نقطہ نظر

کراچی میں کمپنی کی پہلی بیوپاری کوٹھی اور ناتھن کرو کی رسوائی

میسور میں جب ٹیپو سلطان نے آخری سانسیں لیں، ان دنوں سندھ میں سیاسی اور بیوپاری مقاصد کے ساتھ کمپنی سرکار کا پہلا وفد سندھ پہنچا

17ویں صدی کا آخری برس اور 18ویں صدی کی ابتدا ایشیا کے لیے کوئی اچھی ثابت نہیں ہورہی تھی۔ سر تھامس رو نامی ایک انگریز سفیر کچھ برسوں تک ہندوستان میں قیام پذیر رہا اور اسے ہندوستان میں بیوپار کی اجازت دی گئی، یوں سورت میں کمپنی کی پہلی تجارتی کوٹھی تعمیر کی گئی۔ دراصل یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا وہ بیج تھا جو جہانگیر نے 1617ء میں انگریز کو بیوپار کی اجازت دے کر سورت میں بویا تھا۔

جب زمین ذرخیز ہو تو بیج پھوٹ ہی پڑتا ہے اور تناور درخت بن کر میٹھے اور کڑوے ثمرات دینے لگتا ہے۔ کمپنی کے بیج سے اُگے ہوئے درخت کی جڑیں دُور دُور تک پھیل گئیں، اور جہاں جہاں تک گئیں وہاں کے رہنے والوں کی گردن میں ایسی لپٹیں کہ لوگ مالک سے غلام اور حاکم بادشاہ سے فقیر ہوگئے۔

لارڈ ویلزلے 1798ء میں برطانیہ سے انڈین گورنر جنرل کی حیثیت سے ہندوستان پہنچا۔ گورنر جنرل کے پہنچنے سے جنوبی ہند کے سمندری ساحل کی ہواؤں میں آگ کی لپٹیں اٹھنے لگیں۔ گورنر جنرل کلکتہ جانے سے پہلے مدراس (چنائے) رُکا۔ مدراس سے کلکتے جاتے ہوئے وہ ٹیپو سلطان کو شکست دینے سے متعلق ہی سوچتا رہا ہوگا جبکہ اس طرف سمندر کے کنارے بمبئی کے گورنر جوناتھن ڈنکن نے کمپنی کی جڑوں کو مزید وسعت دینے کے لیے ناتھن کرو کو سندھ بھیجا تاکہ اس طرف پگڈنڈی بن سکے، پگڈنڈی بن گئی تو کمپنی سرکار کے لیے راستہ بنانا کوئی مشکل کام نہیں تھا کہ عرب اور اونٹ والی کہانی کمپنی سرکار پر ایسی جچتی ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ جچتا ہے۔

میسور میں ٹیپو سلطان نے اپنی آخری سانسیں 4 مئی 1799ء کو لی تھیں اور انہی دنوں سندھ میں سیاسی اور بیوپاری مقاصد کے ساتھ پہلا وفد، بمبئی حکومت کے ملازم ناتھن کرو کی قیادت میں کراچی کے ساحل پر آکر اترا۔

مدد علی سندھی صاحب لکھتے ہیں کہ 'یہ وہ دن تھے جب سندھ پر تالپوروں کے میر فتح علی خان کی حکمرانی تھی اور سندھ کے حکمران افغانستان کے بادشاہ کے خراج گزار تھے۔ ناتھن کرو سے پہلے بمبئی کے گورنر نے ایک ایرانی بیوپاری، آغا عبدالنبی کو ایک ایلچی کی حیثیت سے اپنے خطوط (ایک خط امیر سندھ میر فتح علی تالپور اور دوسرا ان کے بھائی میر غلام علی تالپور کے نام تھا) کے ساتھ سندھ کے دربار میں بھیجا تاکہ وہ یہاں کے سیاسی اور معاشی حالات جان سکے۔

