کیا پاکستان میں بجلی کا بھی ایکسچینج قائم ہوسکتا ہے؟
پاکستان میں تربیلا اور منگلہ ڈیم کی تعمیر کے ساتھ بجلی کی فراہمی اور صنعت کاری کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ پاکستان میں تیزی سے بجلی کا نیٹ ورک بچھایا گیا تاکہ ڈیموں کی گھومتی ٹربائنوں سے پیدا ہوتی بجلی کو منظم و مربوط انداز میں استعمال کیا جاسکے۔ بجلی کی فراہمی کا کام ابتدائی دنوں میں واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے پاس تھا۔
اپنے قیام کے ساتھ ہی واپڈا ایک بہت بڑا ادارہ بن گیا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ایوب خان واپڈا اور پاکستان انڈسٹریل ڈیولپمنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) کی تنظیمِ نو کرنا چاہتے تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنی سیاسی خود نوشت 'جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی' میں کیا ہے۔
مگر ملک کے تیزی سے بدلتے حالات نے 30 سال تک پاکستان میں توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے عمل کو روکے رکھا اور واپڈا نہ صرف بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے ڈیموں سے پیدا ہونے والی بجلی کی ترسیل کا ذمہ دار رہا، ساتھ ہی اس نے تھرمل پلانٹ بھی لگائے جس کے لیے واپڈا نے بانڈز بھی جاری کیے۔
پاکستان میں بجلی کی فراہمی کا وہی نظام رائج تھا جو پوری دنیا میں نافذ تھا۔ ملک میں بجلی کی پیداوار سے لے کر اس کی ترسیل، عام صارف تک تقسیم اور بلوں کی وصولی سمیت سارا کام واپڈا کے ذمے تھا۔ اس طرح کے نظام کو ورٹیکل انٹی گریٹڈ (عمودی انضمامی) سسٹم پکارا جاتا ہے، یعنی پورے نظام پر صرف کسی ایک کی اجارہ داری قائم تھی۔
اس نظام میں شفافیت کا فقدان اور صارفین کے پاس بجلی کے حصول کا ایک ہی آپشن دستیاب تھا۔ کمپنی چاہے جتنی مہنگی بجلی فراہم کرے اور فراہمی میں کتنا ہی تعطل کیوں نہ ہو مگر عوام کی شنوائی بہت کم ہوتی ہے۔ دنیا میں بجلی کی فراہمی کا نظام حکومتی کنٹرول میں تھا اور اگر کہیں نجی شعبے کے ہاتھ میں تھا بھی تو وہ نظام اجارہ داری کے لائسنس کے تحت کام کررہا تھا۔
80ء کی دہائی میں معیشت دانوں میں یہ سوچ پیدا ہوئی کہ بجلی کے نظام میں 2 بڑی تبدیلیاں کی جائیں۔ ایک یہ کہ بجلی کے نظام میں حکومت کا کردار کاروبار سے تبدیل کرکے ریگولیٹر تک محدود اور اس شعبے میں اجارہ داری کے نظریے کو ختم کیا جائے۔ اس حوالے سے سب سے پہلے اصلاحات کا عمل لاطینی امریکا کے ملک چلی سے شروع ہوا جہاں بجلی کے نظام کی صورتحال نہایت مخدوش تھی۔
چلی میں 80ء کے دہائی کے آواخر میں بجلی کے ترسیلی نظام کو حکومتی کنٹرول سے آزاد کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔ جس وقت اس پر کام شروع کیا گیا اس وقت چلی میں بجلی کی تقسیم کاری میں ہونے والے نقصانات کی شرح 35 فیصد تھی جو کم ہوکر 7 سے 8 فیصد پر آگئی۔ اس کے ساتھ ہی ارجنٹینا، میکسیکو، امریکا اور یورپ میں بھی بجلی کے نظام کو نجی شعبے کے تحت آزاد مسابقتی مارکیٹ میں منتقل کرنے کا تجربہ کیا گیا۔
