چین- امریکا تعلقات کا مستقبل کیا ہے؟
امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے درمیان 15 نومبر کو ہونے والی پہلی ورچوئل ملاقات سے کچھ زیادہ امیدیں وابستہ نہیں تھیں۔ بائیڈن انتظامیہ کے آنے کے بعد سے دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی یہ پہلی ویڈیو ملاقات تقریباً ساڑھے 3 گھنٹے طویل تھی۔
اس ملاقات میں ان تمام معاملات پر بات کی گئی جو ان دونوں عالمی طاقتوں کے مابین مقابلے، اختلاف، تعاون اور ٹکراؤ کی وجہ ہیں۔ ان معاملات میں تجارت، تائیوان، ایران، شمالی کوریا، ٹیکنالوجی، ماحولیاتی تبدیلی، انسانی حقوق اور اسٹریٹجک ہتھیار شامل تھے۔
اگرچہ یہ ملاقات بہت زیادہ نتیجہ خیز تو ثابت نہیں ہوئی لیکن یہ بات واضح تھی کہ دونوں جانب سے یہ ملاقات اعلیٰ ترین سطح پر کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ دونوں ممالک کے درمیان موجود تناؤ کو کم کیا جاسکے۔ گزشتہ کچھ ماہ کے دوران ان دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا تھا اور تعلقات بہت ہی نچلی سطح پر آچکے تھے۔
تناؤ میں کمی لانے کی کوششیں عالمی برادری کے لیے بھی ایک اچھی خبر ہے۔ ان دونوں طاقتوں کے درمیان جاری کشیدگی کئی ممالک، عالمی معیشت اور بین الاقوامی استحکام کو متاثر کر رہی تھی۔ ممالک نہ اس کشیدگی کی زد میں آنا چاہتے تھے اور نہ ہی دونوں طاقتوں میں سے کسی ایک کے مشکل انتخاب میں پڑنا چاہتے تھے۔ ان ممالک میں امریکا کے یورپی اتحادی بھی تھے جن کے چین کے ساتھ اہم معاشی مفادات وابستہ ہیں۔
بائیڈن اور شی کے درمیان ہونے والی ملاقات اس بات کا اقرار ضرور تھی کہ دونوں ممالک کو تناؤ میں کمی لانی ہوگی اور بقول بائیڈن ’سخت مقابلے‘ میں رہتے ہوئے تعاون کے شعبوں کو تلاش کرنا ہوگا۔ ملاقات کے آغاز میں ہی صدر بائیڈن نے صدر شی سے کہا کہ ذمہ داری کا تقاضہ ہے کہ ان کے درمیان جاری مقابلہ ’ارادی یا غیر ارادی طور پر تصادم کی صورت اختیار نہ کرے‘۔
مزید پڑھیے: چین امریکا جنگ اور بنتے بگڑتے بین الاقوامی اتحاد
دوسری جانب چین نے ہمیشہ سے ہی یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ تعلقات میں استحکام اور بہتری لانا چاہتا ہے، لیکن ساتھ ہی چین نے اس بات کا بھی اشارہ دیا کہ وہ اشتعال انگیز امریکی پابندیوں کے خلاف شدید مزاحمت کرے گا۔ اپنے افتتاحی کلمات میں صدر شی نے صدر بائیڈن کو بتایا کہ ’ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں آپس میں رابطے اور تعاون میں اضافہ کریں‘۔ صدر شی نے ’بہتر اور مستحکم‘ تعلقات کا بھی مطالبہ کیا۔
بائیڈن نے کرسی صدارت سنبھالنے کے بعد سے ہی چین کے حوالے سے سخت رویہ اختیار کیا ہے۔ یہ رویہ ان کے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور سے کچھ مختلف نہیں ہے جس میں امریکا کی جانب سے چینی برآمدات پر بڑے پیمانے پر تجارتی محصولات عائد کیے گئے۔ ساتھ ہی چین کے خلاف جارحانہ بیانیہ اختیار کیا گیا جسے چین نے اشتعال انگیزی کے طور پر دیکھا۔