’مارچ 1799ء میں آغا عبدالنبی نے سندھ کے امیروں سے ملاقات کی تھی۔ امیروں نے ننگر ٹھٹہ میں تجارتی کوٹھی کو دوبارہ کھولنے کا پروانہ اس شرط پر جاری کیا تھا کہ اگر افغانستان نے سندھ پر حملہ کیا تو کمپنی سرکار سندھ کا ساتھ دے گی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ (1758ء میں میاں غلام شاہ کلہوڑو کے دور میں شاہ بندر اور ٹھٹہ میں کمپنی کی تجارتی کوٹھیاں کھلی تھیں، مگر 1771ء میں جب غلام شاہ کلہوڑو نے یہ جہاں چھوڑا تو میان سرفراز کی حکمرانی میں پیدا ہونے والی افراتفری کے باعث 1775ء میں کوٹھیوں کو بند کیا گیا تھا)۔ ویسے یہ کمال کی شرط تھی اور حقیقت سے اتنی دُور تھی کہ اس شرط کو تسلیم کرتے وقت گورے دبی ہنسی ہنسے ہوں گے بلکہ قہقہے بھی لگائے ہوں گے۔

'اس اجازت کے بعد پرانی عمارت میں ہی کوٹھی کھولنے کا حکم دیا گیا اور باغ کے لیے ڈھائی سو مربع میٹر زمین فراہم کی گئی اور وہ رعایتیں بھی بحال کی گئیں جو کلہوڑا دورِ حکومت میں انہیں حاصل تھیں۔ سو یوں آغا نے بمبئی کے گورنر کو خط لکھا جس میں: ٹھٹہ کی تجارتی کوٹھی کے لیے فوری طور پر، چینی، کالی مرچ، چینی کے برتن اور دیگر ساز و سامان بھیجنے کی سفارش کی گئی'۔ چونکہ کمپنی کی جڑیں ٹھٹہ تک پہنچ گئی تھیں لہٰذا اب کراچی یا حیدرآباد زیادہ دُور نہیں تھا۔

مئی 1799ء میں جب ناتھن کرو کراچی کے ساحل پر اترا تو اس کو کسی قسم کا کوئی پروٹوکول نہیں دیا گیا کیونکہ کراچی کے بیوپاری بالخصوص دریانو مل کراچی میں تجارتی کوٹھی کے کھولے جانے کا سخت مخالف تھا۔

مدد علی لکھتے ہیں کہ 'کراچی کے ہندو بیوپاریوں کی رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے ناتھن کرو سندھ کے حکمران میر غلام علی تالپور سے مدد لینا چاہتا تھا۔ میر نے مدد کو ان مطالبات سے مشروط کیا کہ ناتھن کرو کمپنی کی طرف سے اس کے لیے ایک سرجن، بڑی تعداد میں توپ کے گولے اور اس کی فوج کی تربیت کے انتظامات کرے۔ ناتھن کرو نے ان شرائط کو پورا کرنے کا وعدہ کیا اور کرو کی یہ کوششیں کامیاب ہوئیں'۔

اس حوالے سے احمد حسین صدیقی تحریر کرتے ہیں کہ 'یہ 1799ء کا وقت تھا جب کراچی میں انگلش فیکٹری قائم کرنے کے لیے کرو کو 26 اگست 1799ء کو وہ پروانہ ملا جس کی رو سے اسے کراچی قلعے سے باہر 4 ایکڑ زمین کی فراہمی منظور کی گئی تاکہ اس پر ایک باغ لگایا جاسکے اور تجارتی کوٹھی کی عمارت تعمیر ہوسکے۔ کیپٹن کارلس نے 1837ء میں جو کراچی بندر کا نقشہ بنایا تھا اس میں اس کوٹھی کے کھنڈرات لیاری ندی کے بائیں کنارے پر گاندھی گارڈن سے دُور دکھائے گئے ہیں'۔ اسی طرح 24 ستمبر 1799 کو اسی جگہ پر کمپنی کا جھنڈا لہرانے کی تقریب ہوئی اور تعمیراتی کام کا آغاز ہوگیا اور ناتھن کرو مزید ہدایات لینے کے لیے بمبئی چلا گیا اور فروری یا مارچ تک واپس لوٹ آیا۔

