ضرورت محسوس ہو تو کمپیوٹر منسلک کرکے انجن کیلی بریشن سیٹنگ ری سیٹ کردے گا۔ بس یہی وہ انجن ٹیوننگ ہے جو نئی گاڑیوں میں کی جاتی ہے۔
2005ء سے پہلے کی گاڑیوں میں کاربوریٹر کی صفائی کی جاتی تھی جو نسبتاً لمبا کام ہوتا تھا۔ 2005ء کے بعد سے زیادہ تک گاڑیاں الیکٹرانک فیول انجیکٹر یعنی ای ایف آئی سے لیس ہوتی ہیں جس میں کاربوریٹر کی جھنجھٹ سے جان چھوٹ گئی ہے۔ گندہ ایئر فلٹر اور کاربن زدہ تھروٹل باڈی انجن کی کارکردگی کو خراب کرتی ہے اور یوں فیول کا خرچ بھی بڑھ جاتا ہے۔
آٹو میٹک گیئر والی گاڑیوں میں 40 سے 50 ہزار کلو میٹر کے بعد ٹرانسمیشن آئل تبدیل کیا جاتا ہے جس کی قیمت 8 سے 10 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ خراب ٹرانسمیشن آئل گیئر باکس کو تباہ کرسکتا ہے۔ نئے انجن والی گاڑیوں میں ہائیڈرولک پاور اسٹیئرنگ کے بجائے موٹرائز اسٹیئرنگ استعمال ہوتا ہے لہٰذا اب اسٹیئرنگ آئل موجود نہیں ہوتا البتہ بریک آئل کا لیول برابر رکھنا چاہیے۔
4 یا 5 سال میں بریک آئل میں معمولی کمی آسکتی ہے جسے ٹاپ اپ کرنا ہوتا ہے لیکن بغیر لیکیج کے بریک آئل لیول بار بار اور بہت زیادہ کم نہیں ہوتا۔ اگر بریک آئل کم ہو رہا ہے تو یقیناً کسی جگہ لیکیج ہورہی ہوگی جسے ٹھیک کروانا چاہیے۔ عمومی طور پر بریک ڈرم کی سیل سے آئل لیک ہوجاتا ہے جس کی مناسب قیمت پر مرمت کروائی جاسکتی ہے۔
سیکنڈ ہینڈ یا پرانی گاڑی کی دیکھ بھال کیسے کی جائے؟
جیسے جیسے گاڑی پرانی ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے کام کی نوعیت بھی بدلتی جاتی ہے۔ پرانی گاڑی کی دیکھ بھال بھی اس لحاظ سے ضروری ہے۔ گاڑی چاہے نئی ہو یا پرانی اس کا انجن آئل مقررہ وقت پر ضرور بدلوائیں۔ اب آجاتے ہیں گاڑی کی عمر کے حساب سے نکلنے والے معمول کے کاموں کی طرف۔ پرانی گاڑیوں میں ٹائمنگ چین 80 ہزار سے ایک لاکھ کلومیٹر کے درمیان بدلوانا ہوتی تھی اب نئی گاڑیوں میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
گاڑی کے ٹائر
ٹائر عمومی طور پر 50 ہزار سے 60 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد بدلوا لینے چاہئیں۔ اگر گاڑی کم استعمال ہوتی ہے لیکن ٹائر 5 سال مکمل کرچکے ہیں تو تبدیلی کا وقت ہوچکا ہے۔ یاد رکھیے کہ ٹائر کے اوپر وہ تاریخ درج ہوتی ہے جس سال وہ ٹائر فیکٹری سے تیار ہوا تھا۔ پرانا ٹائر جو بظاہر بھلے ہی بہت اچھی حالت میں نظر آئے لیکن ایکسپائر ہونے کی وجہ سے کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اس وجہ سے گاڑی الٹ جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹائر اگر کسی جگہ سے پھول جائے یا کوئی بڑا کٹ لگ جائے تو وہ مزید استعمال کے قابل نہیں رہتا۔
