اومیکرون قسم کے خلاف بوسٹر ڈوز کی افادیت چند ہفتوں میں گھٹ جاتی ہے، تحقیق
کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کی علامات والی بیماری کے خلاف ویکسین کی اضافی (تیسری) خوراک سے ملنے والا تحفظ 10 ہفتوں میں 25 فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔
یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کی جانب سے جاری تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا کہ کورونا کی نئی قسم کی علامات والی بیماری کے خلاف بوسٹر ڈوز سے ملنے والا تحفظ 10 ہفتوں میں 70 فیصد سے گھٹ کر 45 فیصد ہوگیا۔
حقیقی دنیا میں ہونے والی اس تحقیق میں شامل افراد کو فائزر/بائیو این ٹیک کی تیار کردہ ویکسین کی اضافی خوراک استعمال کرائی گئی تھی۔
اسی تحقیق میں برطانوی ادارے نے یہ بھی دریافت کیا گیا کہ فائزر ویکسین کی 2 خوراکوں کے بعد بوسٹر کے طور پر موڈرنا ویکسین کا استعمال علامات والی بیماری سے 9 ہفتوں تک 70 سے 75 فیصد تحفظ فراہم کرتا ہے۔
مگر تحقیق میں زیادہ تر افراد کو موڈرنا ویکسین بوسٹر کے طور پر استعمال نہیں کرائی گئی تو نتائج کی تصدیق کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہوگی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ جن افراد کو ابتدا میں ایسٹرا زینیکا ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرائی گئی ان میں فائزر بوسٹر ڈوز کی افادیت 10 ہفتوں میں 60 فیصد سے گھٹ کر 35 فیصد ہوگئی جبکہ موڈرنا بوسٹر کی افادیت 45 فیصد تک گھٹ گئی۔
مگر تحقیق میں یہ نہیں بتایا گیا کہ کیا 10 ہفتوں بعد لوگوں کو ویکسین کی ایک اور خوراک کی ضرورت ہوگی یا اتنی کمی بیماری سے مزید چند ماہ تک تحفظ فراہم کرسکے گی۔
مگر برطانوی ادارے کی امیونزائزیشن شعبے کی سربراہ ڈاکٹر میری ریمسی نے بتایا کہ برطانیہ کو ویکسینیشن کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی میں جلدبازی نہیں کی جانی چاہیے، جب تک یہ واضح نہ ہوجائے کہ ویکسین سے اومیکرون سے ہونے والی بیماری کی سنگین شدت کے خلاف کس حد تک تحفظ ملتا ہے۔
یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی کا کہنا تھا کہ اومیکرون کی بیماری کی سنگین شدت کے حوالے سے بوسٹر ڈوز سے ملنے والے تحفظ کا تخمینہ لگانے میں چند فتے درکار ہوں گے کیونکہ ابھی اتنے افراد کورونا کی اس نئی قسم سے متاثر نہیں جس سے کوئی اندازہ لگایا جاسکے۔
تحقیق کے مطابق سابقہ اقسام کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بیماری کی سنگین شدت کے خلاف ملنے والے تحفظ کی شرح کافی زیادہ ہوسکتی ہے۔
اس تحقیق کے لیے محققین نے 27 نومبر سے 17 دسمبر کے دوران مریضوں میں ویکسینیشن کی شرح کا موازنہ کیا جن میں اومیکرون سے بیماری کی تصدیق ہوئی۔
ان افراد میں وہ شامل نہیں تھے جو بیرون ملک سفر کرچکے تھے۔
خیال رہے کہ 23 دسمبر کو برطانیہ میں ایک الگ ڈیٹا میں بتایا گیا تھا کہ اومیکرون سے مریضوں کے زیادہ بیمار ہونے کا خطرہ ڈیلٹا قسم کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔
ڈیٹا کے مطابق اومیکرون قسم کی شدت ڈیلٹا کے مقابلے میں زیادہ کم نظر آتی ہے جبکہ ہسپتال میں داخلے کا خطرہ 40 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ انتباہ بھی کیا گیا کہ اگرچہ بیماری کی شدت معمولی ہوسکتی ہے مگر اس کے زیادہ تیزی سے پھیلنے کے باعث طبی نظام پر دباؤ بہت زیادہ بڑھ سکتا ہے۔
اس ڈیٹا میں یکم سے 14 دسمبر کے دوران برطانیہ میں پی سی آر ٹیسٹوں سے مصدقہ کووڈ کیسز کے ریکارڈ کو دیکھا گیا جس میں 56 ہزار کیسز اومیکرون جبکہ 2 لاکھ 69 ہزار ڈیلٹا کے تھے۔
ماہرین نے دریافت کیا کہ اومیکرون سے متاثر افراد میں ہسپتال جانے کا خطرہ ڈیلٹا کے مقابلے میں 20 سے 25 فیصد تک کم ہوتا ہے جبکہ کم از کم ایک رات کے لیے ہسپتال میں قیام کا امکان 40 سے 45 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
اسی طرح یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ایسے افراد جو پہلے کووڈ سے متاثر نہ ہوئے ہوں یا ویکسینیشن کے عمل سے نہ گزرے ہوں، ان میں اومیکرون سے بیمار ہونے پر ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ڈیلٹا کے مقابلے میں 11 فیصد تک کم ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ اگرچہ اومیکرون سے ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ڈیلٹا سے کم نظر آتا ہے مگر یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم ویکسینز کی افادیت میں کمی لاتی ہے۔