19ویں صدی کی ابتدا میں یہاں کے معاشی اور معروضی حالات اور کیفیتیں کیسی تھیں؟ ان پر ناتھن کرو نے ایک تفصیلی و تجزیاتی رپورٹ قلمبند کی جو ان دنوں کا احوال جاننے کے لیے انتہائی اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: 'کراچی کا قلعہ مٹی اور لکڑی کی دیواروں سے بنا ہوا ہے۔ اس پر کچھ توپیں رکھی ہوئی ہیں جس سے سمندر سے آتے جہاز کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا کیونکہ جہاز کو قلعے سے 3 کوس دُور سامان اتارنے پر مجبور کیا جاتا ہے مگر توپ کے یہ گولے جہاز سے اتر جانے والے فوجیوں کو ضرور نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جہاں جہاز لنگر انداز ہوتے ہیں وہاں سے 200 ٹن سے زائد وزنی جہاز کراچی بندرگاہ سے آسانی سے نہیں گزر سکتا، اگر کوئی جہاز حملے کے ارادے سے بندرگاہ میں داخل ہو تو پہلے اسے وہاں کھڑی کشتیوں سے نمٹنا ہوگا۔ ان کشتیوں میں سے کچھ پر تو 12 سے زائد وزنی اور طاقتور توپیں اور توپ چلانے والے موجود رہتے ہیں جبکہ حملے کی صورت میں وہاں رضاکاروں کی کمی نہیں ہوتی۔

'شہر کے محصول سمیت کراچی بندر کا محصول 80 ہزار روپے ہے جبکہ شاہ بندر اور ٹھٹہ کا محصول ایک لاکھ 20 ہزار روپے اور حیدرآباد کا ڈیڑھ لاکھ موصول ہوتا ہے۔ سندھ کے حاکموں کو سالانہ محصول کی مد میں 40 لاکھ روپے ملتے ہیں جس میں سے 10 لاکھ روپے وہ افغانستان کے بادشاہ کو بطور خراج دیتے ہیں۔ یہاں کے امیروں کے پاس بہت پیسہ ہے۔ مگر یہ معاشیات کو بہتر بنانے کی کوشش بالکل بھی نہیں کرتے۔ یہاں نمک کراچی کے ساحلی کناروں اور سندھ کے دیگر ساحلی کناروں سے اکٹھا کیا جاتا ہے جبکہ ٹھٹہ کے قریب قلمی شورے (پوٹاشیئم نائٹریٹ) کے بہت سے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ شاہ بندر اور اورنگا بندر کے قریب یہ کم ملتا ہے مگر ساکرہ پرگنہ میں یہ بڑی مقدار میں موجود ہے۔ یہاں آموں اور تربوز کی فراوانی ہے جبکہ دیگر پھلوں کی کمی ہے۔ البتہ ناریل اور کھجور مل جاتے ہیں۔ یہاں جلاؤ لکڑی بے تحاشا ہے جبکہ کشتیوں کے لیے لکڑی ملبار سے منگوائی جاتی ہے جس سے چھوٹی اور بڑی کشتیاں اور جھمٹی کشتیاں بنائی جاتی ہیں۔

'سندھ کے ساحل پر بسی آبادیوں میں اونٹ بہت زیادہ پائے جاتے ہیں اور یہ انتہائی قیمتی جانور ہے۔ کراچی سے کچھ، بُھج، کیچ اور قندھار تک زمینی باربرداری اونٹوں کے قافلوں پر ہوتی ہے۔ ان قافلوں کے ساتھ جو لوگ ہوتے ہیں وہ دن کو آرام کرتے ہیں اور رات کو سفر کرتے ہیں۔ یہاں پلا مچھلی بہت مشہور ہے۔ یہاں جنگلوں میں گیدڑ، بھیڑیے اور دیگر جنگلی جانور بھی پائے جاتے ہیں جبکہ دریائے سندھ اور جھیلوں میں اود بلاؤ کی بہتات ہے، ان کا شکار کرکے ان کی کھالیں اتار لی جاتی ہیں۔ ان کھالوں کی کابل اور قندھار کی مارکیٹوں میں اچھی قیمت مل جاتی ہے۔

