نقطہ نظر

ترک معیشت کو سنبھالنے کے لیے طیب اردوان کا فیصلہ کتنا اچھا؟ کتنا بُرا؟

اردوان کے اس نئے معاشی ٹول کا مختلف مثبت اور منفی پہلوؤں سے جائزہ تو لیا جاتا رہے گا اور بہت کچھ وقت بھی ثابت کردے گا۔

ترکی کی معیشت اور اس معاملے میں صدر طیب اردوان کی شخصیت اور نظریہ اس وقت عالمی سطح پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ یہ وہی اردوان تھے جنہوں نے 2002ء کے بعد یورپ کے مرد بیمار کو دنیا کی 20 بڑی معاشی طاقتوں میں لاکھڑا کیا، لیکن اب یہ کہا جا رہا ہے کہ انہی کے نظریات کی وجہ سے آج ترکش کرنسی دنیا کی کمزور ترین کرنسی بن چکی ہے۔

ترک صدر دراصل مابعد کورونا معاشی صورتحال میں ایک بار پھر پُرعزم ہوگئے ہیں کہ وہ شرح سود کو کم سے کم درجے پر لائیں گے۔ نظریاتی طور پر یہ ان کا فارمولا ہے کہ سود وجہ ہے اور مہنگائی حاصل ہے۔ گزشتہ 2 ماہ میں انہوں نے اپنا یہ فارمولا بار بار دوہرایا ہے اور مارکیٹ نے ردِعمل دیتے ہوئے کرنسی کو دن رات گرایا ہے۔ حتیٰ کہ صرف ایک دن قبل ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی قیمت ساڑھے 18 پر پہنچ گئی تھی۔ سیاسی پنڈت یہ دعویٰ کرتے نظر آرہے تھے کہ اب صدر اردوان کے خلاف صرف مارکیٹ ہی ردِعمل ظاہر نہیں کرے گی بلکہ اب عوامی ردِعمل بھی اٹھنے کو ہے جو قبل از وقت انتخابات کی وجہ نہ بھی بن سکا تو 2023ء میں صدر اردوان کا سورج ڈوبو دے گا۔

کرنسی ایکسچینج کے ترکی پر اثرات

ترکی میں کسی بھی غیر ملکی کرنسی میں بینک اکاؤنٹ کھولنا اس قدر آسان ہے کہ آپ موبائل اپیلیکشن کی مدد سے اسی وقت اپنی رقم اپنی من پسند کرنسی میں محفوظ کرسکتے ہیں۔ ترکش لیرا کو کمزور ہوتے دیکھ کر عام ترکوں نے بھی اپنی بچت ڈالر میں تبدیل کرلیں جبکہ کرنسی ایکسچینج سے منافع کمانے کی دوڑ میں بھی کئی ترک اور غیر ملکی شامل تھے۔ اس وجہ سے بھی ڈالر کی مانگ اور قیمت میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

دوسری طرف ڈالر کی قیمت کے مقامی مارکیٹ پر بھی منفی اثرات پڑ رہے تھے، ہر چیز کی قیمت ڈالر کی قیمت سے نتھی کرکے بڑھایا جا رہا تھا اور مہنگائی آسمانوں کو چُھونے لگی جبکہ عام زندگی شدید مشکلات کا شکار تھی۔ یہی نہیں بلکہ ترک فیکٹریوں کو بھی درآمدی قیمت تعین کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ عالمی خریداریاں بھی کئی اداروں نے روک رکھی تھیں کیونکہ کرنسی میں صبح شام اتار چڑھاو دیکھنے کو مل رہا تھا۔

