انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ اومیکرون دیگر اقسام کے مقابلے میں معمولی شدت والی بیماری کا باعث بنتا ہے۔
انہوں نے اس نئی قسم کے ماخذ کے بارے میں بھی شبہات اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابھی یقین سے کہنا مشکل ہے کہ اومیکرون قسم افریقہ کے جنوبی حصے سے ہی ابھری۔
انہوں نے کہا کہ ایسا ممکن ہے کہ یہ ڈیلٹا کی جگہ بالادست قسم بن جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے پیشگوئی کرنا ممکن نہیں کیونکہ اس وقت دنیا بھر میں کووڈ کے 99 فیصد کیسز ڈیلٹا کا نتیجہ ہیں۔
سومیا سوامی ناتھن نے جنوبی افریقہ میں کیسز کی تعداد میں روزانہ دگنا اضافے کے ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اومیکرون بہت زیادہ متعدی ہے
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں کتنا فکر مند ہونا چاہیے؟ تو ہمارا جواب ہے کہ ہمیں تیار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے، پریشان ہونے کی نہیں، کیونکہ ایک سال پہلے کے مقابلے میں اب ہم ایک مختلف صورتحال سے گزر رہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کی چیف سائنسدان نے کہا کہ عالمی ادارہ اس مرحلے پر یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اومیکرون ایک معمولی بیماری والی قسم ہے، حالانکہ اس وقت زیادہ تر کیسز میں علامات کی شدت کم ہے یا علامات ظاہر ہی نہیں ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اینٹی باڈیز کی افادیت پر اومیکرون کے اثرات کے بارے میں ابھی ٹھوس شواہد موجود نہیں اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ نئی قسم ماضی کی بیماری سے بننے والی قدرتی مدافعت پر جزوی طور پر قابو پالیتی ہے، مگر ویکسینز بظاہر مؤثر نظر آتی ہیں۔
سومیا سوامی ناتھن نے کہا کہ ویکسینیشن کرانے والے افراد بیمار نہیں ہوئے، یعنی ویکسینز تھفظ فراہم کررہی ہیں اور ہمیں توقع کرنی چاہیے کہ یہ تھفظ برقرار رہے گا۔
انہوں نے موجودہ ویکسینز کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت کے حوالے سے کہا کہ موجودہ ویکسین کی اک اضافی خوراک ممکنہ طور پر اومیکرون کے خلاف کافی ثابت ہوگی۔