'یہاں عام طور پر ایرانی اور ملتانی پنجابی زبان بولی جاتی ہے مگر اردو فقط کچھ بیوپاریوں اور مسافروں کو ہی سمجھنا اور بولنا آتی ہے، عام لوگ نہیں سمجھتے۔ فارسی زبان درباروں اور سرکاری اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ فردوسی کا ’شاہ نامہ‘ دربار میں پڑھا جاتا ہے اور کتنے درباریوں کو یہ بر زبان یاد بھی ہے۔ یہاں کا امیر جب کسی اور جگہ منزل کرتا ہے تو جب تک وہ پیدل چلتا جاتا ہے تب تک اس کے آگے ایک شاعر باآواز بادشاہ کی ثنا کرتا جاتا ہے اور وقتاً فوقتاً بادشاہ کا نام بھی پکارتا جاتا ہے۔ کچھ مواقعوں پر شاعر کو آواز مزید اونچی کرنے کی ہدایات بھی ملتی رہتی ہیں تاکہ دُور دُور تک یہ کلمات لوگوں کی سماعتوں تک پہنچ سکیں۔

’کراچی سے ٹھٹہ جانے والا راستہ ہموار ہے لہٰذا توپوں اور خوراک کی آمد و رفت کے لیے مناسب ہے، اور بارشوں کے بعد یہ راستہ سبزے سے بھر جاتا ہے اور انتہائی شاندار منظر پیش کرتا ہے۔ یہ سبزہ مویشیوں کو بے تحاشا چارہ بھی فراہم کرتا ہے اور ٹھٹہ سے حیدرآباد تک پانی کے راستے (دریائے سندھ پر) سفر شاندار ثابت ہوگا۔ ٹھٹہ سے فوج خشکی کے راستے بھی حیدرآباد کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ مگر جس جزیرے پر حیدرآباد کا قلعہ بنا ہوا ہے وہ دریا کے کناروں سے 6 میل دُور ہے۔ مگر وہاں پہنچنا مشکل ہے، ایک تو راستہ خراب ہے اور دوسرا حیدرآباد کے قریب دریائے سندھ کو پار کرنا مشکل ہے کیونکہ یہاں اس کا پاٹ ایک میل پر محیط ہوتا ہے جہاں امیر کسی بھی فوج کے اترنے سے پہلے کناروں پر اپنی فوج کے ساتھ تیار کھڑا ہوگا۔ البتہ ٹھٹہ اور حیدرآباد کے بیچ میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر چھوٹا سا جھرک نامی شہر موجود ہے جسے سیہون سے آنے والے اناج اور گھی کا گودام بھی کہا جاتا ہے اور ساتھ میں وہاں پالتو جانور بھی زیادہ ہیں جن کو آسانی سے قبضے میں لیا جاسکتا ہے۔'

یہ سندھ سے متعلق وہ سرسری خاکہ تھا جسے ناتھن کرو نے اپنی رپورٹ میں خوبصورتی سے کھینچا تھا۔ اس تحریر سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کمپنی سرکار یہاں بیوپار کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی اپنی جڑیں پیوست کرکے قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ مگر کراچی جہاں اس وقت کوٹھی کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے وہاں کرو بھی بمبئی سے لوٹ آیا ہے۔ وہ امیروں کو تحائف دینے کے بہانے حیدرآباد کی طرف نکل پڑا ہے۔ اس سفر کا ذکر اس نے اپنی 7 مئی 1800ء کی ایک رپورٹ میں بھی کیا ہے جو اس نے بمبئی کے گورنر جوناتھن ڈنکن اسکوائر کو ارسال کی تھی۔

اس رپورٹ میں وہ یہ بتاتا ہے کہ ’کراچی کے بیوپاری نہیں چاہتے کہ کمپنی یہاں تجارتی کوٹھی کھولے اور فقط ٹھٹہ تک محدود رہے۔ ان اعتراضات کی وجہ سے سندھ کے امیر کچھ پریشان ہیں اور ان کے ذہن میں بھی یہ شکوک و شبہات ہیں کہ ہم یہاں بیوپار کے لیے نہیں بلکہ قبضے کی نیت سے آ رہے ہیں‘۔