اصلاحات اور آزاد مارکیٹ کے قیام کا عمل مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ بعض ملکوں نے ہول سیل مارکیٹ قائم کی ہے اور ہول سیل اور محدود ریٹیل مارکیٹ کو آزاد کیا ہے۔ بعض ملکوں نے ریٹیل مارکیٹ کو لبرلائز کیا ہے مگر کیلیفورنیا میں یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوسکا۔
اس وقت جنوبی افریقہ، تاجکستان، افغانستان، ملاوی اور امریکا کی بعض ریاستوں میں ورٹیکل انٹی گریشن کا ماڈل فعال ہے جبکہ پاکستان، بنگلہ دیشن، کویت، قطر، مراکش اور ویتنام نے نظام میں تبدیلی کرتے ہوئے 'واحد خریدار' کا ماڈل اپنایا ہوا ہے جس کے تحت بجلی کی پیداوار نجی شعبہ کرتا ہے اور حکومتی ادارہ پوری بجلی خرید کر اس کی ترسیل اور تقسیم کرتا ہے۔
ارجنٹینا، برازیل، پیرو اور فلپائن میں بجلی کی ہول سیل مارکیٹ کا تصور پایا جاتا ہے یعنی بڑے صارفین کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے بجلی پیدا کرنے والے سے بجلی خریدے۔ اس نظام کے تحت بجلی کی خریداری اور فروخت مارکیٹ میں ہوتی ہے۔ ترکی، برطانیہ اور امریکا میں رائج نظام میں صارفین کی سطح تک بجلی کی فراہمی کے نظام کو آزاد کردیا گیا ہے۔ صارفین جس کمپنی سے چاہیں بجلی خرید سکتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ پاکستان میں بجلی کے نظام کی ابتدا واپڈا کے ورٹیکل انٹی گریٹڈ نظام کے تحت کی گئی تھی، تاہم پاکستان میں بجلی کی آزاد مارکیٹ کے لیے 1992ء میں اس وقت کام شروع ہوا جب واپڈا کی تنظیمِ نو کی گئی۔ اس دوران ہدف شدہ سرمائے کے حصول کی صلاحیت میں اضافہ، کارکردگی میں بہتری اور بجلی کی قیمتوں میں کمی پر زور دیا گیا۔ بجلی کی مکمل طور پر مسابقتی مارکیٹ کی جانب منتقلی اور نجی شعبے کو توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کیا گیا مگر مجموعی طور پر بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم واپڈا کے ہاتھ میں ہی رہی۔
بعدازاں 1994ء میں پاکستان میں پہلی پاور پالیسی پیش کی گئی جس کے ذریعے نجی شعبے کو بجلی کی پیداوار کے لیے پُرکشش مراعات دی گئیں۔ نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے بڑے پیمانے پر تھرمل انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) یا حکومتی ملکیت سے آزاد بجلی کے پیداواری یونٹس لگائے گئے۔
نجی شعبے کو مارکیٹ میں لانے کے ساتھ ساتھ اس کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت بھی محسوس کی گئی اور یوں 1997ء میں نیشنل پاور الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی یعنی نیپرا کا قیام عمل میں آیا۔ 1998ء میں واپڈا کو تقسیم کرتے ہوئے پیپکو، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈیسکوز)، 4 تھرمل پاور پلانٹس کو جنریشن کمپنیوں (جنکوز) اور نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ اور ڈسٹری بیوشن کمپنی (این ٹی ڈی سی) میں تقسیم کیا گیا۔
بعدازاں نیپرا نے بطور ریگولیٹر 2002ء میں این ٹی ڈی سی کو ٹرانسمیشن لائسنس جاری کیا جس میں ٹرانسمیشن لائنوں کی تعمیر، سسٹم آپریٹر اور بجلی کی خریداری کے معاہدوں کی رجسٹریشن کا اختیار دیا گیا۔ یہ بجلی کی مسابقتی مارکیٹ کے قیام کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل تھا۔