اردوان کا نیا معاشی ’ٹول‘

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ترک صدر اردوان نے پیر کے روز کابینہ میٹنگ میں ایک فیصلہ کیا اور وہ فیصلہ شام اپنی پریس کانفرنس میں عوام کو سنایا۔ اس ٹول کے مطابق اگر عام ترک اپنی بچت یا سرمایہ کار اپنے غیر ملکی زرِمبادلہ کو لیرا میں بدلوا کر انہیں طے شدہ عرصے کے لیے بچت اکاؤنٹ میں رکھتے ہیں تو حکومت ضمانت دیتی ہے کہ انہیں فوریکس مارکیٹ جتنا منافع ہی ملے گا۔ اگر فوریکس مارکیٹ سرکار کی طے شدہ شرح سود سے کم ہوجائے تب بھی سرمایہ کاروں کو حکومت کی جانب سے منافع دیا جائے گا۔

اس فیصلے کے سامنے آتے ہی لوگوں نے اپنے محفوظ کیے گئے ڈالر بیچنا شروع کردیے۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اس نئے ٹول سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اور وہ بھی جو ڈالر کو گرتے دیکھ کر اپنا کرنسی ایکسچینج منافع گرتا دیکھ رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہی رات میں ایک ارب ڈالر، واپس ترکش لیرا میں بدل دیا گیا جس کی وجہ سے ترکش لیرا جو ساڑھے 18 پر تھا، وہ 12 پر آگیا۔

سوشل میڈیا پر اردوان کے اس نئے ٹول کو ’ترکوڈالر‘ کا نام دیا گیا۔ جس نے بظاہر صورتحال کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ 1987ء کے بعد ترکش لیرا اس قدر تیزی کے ساتھ پہلی بار مضبوط ہوا تھا۔ عوامی سطح پر ایک بار پھر اردوان کی حمایت پیدا ہوئی اور لوگ سڑکوں پر آکر رقص کرنے لگے۔ حکومت مخالف ٹیلی ویژن اینکرز اسکرین پر ہکا بکا رہ گئے، اپوزیشن نے اسے کسی سازش کا نام دیا۔ بہرحال اردوان نے اپنے نئی معاشی ٹول کو لاگو کردیا۔

کیا یہ ’اردوانومکس‘ ہے؟

ترکی اور عالمی سطح پر کئی لوگ اس پر حیران تھے کہ آخر یہ ٹول ہے کیا؟ کیا یہ اردوان کی تخلیق ہے؟ سوشل میڈیا پر ایک معروف صحافی نے اسے اردوانومکس کی اصطلاح دی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود ترکی میں یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق یہ ٹول 1970ء کی دہائی میں غیر ملکی زرِمبادلہ کے بہاؤ کو حاصل کرنے کے لیے آزمایا گیا تھا، خاص طور پر بیرونِ ملک مقیم ترک شہریوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے۔ اس وقت اسے ’کنورٹیبل ترک لیرا ڈپازٹس‘ (CTLDs) کہا گیا تھا۔ لیکن بالآخر یہ اسکیم مقامی بینکوں کی جانب سے قرضوں میں زبردست اضافے کا باعث بنی اور افراطِ زر کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی۔ اس سے خزانے پر غیر معمولی بوجھ پڑا اور بالآخر 1978ء میں اس اسکیم کا خاتمہ کردیا گیا لیکن تب تک یہ 2 ارب 50 کروڑ ڈالرز کا قرضہ چڑھا چکی تھی۔

ذرائع کے مطابق حال ہی میں استعفیٰ دینے والے ترک وزیرِ خزانہ لطفی ایلوان نے بھی لیرا کی قدر میں زبردست کمی کے باوجود رواں سال اس خیال کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ اسکیم قابو سے باہر ہوگئی تو ترک حکومت کے مالی معاملات کو زبردست ٹھیس پہنچے گی اور فوریکس بحران مزید بڑھ جائے گا۔ اس کے علاوہ ایلوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس اسکیم سے دولت کی منتقلی معاشرے کے زیادہ آمدنی رکھنے والے طبقات میں ہوگی کیونکہ سرمایہ کاری کے قابل بھی زیادہ تر وہی ہیں اور انہی کو دوسروں کے مقابلے میں بہتر نفع حاصل ہوگا۔

تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ لوگوں کی بچت اور منافع خوروں کی وجہ سے ڈالر کی بڑھتی مانگ کو روک کر کرنسی ریٹ کے مصنوعی چڑھاؤ کا سدِباب کردیا گیا ہے کیونکہ یہ ٹول بنیادی طور پر غیر ملکی زرِ مبادلہ کی مد میں سرمایہ رکھنے سے متعلق عام ترکوں اور سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور لیرا خریدنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قومی خزانے پر اس کا دباؤ کم کرنے کے لیے یہ ٹول 3، 6، 9 اور 12 ماہ کے دورانیے کے لیے ہوگا اور ان مقررہ دورانیوں سے پہلے بچت اکاؤنٹ سے رقم نکلوانے والوں کو بطور سزا کم منافع ملے گا۔

پرانی شراب، نئی بوتل؟

کئی ترک معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نیا طریقہ دراصل شرح سود میں غیر اعلانیہ اضافہ ہے کیونکہ افراطِ زر کے ساتھ فرق کو خزانے سے ادا کیا جانا ہے۔ معروف ماہرِ معیشت رفعت گرقائنق کا کہنا ہے کہ ’دراصل حکومت نے بغیر کسی اعلان کے شرح سود میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے‘۔

کچھ یہی الفاظ دوسرے ماہرِ معیشت مخفی ایغلمز کے ہیں، جو کہتے ہیں کہ ’اگر شرح تبادلہ 40 فیصد بڑھتی ہے اور شرح سود 14 فیصد ہو تو باقی ماندہ 26 فیصد قومی خزانے کو ادا کرنا ہوگا اور یہ شرح سود بھی نہیں کہلائے گا۔ ہے نا حیرانی کی بات؟‘

علاوہ ازیں اس نئے ٹول کے حوالے سے چند خدشات یہ بھی ہیں کہ اس سے افراطِ زر بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گی کیونکہ مارکیٹ میں لانے کے لیے مزید لیرا کی ضرورت ہوگی۔

اردوان کے اس نئے معاشی ٹول کا مختلف مثبت اور منفی پہلوؤں سے جائزہ تو لیا جاتا رہے گا اور بہت کچھ وقت بھی ثابت کردے گا تاہم ترکش کرنسی کو کسی حد تک محفوظ بنا لیا گیا ہے، ترک معیشت کو اس گرواٹ کے علاوہ کسی منفی اشاریے کا سامنا فی الحال نہیں تھا۔

ترکی اس وقت دنیا میں تیزی سے اقتصادی ترقی کرنے والے ممالک میں سرِفہرست ہے۔ آئی ایم ایف، اسٹینڈرڈ اینڈ پورز، موڈیز، آئی ایم ایف اور اقوامِ متحدہ کے مطابق ترکی 2022ء-2021ء میں دنیا میں سب سے زیادہ سرعت سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔

ترکی کا اس وقت تجارتی حجم گزشتہ سال کے مقابلے میں 27.47 فیصد بڑھتے ہوئے 400 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور برآمدات میں نیا ریکارڈ قائم کرتے ہوئے 250 ارب ڈالر کے لگ بھگ آمدنی حاصل کی جاچکی ہے جبکہ دفاعی صنعت میں ترکی نے پہلے 11 ماہ میں 2 ارب 8 کروڑ ڈالر اور سیاحت کے شعبے سے کورونا کی وجہ سے مختلف پابندیاں ہونے کے باوجود 20 ارب ڈالر کی آمدنی حاصل کی جبکہ آئندہ سال 5 کروڑ سیاحوں کی آمد سے 40 ارب ڈالر کی آمدنی کی توقع ہے۔

غلام اصغر ساجد

لکھاری بین الاقومی معاملات میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس حوالے سے لکھتے بھی ہیں۔ وہ ابھی Erciyes University سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