ٹائر کا جو حصہ سڑک پر چلتا ہے وہ اگر سائیڈ یا درمیان سے گھسا ہوا محسوس ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خراب ہوچکا ہے اور اسے بدلوانا بہتر ہے۔
کوشش کریں کہ چاروں ٹائر ایک ساتھ تبدیل کروائیں تاکہ وہ ایک ساتھ ہی خراب ہوں۔ 20 ہزار کلومیٹر کے بعد اگلے ٹائر پیچھے اور پچھلے آگے بدلوانا مناسب رہتا ہے۔ ٹائر کا عام طور پر جائزہ لیتے رہنا چاہیے کیونکہ اگر اگلے سسپنشن میں کوئی کام ہے یا گاڑی کی الائنمنٹ خراب ہے تو سب سے پہلے نشان ٹائر کے کنارے پر آجاتے ہیں۔ لمبے سفر پر نکلنے سے پہلے ٹائر کا لازمی جائزہ لیں اور ہوا برابر کروانا مت بھولیں اس سے نہ صرف ٹائر اچھی حالت میں رہیں گے بلکہ فیول کی بچت بھی ہوگی۔
خراب یا کمزور ٹائر کے ساتھ تیز رفتاری سے پرہیز کریں اور طویل سفر پر مت جائیں۔ پرانا ٹائر مناسب قیمت پر فروخت ہوجاتا ہے، اس لیے بدلواتے وقت پرانے ٹائر کو بھاؤ تاؤ کرکے بیچا جاسکتا ہے۔ گاڑی میں اسی سائز کا ٹائر لگوائیں جو کمپنی نے لگا کر بھیجا تھا۔ چھوٹے یا بڑے سائز کا ٹائز بہت سی خرابیوں کا سبب بنتا ہے۔ بہت زیادہ وزن والے رم بھی اچھے نہیں رہتے لیکن اگر آپ کو شوق پورا کرنا ہے تو پھر قیمت کے لیے بھی تیار رہیں۔
انجن کا کولنگ سسٹم
گاڑی کی صحت کا سب سے اہم جزو انجن کولنگ سسٹم ہے اور کولنگ سسٹم میں سب سے اہم ریڈی ایٹر ہوتا ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ گاڑی کے انجن کی زیادہ تک خرابیوں کی وجہ کولنگ سسٹم کی خرابی بنتی ہے اس لیے اپنی گاڑی کے کولنگ سسٹم پر ہمیشہ نظر رکھیں۔
ریڈی ایٹر میں موجود کولنٹ طویل عرصے تک قابلِ استعمال رہتا ہے۔ کبھی بھی گرم انجن میں ریڈی ایٹر کا ڈھکن مت کھولیں کیونکہ پانی اچھل کر چہرہ یا ہاتھ کو زخمی کرسکتا ہے۔
ہمیشہ ٹھنڈے انجن میں ریڈی ایٹر کا ڈھکن کھولیں۔ بار بار کولنٹ لیول چیک کرنا ضروری نہیں ہوتا لیکن مہینے میں ایک بار یا آئل تبدیل کرواتے وقت اپنے اطمینان کے لیے ضرور چیک کرلیں۔ ریڈی ایٹر کے ساتھ ریزرو کی بوتل کی نشان زدہ سطح تک کولنٹ ہونا ضروری ہے۔ بہت سی گاڑیوں میں باآسانی سطح دکھائی دیتی ہے اور کچھ گاڑیوں میں کچھ محنت کے بعد مل جاتی ہے۔ ریڈی ایٹر میں کولنٹ کی سطح ہمیشہ کسی وجہ سے کم ہوتی ہے اور اسے نظر انداز کرنا انجن کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ کولنٹ کم ہونے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ کولنٹ کم ہونے کی صورت میں انجن کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور ڈیش بورڈ پر اس کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ کبھی بھی مخصوص سطح سے زیادہ ہیٹ کا کانٹا اوپر جانے کو نظرانداز مت کریں۔
کولنٹ کی سطح کم ہو تو کیا کریں؟