کرو 2 مارچ 1800 کو مسٹر دُرہم اور توپ خانے کے 2 افراد کے ہمراہ ٹھٹہ سے ہوتے ہوئے 19 مارچ کو حیدرآباد پہنچا۔ اس نے تمام امیروں سے ملاقات کی، بالخصوص میر غلام علی تالپور نے اسے تعاون کی یقین دہانی کروائی اور کہا کہ سندھ کو اپنا ملک سمجھیں، ساتھ ہی کرو کو کوٹھی کی توسیع اور اپنی مرضی سے 100 ملازمیں رکھنے کی آزادی دی گئی۔ کرو نے گزارش کی کہ: 'آنے والے دنوں میں اگر کوئی غلط فہمی جنم لے یا اس کے خلاف کوئی شکایت پہنچے تو پہلے اسے بلا کر سنائی جائے اور اس بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ کیا جائے'۔

کرو اپنے ساتھ سوتی کپڑے کے تھان لے آیا تھا جن کو امیروں نے پسند کیا اور اسے یہ امید دلائی تھی کہ وہ اس سے سالانہ 2 سے 5 لاکھ روپے تک کی مالیت کے کپڑے خریدیں گے۔

بعدازاں میر صاحبان 10 دنوں کے لیے شکار پر چلے گئے اور لوٹنے پر کوٹھی سے جڑے دیگر معاملات پر تفصیلی بات چیت ہوئی جس کے نتیجے میں 14 اپریل کو سندھ کے امیر میر فتح علی خان کی مہر کے ساتھ کچھ حکم نامے جاری ہوئے جس میں: ’کمپنی کے بیوپاری جہازوں کے درآمدی سامان پر مقررہ فیس کی معطلی کا حکم شامل تھا اور ساتھ ہی ساتھ ناتھن کرو کے یہاں آنے کو سراہا گیا تھا اور یہ امید کی گئی کہ یہ تجارتی کوٹھی کمپنی اور سندھ حکومت کی دوستی کو اور مضبوط بنانے کا سبب بنے گی، ساتھ ہی دیگر ٹیکسوں پر بھی اچھی خاصی چھوٹ دی گئی اور کمپنی کے جہازوں اور چھوٹی کشتیوں پر ایک برس تک ٹیکس معاف کردیا گیا۔ اس کے علاوہ کمپنی کے ریزیڈنٹ کو کراچی قلعے کے دروازوں سے داخل ہونے کی اجازت بھی دی گئی‘۔ یہ حکم نامہ بھی اسی تاریخ کو امیر کی موجودگی میں کراچی کے قلعہ دار کے لیے جاری ہوا۔

اس کی مختصر تحریر کچھ اس طرح سے تھی: 'کراچی شہر کے قلعہ دار اور عملدار سمجھ جائیں گے کہ برطانوی محترم کرو کو، ہماری طرف سے سچے وفادار کا رتبہ دیا گیا ہے اس لیے اس کی عزت کی خاطر یہ ہدایات دی جاتی ہیں کہ: جب وہ ہتھیاروں سے قلعے کے دروازے میں داخل ہو یا باہر نکلے تو اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی حرکت نہ کی جائے اور نہ ہی کوئی رکاوٹ ڈالی جائے۔ آپ پر اس حکم پر عمل کرنے کی سخت تاکید کی جاتی ہے۔ تاریخ: 19 ذوالقعد 1314ھ / 14 اپریل 1800ء‘۔

ناتھن کرو، خوش تھا اور اسے خوش ہونا بھی چاہیے تھا کیونکہ بیوپاریوں کی اتنی شدید مخالفت کے باوجود بھی وہ کراچی میں کمپنی کی تجارتی کوٹھی قائم کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ آنے والے مہینوں یعنی مئی، جون اور جولائی میں کرو کی خط و کتابت سے لگتا ہے کہ وہ بہت مصروف رہا۔ بمبئی کے گورنر کو کراچی کوٹھی کے لیے کپڑا اور دیگر ساز و سامان جلد از جلد بھیجنے کے لیے خط تحریر کرتا ہے جس میں افغانستان کی سیاسی صورتحال سے متعلق جو معلومات حاصل ہوسکیں، ان کی تفصیل بھی قلمبند کرتا ہے۔