2009ء میں این ٹی ڈی سی کے ماتحت سینٹرل پاور پرچیز ایجنسی (سی پی پی اے) قائم کی گئی جو 2015ء تک کمپنی کے ماتحت کام کرتی رہی۔ 2013ء میں حکومت نے پاور پالیسی مرتب کی جس کا مقصد کارکردگی میں بہتری لانا، مقامی اجارہ داری کو ختم کرنا اور بجلی کے شعبے میں مسابقت کو جنم دیتے ہوئے نجی شعبے کا کردار بڑھانا تھا۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 2015ء میں سی پی پی اے کو بجلی کی آزاد مارکیٹ قائم کرنے کا ہدف دے دیا۔ نیپرا نے 2018ء میں کابینہ کو ملک میں بجلی کی آزاد اور مسابقتی مارکیٹ قائم کرنے کے لیے لائحہ عمل اور منصوبہ پیش کیا۔ کابینہ نے اس منصوبے کی منظوری دیتے ہوئے اپریل 2022ء تک کی ڈیڈ لائن دے دی ہے۔
ان تمام تر کوششوں اور کاوشوں کے باوجود مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان میں یہ مارکیٹ کبھی قائم ہوسکے گی۔ اس حوالے سے نٹ شیل اور پاکستان کارپوریٹ گروپ نے ایک ویبینار کا اہتمام کیا جس میں چیئرمین نیپرا توصیف ایچ فاروقی کو سننے کا موقع ملا۔
انہوں نے پاکستان میں بجلی کے شعبے میں باہمی مسابقتی مارکیٹ Competitive Trading Bilateral Contract Market (CTBCM) پر روشنی ڈالی۔ توصیف ایچ فاروقی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ملک میں بجلی بہت مہنگی ہے جس کی وجہ سے بجلی کی طلب کم ہے۔ اگر بجلی کی قیمت کم کردی جائے تو ملک میں بجلی کی طلب میں زبردست اضافہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے بجلی مہنگی ہورہی ہے، شہروں میں رات کے وقت روشنیاں کم ہوتی جارہی ہیں۔
بطور چیئرمین نیپرا (CTBCM) یا بجلی کی مسابقتی مارکیٹ کے قیام کا چیلنج انہوں نے اپنے سر لیا ہے۔ یہ ایک ایسا چیلنج ہے جس پر ابتدائی طور پر ان کے اپنے ساتھی بھی بہت زیادہ پُراعتماد نہیں تھے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بجلی کی مارکیٹ کو کسی طور پر بھی آزاد نہیں کیا جاسکتا۔
پارلیمنٹ نے (CTBCM) کے لیے جو قانون منظور کیا ہے اس کے 3 اہداف ہیں: بجلی کو سستا کرنا، نظام کو قابلِ اعتماد بنانا اور پائیدار بجلی کی فراہمی کا نظام وضح کرنا۔
اس وقت بجلی کا واحد خریدار حکومتی ادارہ ہے۔ ادارہ جاتی نااہلی اور عدم مسابقت اصل مسئلے کا باعث ہیں۔ چیئرمین نیپرا کا کہنا بھی غلط نہیں ہے کیونکہ اس مسابقتی مارکیٹ کے قیام کے لیے 19 حکومتی اداروں کو تیار کرنا ہوگا اور ان کے کام کرنے کے طریقہ کار کو قواعد، ضوابط اور نئے کوڈ آف کنڈکٹ کے ماتحت کرنا ہوگا۔
نیپرا کے پیش کردہ منصوبے کے تحت پاکستان میں بجلی کی مارکیٹ کو بتدریج لبرلائز کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں ایک میگاواٹ یا اس سے زائد بجلی استعمال کرنے والوں کو یہ موقع دیا جائے گا کہ وہ چاہیں تو موجودہ ڈیسکو سے بجلی حاصل کرتے رہیں یا پھر چاہیں تو پاکستان میں کہیں سے بھی کسی بھی بجلی پیدا کرنے والے سے بجلی خرید سکتے ہیں، بس انہیں بجلی کی قیمت کے ساتھ 2 روپے اضافی دینے ہوں گے جس میں سے 50 پیسے این ٹی ڈی سی اور ڈیڑھ روپے تقسیم کار کمپنی کو ادا کیے جائیں گے۔