پہلا:
سب سے پہلے کولنٹ کا جائزہ لیں، اگر اس کی رنگت زنگ زدہ محسوس ہو تو ریڈی ایٹر سروس کی ضرورت بھی ہوسکتی ہے۔ ریڈی ایٹر کی مرمت کرنے والا کیمکیل کے ذریعے صفائی کردے گا جس کے بعد تازہ کولنٹ اور پانی کا اچھی کوالٹی مکسچر استعمال کرنا بہتر ہے۔ نئی گاڑی میں 3 سے 4 سال تک اس کی ضرورت پیش نہیں آتی لیکن پرانی گاڑی میں خود ہی سروس کروا لینا بہتر رہتا ہے۔
دوسرا:
ریڈی ایٹر کے ڈھکن کی خراب ربڑ بھی پانی کی لیکیج کا سبب بنتی ہے جس کا نشان اوپر کی جانب دکھائی دے سکتا ہے لیکن لازمی نہیں کہ نشان موجود بھی ہو۔ عمومی طور پر ڈھکن تبدیل کرنے کی ضرورت کم ہی درپیش ہوتی ہے۔
تیسرا
ریڈی ایٹر کے پانی یا کولنٹ کو انجن میں سپلائی کرنے اور پھر واپس لانے کے لیے 3 سے 4 پائپ ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پائپ اکڑ جاتے ہیں اور ان کے دہانوں کے نزدیک لیکیج شروع ہوجاتی ہے۔ ایسا تقریباً 4 سے 5 سال پرانی گاڑی میں اکثر ہو ہی جاتا ہے۔ ریڈی ایٹر میں پانی کم ہونے کی ممکنہ وجہ کسی پائپ کا لیک ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ لیک شدہ کولنٹ عموماً آس پاس نشان چھوڑ کر جاتا ہے جس سے متعلقہ پائپ کی لیکیج پکڑنا آسان ہوجاتی ہے۔
چوتھا:
مسلسل استعمال اور اگر ایک دو مرتبہ ریڈی ایٹر کم پانی کی وجہ سے انجن کی گرمی برداشت کرچکا ہے تو اوپر یا نیچے سے دانت نما مڑی ہوئی سیل کھل جاتی ہے جس سے پانی لیک ہوتا ہے اور کم ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ریڈی ایٹر مکینک آپ کو مرمت کی آفر دے گا لیکن تبدیل کروانا زیادہ بہتر ہے۔
پانچواں:
انجن میں نیچے کی طرف واٹر باڈی یا واٹر پمپ موجود ہوتا ہے۔ یہ چھوٹا سا پمپ پانی انجن میں سپلائی کرنے کے لیے نصب ہوتا ہے۔ اگر کولنٹ یا پانی بہت زیادہ گرم ہوجائے تو واٹر پمپ کی سیل لیک ہوجاتی ہے اور کولنٹ ضائع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں واٹر پمپ تبدیل کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک لاکھ کلومیٹر یا اس کے آس پاس واٹر پمپ لیک ہونے کی شکایت عام ہے۔ واٹر پمپ کی لیکیج انجن کی تباہی کا سبب بنتی ہے اور اسے بالکل نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مکینک واٹر پمپ کی لیکیج گاڑی کے نیچے سے چیک کرے گا، اس کے علاوہ بونٹ کے اندورنی حصے پر اے سی بیلٹ کے عین اوپر کولنٹ کا نشان بھی واٹر پمپ کی لیکیج کی علامت ہوسکتا ہے۔
چھٹا:
ریڈی ایٹر کے پنکھے کو ڈائریکٹ نہیں کروانا چاہیے۔ مکینک یا الیکٹریشن کا یہ مشورہ انتہائی ناقص ہے۔ انجن کو ایک خاص حرارت پر پانی درکار ہوتا ہے اور ضرورت سے زیادہ حرارت کی صورت میں پنکھا خود بخود چل جاتا ہے اور مطلوبہ حد تک پانی ٹھنڈا کرنے کے بعد بند ہوجاتا ہے اور ضرورت پر نصب خودکار نظام کے تحت چلتا اور بند ہوتا رہتا ہے۔ کولنگ سسٹم میں کسی خرابی کی صورت میں ڈیش بورڈ پر حرارات کا کانٹا مطلوبہ حد سے اوپر جاتا ہے لیکن خرابی تلاش کرنے کے بجائے پنکھے کو ڈائریکٹ کرنے کی تجویز مکینک دیتا ہے۔ ایسا بالکل مت کریں اور خود کار سسٹم کو خراب مت کرنے دیں۔ اگر کبھی محسوس ہو کہ پنکھا نہیں چل رہا تو لازمی چیک کریں اور ایسی صورت میں گاڑی مت چلائیں۔
ساتواں:
اگر ریڈی ایٹر کا پانی بہت زیادہ ابل رہا ہو اور سطح پر چکنائی بھی آرہی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انجن کی سیل یعنی گیس کٹ خراب ہوچکی ہے۔ پانی اور انجن آئل مکس ہو رہا ہے اور گاڑی فوری مرمت کے لیے مکینک کے پاس جائے گی اس سے پہلے کہ انجن آئل کی سطح اس حد تک گرجائے کہ انجن جام ہوجائے۔ گیس کٹ اڑنے کے بعد گاڑی دھواں بھی دے سکتی ہے۔ ریڈی ایٹر کے ڈھکن کے بغیر انجن اسٹارٹ کریں، پانی کچھ دیر میں گھومتا ہوا دکھائی دینا معمول کی بات ہے لیکن فوری ابلنا نہیں چاہیے۔
انجن چیک لائٹ
نئے ماڈل کی تمام ہی گاڑیوں میں مختلف سینسر لگائے جاتے ہیں۔ سینسرز انجن میں کسی خرابی کی صورت میں ڈیش بورڈ پر ٹمٹما اٹھتے ہیں۔ ڈیش بورڈ پر کسی بھی نشان کے اچانک ٹمٹمانے یا جل بجھ ہونے کو بالکل نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پیلے رنگ کا نشان انجن چیک لائٹ کہلاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ انجن کسی مشکل کا شکار ہے۔
انجن چیک لائٹ اس وقت بھی جل اٹھتی ہے کہ جب ناقص پیٹرول کی وجہ سے گاڑی مس فائر کرے۔ یعنی جھٹکا لے یا مسنگ کرے۔ انجن چیک لائٹ کو مکینک گاڑی سے کمپیوٹر منسلک کرکے ایرر کوڈ کے ذریعے پڑھ سکتا ہے اور پھر متعلقہ خرابی کو فوری دُور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف گاڑیوں میں مختلف سینسر ہوتے ہیں جو کمپیوٹر منسلک کرکے پڑھے جاسکتے ہیں۔ جاپانی امپورٹڈ گاڑیوں میں سینسر زیادہ ہوتے ہیں یہاں تک کے ٹائر کی ہوا ظاہر کرنے والے سینسر بھی مل جاتے ہیں۔
انجن کی طاقت کم محسوس ہو تو کیا کریں؟
انجن اگر کسی دباؤ کا شکار ہو تو گاڑی گھٹی گھٹی سی محسوس ہوتی ہے۔ نئی گاڑیوں میں کیٹالیٹک کنورٹر موجود ہوتا ہے جس کا کام انجن سے نکلنے والی گیس کو کافی حد تک فلٹر کرنے کے بعد سیلنسر کے ذریعے خارج کرنا ہے۔ پاکستان میں پیٹرول بہت زیادہ معیاری نہیں ملتا لہٰذا لگ بھگ ایک لاکھ کلومیٹر کے بعد کیٹالیٹک کنورٹر چوک ہونے کی وجہ سے انجن کی طاقت کم ہوتی محسوس ہوگی۔