جون 1800ء کے کچھ دنوں میں تالپوروں کو تحائف دینے کے لیے ہمیں کرو حیدرآباد میں نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور مہمان بھی ہمیں حیدرآباد میں نظر آتا ہے، جو تالپوروں کے امیر میر فتح علی خان کے لیے 2 ہاتھیوں اور دیگر قیمتی تحائف دینے ناگپور سے آیا ہوا ہے۔ اسے ناگپور کے مرہٹہ سردار بھونسلے نے بھیجا ہے اور یہ مہمان ناگپور کے سردار کا وزیر ہے۔ مرزا اسماعیل نے کرو کو بتایا تھا کہ 'امیر کے ساتھ ناگپور کے راجہ کا پہلے کوئی واسطہ نہیں تھا اور نہ ہی کوئی خط و کتابت تھی، یہ سب ٹھٹہ کے ہندو وکیل کی وجہ سے ہوسکا ہے جو کئی برسوں سے ناگپور کے راجہ کی خدمت میں رہا ہے'۔

تجارتی کوٹھی پر تقریبا 10 لاکھ روپے کی لاگت آئی۔ بظاہر سب ٹھیک تھا۔ ننگر ٹھٹہ کی کوٹھی کا بیوپار زوروں پر تھا۔ جولائی کی گرمیوں کے بعد بارشوں کے موسم کی ابتدا ہوئی۔ بلاشبہ جل تھل موسم کا لطف ساحل سے زیادہ اور کہیں نہیں ملتا۔ ان برستی بارشوں کے دوران کرو کے پاس حاکموں کا ایک حکم نامہ موصول ہوا۔ کرو اپنی اگست کی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں: '۔۔۔اس ماہ کی 15 تاریخ کو ایک حکم نامہ ملا کہ کراچی کی تجارتی کوٹھی کو فوری طور پر بند کیا جائے اور مجھے فوری طور پر کراچی چھوڑ کر ٹھٹہ پہنچنے کے احکامات جاری ہوئے اور ٹھٹہ میں بھی مجھے اپنی رہائش گاہ تک محدود رہنے کی تاکید کی گئی'۔

17 مہینوں پر مشتمل مسٹر کرو کی تگ و دو اور محنت کا جوڑا ہوا محل پلوں میں کسی ریت کے گھروندے کی طرح امیر کی ایک احکاماتی لہر سے ملیامیٹ ہوگیا تھا۔ کرو بارش کے موسم میں اپنا تھوڑا سامان اور کپڑے لے کر گھوڑے پر ٹھٹہ کے لیے روانہ ہوگیا اور 23 اگست کو ٹھٹہ پہنچا۔ مسٹر درہام کراچی میں ہی رہے۔ کراچی سے روانگی سے قبل کراچی کا ایک دیوان، جو اس کا ایک اچھا دوست بھی تھا، ملنے کے لیے اس کے پاس آیا۔ دیوان نے کرو کو کوٹھی کی بندش کا راز اس شرط پر بتایا کہ وہ نہ کسی سے اس کا ذکر کرے گا اور نہ قلمبند کرے گا۔ مگر کرو اپنے وعدے سے مکر گیا اور اس راز سے پردہ اٹھاتی تحریر ہم سب پڑھ رہے ہیں۔ کرو لکھتا ہے: 'دیوان نے مجھے بتایا کہ ناگپور کے وزیر کے ہمراہ ٹھٹہ کا ایک وکیل حاکموں کے پاس آیا ہوا تھا، اسی نے ہی انگریزوں کی سازشوں اور فریبوں کے بارے میں امیروں کے کان بھرے تھے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے زمان شاہ نے بھی امیروں کو سختی سے کہا تھا کہ انہوں نے انگریزوں کو اتنا نزدیک کیوں آنے دیا؟'