اسی ویبینار میں سی پی پی اے کے ڈائریکٹر عمر ہارون نے بتایا کہ (CTBCM) میں ایک ہول سیل مارکیٹ قائم کی جائے گی۔ پاکستان کے معروضی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس ہول سیل مارکیٹ کو ڈیزائن کیا گیا ہے۔ بجلی کے شعبے کی لبرل مارکیٹ پر منتقلی ایک بڑا کام ہے۔ اس معاملے پر قانونی تحفظ حاصل کرنے کے لیے پارلیمنٹ نے قانون سازی کی جس پر وزارتِ توانائی اور نیپرا نے اپنے قواعد اور کوڈ تشکیل دیے ہیں اور بجلی کے نظام میں موجود مفادات کے ٹکراؤ کے عمل کو مکمل طور پر ختم کردیا گیا ہے۔
مجوزہ ہول سیل مارکیٹ میں 2 طرح کے اسٹیک ہولڈرز ہوں گے یعنی خدمات فراہم کرنے والے اور تجارتی معاہدے کرنے والے۔ خدمات فراہم کرنے والوں میں مارکیٹ آپریٹر اور سسٹم آپریٹر شامل ہوں گے۔ مارکیٹ آپریٹر کا کام بجلی کی نیلامی اور معاہدوں کو طے کرانا، انہیں رجسٹر کرانا اور بروقت ادائیگیوں کو یقینی بنانا ہوگا جیسا کہ کسی بھی اسٹاک مارکیٹ میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سسٹم آپریٹر میں وائر بزنس والے ہوں گے اور ان کا کام این ٹی ڈی سی یا صوبائی ڈسٹری بیوشن کمپنی میں بجلی کی ترسیل کرنا ہوگا۔ لیکن ان کا بجلی کی خریدو فروخت سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
جس طرح کسی بھی اسٹاک مارکیٹ میں مختلف اقسام کے معاہدے ہوتے ہیں اسی طرح بجلی کی مسابقتی مارکیٹ میں ابتدائی طور پر 2 طرح کے معاہدے ہوں گے: ان میں سے ایک بجلی اور دوسرا بجلی کی پیداواری گنجائش کا معاہدہ ہوگا۔ بجلی کے معاہدے کو ہر گھنٹے کی بنیاد پر جائزہ اور سیٹل کیا جائے گا اور ادائیگی شیڈول کے مطابق ہوگی جبکہ پاور پلانٹس کی گنجائش کے معاہدے سالانہ بنیادوں پر سیٹل کیے جائیں گے۔
حکومت کے بجلی کے پیداواری یونٹس سے Take or Pay (یعنی بجلی لو یا اگر نہیں لے رہے تو گنجائش کی ادائیگی کرو) کی بنیاد پر معاہدے کیے گئے ہیں وہ سی سی پی اے کے پاس منتقل ہوجائیں گے اور نئے معاہدوں میں سی پی پی اے بجلی کی خریداری بند کردے گی اور بجلی کی خرید و فروخت کے معاہدے ڈیسکوز اور بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں براہِ راست کریں گی۔
ڈیسکوز اپنی ضرورت کا تعین خود کریں گی اور اتنی ہی بجلی کی خریداری کے معاہدے کریں گی جتنی کہ بجلی کی ضرورت ہوگی۔ ڈیسکوز بتدریج اپنی خریداری کا عمل مسابقتی مارکیٹ پر منتقل کریں گی۔ یہ کمپنیاں آئندہ 3 برسوں تک اپنی طلب کے مطابق 100 فیصد موجودہ نظام پر قائم رہیں گی اور صرف معاہدوں میں تبدیلی ہوگی۔ آئندہ 4 سے 5 برسوں میں ڈیسکوز 10 فیصد، 6 سے 8 سال میں 25 فیصد، 9 سے 12 سال میں 40 فیصد بجلی مسابقتی مارکیٹ سے خریدیں گی۔
مسابقتی مارکیٹ میں ڈیسکوز کے پاس 2 کروڑ 60 لاکھ صارفین رہ جائیں گے جو مجموعی بجلی کی کھپت کا 84 فیصد حصہ ہوں گے جبکہ ایک میگا واٹ سے زائد بجلی کے استعمال کرنے والے 2 ہزار صارفین (جو مجموعی بجلی کی ترسیل کا 16 فیصد ہیں) کو مسابقتی مارکیٹ سے بجلی خریدنے کی اجازت ہوگی۔ اس عمل میں بڑے صارفین کو یہ سہولت بھی دی گئی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اپنی بجلی کو کسی مخصوص سپلائر سے خریدنے کے ساتھ ڈیسکو کی سپلائی بھی جاری رکھ سکتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت بجلی کی فراہمی میں کسی قسم کا تعطل پیدا نہ ہو۔