اب بہت سی ورک شاپس پر اس کنورٹر کو صاف کرنے کی مشینیں موجود ہیں۔ کیٹ کنورٹر کے اندر شہد کی مکھی کے چھتے جیسا پتھر کا بنا فلٹر ہوتا ہے جو چوک ہوجاتا ہے اور اسے کیمیکل کے ذریعے پریشر سے صاف کردیا جاتا ہے۔ بہت سے ممالک میں ایک مخصوص مدت کے بعد کیٹالیٹک کنورٹر کو صاف یا تبدیل کروانا لازمی ہوتا ہے۔ گاڑی کو ٹینک سے انجن تک فیول سپلائی کرنے کے لیے فیول پمپ نصب ہوتا ہے۔ فیول پمپ اگر خراب ہوجائے تو بہت تنگ کرتا ہے۔
فیول پمپ کی خرابی کو پکڑنا کافی مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ چلتے چلتے اچانک بند ہوجاتا اور پھر دوبارہ چلنا شروع ہوجاتا ہے۔ فیول پمپ کی خرابی کی صورت میں گاڑی کبھی اسپیڈ اٹھانے سے انکار کردیتی ہے اور کبھی ٹریفک جام میں بلاوجہ بند ہوجاتی ہے اور کچھ دیر میں اسٹارٹ بھی ہوجاتی ہے، یعنی فیول پمپ گرم ہوتے ہی کچھ دیر کے لیے کام بند کردیتا ہے اور پھر چلنے لگتا ہے۔ فیول پمپ تک رسائی چونکہ اتنی آسان نہیں ہوتی لہٰذا مکینک پہلے دیگر تمام ہی چیزوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بہت ہی محنت کے بعد مجرم پکڑا جاتا ہے۔ فیول پمپ کا خراب ہونا یا اس کے فلٹر کا چوک ہونا پرانی ہوتی گاڑی میں معمول کی بات ہے۔ انجن کی طاقت میں کمی کی ایک وجہ اسپارک پلگ میں کچرا یا خرابی بھی ہوسکتی ہے۔ مکینک باآسانی پلگ کھول کر اس کی صحت کا جائزہ لے سکتا ہے۔
گاڑی دھواں کب دیتی ہے؟
آپ کی مکمل صحت مند گاڑی دھواں نہیں دے گی۔ سیلنسر سے صرف گیس کا اخراج ہوگا جو دکھائی نہیں دیتا اور بدبو میں کچا کچا یاں آنکھوں میں چبھن والامحسوس نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ سیلنسر کے دہانے کو تیل سے تر بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر پیٹرول یا سی این جی پر چلنے والی گاڑی دھواں دے تو ضرور کوئی گڑبڑ ہے، ممکن ہے کہ گیس کٹ کی خرابی سے لے کر فیول انجیکٹر تک کوئی چیز درست کام نہیں کر رہی لہٰذا مکینک سے رابطہ کریں۔ دھواں دینے والی گاڑی زیادہ انجن آئل استعمال کرتی ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی وقت انجن آئل مخصوص سطح سے کم ہوکر انجن خراب کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔
گاڑی کے نیچے تیل یا پانی کی لیکیج کے دھبے کو نظر انداز مت کریں۔ لیکیج کی وجہ تلاش کریں اور زیادہ خرابی سے پہلے ہی چند سو روپے میں ٹھیک کروا لیں۔ گاڑی کے اگلے حصے یعنی گڑھوں سے ٹکرانے کے بعد بہت زیادہ آواز قابلِ توجہ ہوتی ہے جس کے سبب کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں سڑکیں کافی حد تک خراب ہیں اس لیے گاڑی کے اگلے یا پچھلے حصے میں کام نکل ہی آتا ہے اور یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں بس تھوڑا خرچہ کرنا پڑتا ہے۔