ٹھٹہ کے معروف بیوپاری حاجی عمر، جس کا سندھ کی دربار سے اچھا تعلق تھا، اس نے خود کرو کو بتایا کہ بہت سارے ہندوستانی راجاؤں، کَچھ میں مقرر فتح محمد اور مسقط حکومت نے بھی انگریزوں کے سندھ میں اتنا زیادہ نزدیک آنے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ حتیٰ کہ وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ کراچی پر انگریزوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ ان ساری باتوں اور حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے سندھ کے امیروں نے یہ احکامات جاری کیے ہیں۔

کرو ان حالات میں یقیناً بہت پریشان تھا، ایسے میں چوتھے دن یعنی 27 اگست کو کراچی اور ٹھٹہ کے بیچ راستے میں کرو کے منشی پر کچھ گھڑ سواروں نے حملہ کیا، جو کرو کا ضروری سامان کراچی سے ٹھٹہ لا رہا تھا۔ کچھ لوگ زخمی ہوئے اور شاید ایک کا بازو تک کٹ گیا اور گھڑ سوار گم ہوگئے۔ حکومت کی جانب سے اسے ڈرانے کے لیے یہ نفسیاتی حملہ کیا گیا تھا۔ حالات جب مزید سنجیدہ ہوئے تو حیدرآباد سے مرزا اسماعیل کا خط پہنچا جس میں کرو کو یہ کہا گیا تھا کہ وہ حیدرآباد آئے اور امیروں سے ملاقات کرے۔

آخری کوشش کے طور پر کرو حیدرآباد سے بھیجی گئی کشتی پر 10 ستمبر کو ٹھٹہ سے روانہ ہوا۔ امیروں سے ملاقات ہوئی، کرو نے شکوے شکایتیں کیں کہ کمپنی سرکار کا سرمایہ ڈوبنے کے ساتھ اس کی بے عزتی بھی ہوئی ہے۔ اگر تجارتی کوٹھی کو بند ہی کرنا تھا تو اجازت کیوں دی وغیرہ وغیرہ۔ مگر امیر ساری باتوں کو باتوں باتوں میں ٹالتے رہے۔ کرو مایوس ہوکر لوٹ گیا۔ وہ اپنی رپورٹ میں سندھ سے جانے سے متعلق تحریر کرتا ہے: ’کپتان اسکنر اینٹیلوپ نامی جہاز پر سوار ہوکر 22 اکتوبر 1800ء کو کراچی بندرگاہ پہنچے، 3 دنوں کے بعد میں جہاز پر سوار ہوا اور کراچی کے ساحلوں سے بصرہ کی طرف روانہ ہوا'۔

اینٹیلوپ دھواں اُڑاتا کراچی کی ساحلی حدود سے جب باہر جا رہا تھا تب شاید سب سے زیادہ خوشی دریانو مل کو ہوئی ہوگی۔ مگر وہ شاید یہ نہیں جانتا تھا کہ کمپنی کی نظر جہاں ایک بار پڑجائے وہاں اپنی جڑیں پھیلا کر ہی دم لیتی ہے۔ دراصل کمپنی ایک استعارہ ہے، بنیادی طور پر یہ سرمایہ داری کا وہ کھیل ہے جو صدیوں سے چل رہا ہے اور شاید آگے بھی چلتا رہے گا۔

کمپنی کی کوئی بھی صورت ہوسکتی ہے۔ چاہے ایسٹ انڈیا کمپنی ہو یا کوئی ملٹی نیشنل کمپنی۔ سرمایہ دار ہو یا کوئی وڈیرا۔ ہر ایک کو اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں۔ وہ عام لوگوں کے لیے کبھی نہیں سوچتا۔ اپنے مفادات کے لیے 1808ء میں ایک بار پھر کمپنی کا جہاز کراچی کے ساحل پر لنگر انداز ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ مگر 1843ء میں ابھی کافی وقت پڑا ہے جب کمپنی سرکار نے سندھ پر قبضہ کرلیا تھا کہ کمپنی سرکار نے اپنا سرمایہ کبھی ڈوبنے نہیں دیا!


حوالہ جات:


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ابوبکر شیخ

ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