مگر اب انکشاف ہوا ہے کہ کورونا کی اس نئی قسم کا ارتقا عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے وائرس کے جینیاتی مواد کے ایک حصے کے ذریعے ہوا۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
بائیو میڈیکل کمپنی اینفرینس کی اس تحقیق کے ابتدائی نتائج سے عندیہ ملا ہے کہ کورونا کی یہ نئی قسم ممکنہ طور پر اسی وجہ سے سابقہ اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہوسکتی ہے۔
تحقیق میں موجود ڈیٹا سے انکشاف ہوا کہ اومیکرون میں جینیاتی مواد نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک اور انسانی کورونا وائرس ایچ کوو 229 ای سے مماثلت رکھتا ہے۔
محققین نے خیال ظاہر کیا کہ اومیکرون کا ارتقا کسی ایسے فرد کے اندر ہوا جو کووڈ کے ساتھ ساتھ ایچ کوو 229 ای سے بیک وقت متاثر تھا۔
انہوں نے کہا کہ اومیکرون کا جینیاتی سیکونس کورونا وائرس کی سابقہ اقسام میں نظر نہیں آتا بلکہ وہ عام نزلہ زکام والے وائرس اور انسانی جینوم کا امتزاج ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس جینیات مواد کے باعث اومیکرون خود کو زیادہ 'انسانی' دکھانے والی قسم بن گئی جس کے باعث اس کے لیے انسانی مدافعتی نظام پر حملہ آور ہونا آسان ہوا۔
تحقیق میں خیال ظاہر کیا گیا کہ ممکنہ طور پر اس سے وائرس کو زیادہ آسانی سے پھیلنے میں مدد ملی، مگر ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے یا سنگین بیماری کا باعث بن سکتی ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان سوالات کے جواب جاننے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
اس سے قبل تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ پھیپھڑوں اور نظام ہاضمہ کے خلیات میں سارس کوو 2 اور عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرسز بیک وقت رہ سکتے ہیں۔
ایک ہی میزبان خلیے میں 2 مختلف وائرسز میں اس طرح کے تعلق کے بعد وہ اپنی نقول بناتے ہوئے ایسی نئی نقول تیار کرتے ہیں جن کا کچھ جینیات مواد یکساں ہوتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ نئی میوٹیشن کسی ایسے فرد میں ہوئی ہوگی جو دونوں وائرسز سے متاثر ہوگا اور اس دوران کوو 2 نے دوسرے وائرس کے جینیاتی سیکونس کو اٹھا لیا ہوگا۔
اس طرح کے جینیاتی سیکونسز انسانوں میں نزلہ زکام کا باعث بننے والے ایک کورونا وائرس ایچ کوو 229 ایس میں متعدد بار ظاہر ہوا ہے جبکہ ایچ آئی وی وائرس میں بھی ایسا ہوتا ہے۔
جنوبی افریقہ جہاں کورونا کی اس نئی قسم کی سب سے پہلی شناخت ہوئی، میں ایچ آئی وی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے جس کے نتیجے میں مریض کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے اور وہ عام نزلہ زکام کے وائرسز اور دیگر جراثیموں کے مقابلے میں کمزور ہوتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ زیادہ امکان یہی ہے کہ ایسے ہی متعدد افراد میں ارتقا پانے سے اومیکرون میں اتنی زیادہ میوٹیشنز بتدریج ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اومیکرون کے ماخذ کی تصدیق، اس کے متعدی ہونے اور افعال کے اثرات کو جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