اسٹیئرنگ میں سے کسی قسم کی آواز کو فوری چیک کروانا چاہیے۔ اگر کوئی لائٹ اچانک بند ہوگئی ہے تو بلب فیوز ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ایک اور سبب فیوز کا خراب ہوجانا بھی ہوسکتا ہے۔ انجن کے ساتھ فیوز باکس نصب ہوتا ہے جسے پانی سے بچانا چاہیے۔
گاڑی کا اے سی
گاڑی کے اے سی کو درست حالت میں رکھنا ہے تو سردی ہو یا گرمی اے سی کو کچھ وقت ضرور چلائیں۔ اگر شدید گرمی میں کولنگ کم محسوس ہو تو ایک وجہ ڈیش بورڈ کے نیچے نصب کنڈینسر کا چوک ہونا بھی ہے۔ دوسری صورت میں اے سی کی کولنگ میں کمی گیس کی لیکیج کے سبب بھی ممکن ہے لہٰذا صرف اوپر سے گیس بھروا لینا مسئلے کا مستقل حل نہیں بلکہ لیکیج کی وجہ تلاش کرنا ضروری ہے۔ جب بھی گاڑی کی سروس کروائیں تو ریڈی ایٹر کے ساتھ لگے بیرونی کنڈینسر پر پریشر سے پانی لگوا لیں تاکہ مٹی صاف ہوجائے اور اے سی کو سانس ملے۔ گاڑی کو بند کرنے سے پہلے اے سی بند کرلیں تاکہ کمپریسر پر اچانک جھٹکا نہ لگے۔
گاڑی سے مختلف آوازیں کیوں آتی ہیں؟
خراب سڑکیں اور اس سے بڑھ کر خراب طریقہ استعمال گاڑی کے مختلف حصوں کو گھسا دیتا ہے۔ گاڑی چوں چوں کی آواز کرتی ہے۔ اس کا حل ڈینٹر بھائی دے سکتے ہیں لیکن محتاط ہوکر ان کے پاس جائیں۔ سیٹیں اگر ڈھیلی ہوں تب بھی آواز آتی ہے۔ بس یہ یاد رکھیں پرانی گاڑی نے چیخ و پکار کرنی ہی ہے اس لیے کچھ نا کچھ برداشت بھی کرنا ہوگا۔ سردیوں میں صبح صبح گاڑی اسٹارٹ کریں تو اچانک اونچی چر چر کی آواز آتی ہے جو کچھ دیر میں بند بھی ہوجاتی ہے۔ یہ آواز بیلٹ کی ہوسکتی ہے جسے مزید بیئرنگ خراب کرنے یا ٹوٹ جانے سے پہلے ہی بدلوا لینا چاہیے۔
ڈیڑھ لاکھ سے 2 لاکھ کلومیٹر تک چلی گاڑی پرانی گاڑی کہلائے گی اور پرانی گاڑی کا خیال بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان میں تیار ہونے والی چھوٹی گاڑیوں کے انجن کو ڈیڑھ سے 2 لاکھ کلومیٹر اور 1300 سے 1800 سی سی کی گاڑیوں کے انجن کو اچھے استعمال کی صورت میں 3 سے ساڑھے 3 لاکھ کلومیٹر باآسانی چلنا چاہیے۔
گاڑی کے دورازے کے لاک، شیشے اوپر نیچے کرنے کے ہینڈل یا بٹن اور اس طرح کے دیگر مسائل ہوتے ہی رہتے ہیں۔ پاکستان میں بمپر پر نشان کے بغیر شاید ہی کوئی گاڑی ہو لیکن پریشان مت ہوں یہ معمولی سی قیمت پر ٹھیک بھی ہوجاتا ہے۔
گاڑی کا عمومی خیال کیسے رکھیں؟
انسان نے ہر دور میں اپنی سواری کا خاص خیال رکھا ہے پھر چاہے وہ سواری کے لیے گھوڑا ہو یا اونٹ۔ سواری سے انسیت شاید اس کی جبلت میں شامل ہے۔ گاڑی کا خیال رکھنے کے لیے کسی بڑے خرچے کی ضرورت نہیں ہے بس چند چیزوں کا دھیان رکھیں۔