نیپرا کا خیال ہے کہ وسط مدت میں اس نئے نظام کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں 25 فیصد تک کمی ہوسکے گی۔
اس نئے نظام کو چلانے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی، مسابقتی مارکیٹ کے ماہرین کی ضرورت پڑے گی۔ اس حوالے سے لمس میں ایک خصوصی سینٹر قائم کیا گیا ہے جس میں سالانہ بنیادوں پر ماہرین کو تیار کیا جا رہا ہے اور وہاں سے اب تک 400 ماہرین سند حاصل کرچکے ہیں۔
توانائی کے ماہر اور بجلی کی مسابقتی مارکیٹ پر گہری نظر رکھنے والے پیٹر پرشیموف کا کہنا ہے کہ 'توانائی کا شعبہ معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں کوئی بھی تبدیلی کرنے سے قبل بہت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔ مارکیٹ کو لبرل کرنے سے پہلے بہت زیادہ تیاری کرنی ہوگی اور اس میں ایک مالیاتی توازن قائم کرنا ہوگا‘۔
پاکستان کو اس نئے نظام کو باضابطہ طور پر متعارف کروانے سے پہلے اس کا ڈرائی رن بھی کرنا ہوگا اور منصوبے پر عمل میں جلدبازی کے بجائے اس پر بتدریج عملدرآمد کرنا ہوگا۔ پاکستان میں مہنگی بجلی کی پیداوار کم کرنے کے لیے پاکستان کو اپنے مقامی ایندھن کے وسائل بروئے کار لانا ہوں گے۔
پاکستان میں اس وقت بجلی کی واحد خریدار حکومت ہے اور شعبے میں چوری، نااہلی اور دیگر وجوہات کی بنا پر توانائی کے شعبے پر بھاری گردشتی قرضے کا بوجھ موجود ہے جو جولائی میں 2 ہزار 327 ارب روپے سے تجاوز کرگیا تھا۔ پاکستان میں مسابقتی مارکیٹ کے قیام سے بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کے نظام میں حکومت کا عمل دخل اور قومی خزانے پر پڑنے والا مالیاتی بوجھ ختم ہوجائے گا۔
بجلی کے نئے پیداواری یونٹس خالص تجارتی بنیادوں پر قائم ہوں گے۔ اگر وہ اپنی بجلی فروخت کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو یہ ان کی اپنی کاروباری ناکامی ہوگی کیونکہ انہیں حکومتی ضمانت اور ٹیک اور پے کی سہولت دستیاب نہیں ہوگی۔ اس طرح موجودہ حکومت جو پیداواری گنجائش پر بڑے پیمانے کی ادائیگیاں کررہی ہے وہ سلسلہ ختم ہوجائے گا اور یوں جدید ٹیکنالوجی اور سستے ایندھن کے پیداواری یونٹس لگانا ممکن ہوپائے گا۔
پاکستان میں بجلی کے نظام میں مجوزہ تبدیلی ملک میں ایک نئے ایکسچینج کی بنیاد ثابت ہوگی اور پاکستان بتدریج بجلی کی آزاد مارکیٹ کی جانب سفر کرسکے گا۔ مگر اس پر عملدرآمد کے لیے ضروری انسانی وسائل، معیاری قوانین، ریگولیشن، قواعد و ضوابط اور کوڈز کی تیاری بہت اہم ہے۔ اس سب کے علاوہ موجودہ ڈیسکوز اور کے الیکٹرک سے جب ان کے بڑے صارفین لے لیے جائیں گے تو ان کے کاروبار پر کس قدر منفی اثرات مرتب ہوں گے؟ اس حوالے سے تفصلات سامنے لانا بھی ضروری ہے۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