گاڑی کے ڈیش بورڈ والے خانے کو دستانے رکھنے کے لیے بنایا جاتا ہے لیکن آپ ایک چھوٹی سی نوٹ بک قلم کے ساتھ یہاں رکھ سکتے ہیں جس میں گاڑی کے انجن آئل، ٹرانسمیشن آئل سمیت دیگر مرمتی کام کی تفصیل درج کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ گاڑی بیچ بھی دیں گے تو یہ معلومات نئے مالک کے کام آسکیں گی۔ گاڑی کے تمام فلوڈز کو چیک کرتے رہنا چاہیے اسی لیے ہر فلیوڈ کے ساتھ اس کا لیول گیج دیا جاتا ہے۔
گڑھوں اور خراب راستوں پر گاڑی مت دوڑائیں۔ گاڑی کی مکمل باڈی اور ٹائر سمیت ہر چیز کو ہی اس سے نقصان پہنچتا ہے۔ خراب راستوں کو آرام سے بھی طے کیا جاسکتا ہے۔
گاڑی بند کرتے ہوئے اے سی اور لائٹس ضرور بند کردیں تاکہ دوبارہ اسٹارٹ کرتے ہوئے سسٹم پر دباؤ نہ پڑے۔
گاڑی اسٹارٹ کرنے کے بعد ایک آدھا منٹ انتظار کرکے گیئر ڈالیں۔ اس دوران انجن آئل کو سرکولیٹ کرنے کا وقت مل جائے گا اور انجن کی زندگی بڑھ جائے گی۔
گاڑی کے اندورنی کارپٹ کو گندا ہونے سے بچائیں، چھت اور ڈیش بورڈ پر گندے ہاتھ مت لگائیں۔ اگر گاڑی میں بچے کچھ نا کچھ گراتے رہتے ہیں تو کارپٹ کے اوپر سیٹ کور والے سے ریگزین شیٹ لگوائی جاسکتی ہے جس کی مالیت 3 سے 4 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ اگر ممکن ہو تو زیادہ گندگی کی صورت میں 4 سے 5 سال میں ایک مرتبہ ڈیٹیلنگ یا انٹر کلیننگ کروالیں جس کی مالیت 2 یا 3 ہزار روپے تک ہوگی۔
پرندوں کی گندگی کو فوری صاف کردیں کیونکہ اس میں تیزابیت ہوتی ہے جو رنگ خراب کرنے یا نشانات کا سبب بنتی ہے۔
کوشش کریں کہ صاف مائیکرو فائبر کپڑے سے گاڑی صاف کی جائے اور مہینے 2 مہینے میں سروس اسٹیشن سے ٹاپ واش کروا لیا جائے۔ اس سے گاڑی کی اندرونی اور بیرونی صفائی زیادہ بہتر ہوجاتی ہے۔
بار بار بریک کا استعمال اور جھٹکے سے گاڑی چلانا اچھی عادت نہیں ہے۔ گاڑی کے ایکسیلیٹر کو اتنا ہی دبائیں جنتی رفتار کی ضرورت ہے۔ بہتر طرزِ ڈرائیونگ فیول کی بچت اور گاڑی کی زندگی بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔
چھوٹے موٹے کام ساتھ ساتھ کرواتے رہیں، تھوڑا وقت نکال کر تکلیف سے بچا جاسکتا ہے۔ کام ایک ساتھ کروانے کے لیے مسائل جمع مت کریں۔ مکینک کی جس حد تک ممکن ہو نگرانی کریں کیونکہ اکثر اوقات بہت سے کام کیے بغیر مکینک سب اچھا ہے کی آواز لگا کر دوسرا کام پکڑ لیتا ہے۔
گاڑی کو درست حالت میں رکھنے کے لیے طویل عرصے تک بند مت رکھیں بلکہ چلاتے رہنا بہتر ہوتا ہے۔
بارش میں احتیاط
بارش کے موسم سے قبل وائپر چیک کرلیں۔ نئے وائپر ایک ہزار سے 1500 روپے میں مل جاتے ہیں اس لیے جب ربڑ خراب ہوجائے تو وائپر تبدیل کروا لیں۔ بارش کے موسم میں بریک کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیے تاکہ سڑک پر پھسلن سے نقصان نہ ہو۔ گاڑی کے انجن میں عمومی طور پر پانی ایئر فلٹر کے راستے جاتا ہے جو عام طور پر کاروں میں اوپر کی جانب ہوتا ہے۔ پانی کے ریلے میں گاڑی بھگانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے پانی ایئر فلٹر کے راستے انجن میں جائے گا اور سب تباہ کر دے گا۔
اسی طرح پانی کا ریلا الیکٹرانک سسٹم کو بھی خراب کرسکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ زیادہ پانی والے مقامات سے گریز کریں اور اگر اچانک سامنا ہو بھی جائے تو وہاں آہستہ آہستہ گزرنے کی کوشش کریں۔ گاڑی کے اندر اگر پانی آجائے تو اسٹارٹ مت کریں بلکہ مکینک تک کسی طرح لے جائیں تاکہ نقصان کا زیادہ اندیشہ نہ رہے۔ پانی اسٹیئرنگ باکس سمیت اور بھی بہت سے آلات کو خراب کرسکتا ہے اس لیے جس قدر ہوسکے اتنی احتیاط کرنی چاہیے۔
کابلی سامان کیا ہوتا ہے؟
گاڑی کے بہت سے اوریجنل پارٹس بعض اوقات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتے۔ کابلی سے مراد اسکریپ شدہ گاڑیوں کے پارٹس ہیں جو کافی مرتبہ بہت اچھی حالت میں مل جاتے ہیں۔ طویل عرصے تک صرف افغانستان سے اسکریپ شدہ گاڑیاں آتی رہیں، اسی وجہ سے ان گاڑی کے سامان کا نام کابل سے منسوب کرتے ہوئے کابلی رکھ دیا۔
کابلی سامان بیچنے والے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ایکسیڈنٹ کی شکار گاڑیوں کا بچا کچھا سامان ہے جو درست حالت میں تھا لیکن بہرحال استعمال شدہ سامان کی اصل صورتحال کیا ہوگی یہ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ جہاں ہے اور جیسا ہے کی بنیاد پر اچھی طرح پرکھ کر کابلی سامان خریدا جاتا ہے جس کی زیادہ سے زیادہ گارنٹی کوئی ایک دو دن چیک کرنے کی دیتا ہے۔
یہاں مکینک کا تجربہ ہی کام آتا ہے لیکن اس تجربے کے فیل ہونے کے امکانات 50 فیصد تک ہوتے ہیں۔ بجٹ اور سامان کی دستیابی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کابلی سامان خریدنا چاہیے۔ کابلی بمپر، لائٹس اور شیشے مناسب قیمت میں بہت بہتر رہتے ہیں لیکن انجن کا سامان، گیئر وغیرہ خریدتے ہوئے احتیاط ضروری ہے۔
میں نے اس تحریر کے ذریعے وہ تمام معلومات آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہیں جن کا علم ایک عام گاڑی کے مالک کو ضرور ہونا چاہیے۔ ان معلومات سے نہ صرف آپ کسی بڑے نقصان سے بچ سکتے ہیں بلکہ گاڑی کی خرابی سے ہونے والی تکلیف سے بھی خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یہ تمام معلومات تجربے کا نچوڑ ہیں جو صرف خرابی کا اندازہ لگانے میں معاون ہوسکتی ہیں یا یوں کہہ لیں گاڑی کے ڈاکٹر یعنی مکینک کو خرابی سمجھانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔
نیو ٹی وی میں کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی کرتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