ان سخت اقدامات کی بنیاد دراصل چین کی معاشی، عسکری اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بڑھتی قوت کے حوالے سے امریکا کا خوف ہے۔ بائیڈن کا مؤقف امریکا میں اس سیاسی اتفاق رائے کا مظہر ہے جس کے تحت چین کو ایک ایسا حریف سمجھا جاتا ہے کہ جس کا نہ صرف مقابلہ کرنا ہے بلکہ اسے محدود بھی رکھنا ہے۔
اسی سوچ کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ نے کچھ ایسے اقدامات اٹھائے جن کی وجہ سے چین کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ بائیڈن چین کو محدود کرنے کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔
ستمبر 2021ء میں امریکا نے آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ مل کر آکس (AUKUS) کے نام سے ایک سہ فریقی اتحاد قائم کیا جس کا مقصد آسٹریلیا کو ایٹمی آبدوزیں فراہم کرکے اس کی بحری صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہے تاکہ مشرقی بحر الکاہل میں چین کے بڑھتے ہوئے عسکری عزائم کا مقابلہ کیا جاسکے۔
اس کے بعد امریکا نے امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت پر مشتمل کواڈ (Quad) نامی اتحاد کا بھی اجلاس بلایا تاکہ خطے کے ممالک میں چین مخالف اتحاد کو مضبوط کیا جاسکے۔ چین نے ان اقدامات کو خطے کے امن و سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا۔ اپنی ورچوئل ملاقات میں صدر شی نے دنیا کو دو کیمپوں میں تقسیم کرنے سے عالمی امن کے متاثر ہونے کے بارے میں بھی خبردار کیا۔
15 نومبر کو ہونے والی ورچوئل ملاقات میں کئی امور پر گفتگو ہوئی لیکن سب سے زیادہ توجہ سلامتی اور سیاسی معاملات کو دی گئی۔ یہ بات قابلِ فہم بھی ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں حالیہ اضافے کی وجہ بھی یہی معاملات تھے۔ اس ملاقات میں ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر کے حوالے سے خاطر خواہ پیش رفت ہوئی۔
مزید پڑھیے: امریکا نے چین کی ٹیلی کام کمپنی کا لائسنس منسوخ کردیا
فنانشل ٹائمز نے تو اسے ایک بڑی پیش رفت کہا ہے لیکن یہ ایک مبالغہ ہے۔ ممکنہ طور پر ’اسٹریٹجک استحکام‘ کے حوالے سے مذاکرات کرنے کا ایک معاہدہ طے پایا ہے جس کا مقصد کسی ایٹمی تصادم کے خطرے کو کم کرنا ہے۔ تاہم گزشتہ ہفتے کے امریکی اقدامات سے اس پیش رفت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکا نے گزشتہ ہفتے تقریباً درجن بھر چینی کمپنیوں کو قومی سلامتی کی بنیاد پر بلیک لسٹ کردیا ہے کیونکہ وہ چین کی عسکری ترقی میں بھی معاون ہیں۔
اس ملاقات میں تائیوان کے مسئلے پر بھی گفتگو ہوئی اور چینی صدر نے امریکا کو خبردار کیا کہ تائیوان میں علیحدگی پسندوں کی مدد کرنے کو چین میں سرخ لکیر عبور کرنے کے طور پر دیکھا جائے گا اور اس پر چین سخت ردِعمل دے گا۔ چینی صدر نے اسے ’آگ سے کھیلنا‘ قرار دیا۔ اس حوالے سے بائیڈن نے امریکا کے مؤقف کو پیش کیا جو وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں بھی شامل تھا۔ وہ مؤقف یہ تھا کہ امریکا ’اسٹیٹس کو کو تبدیل کرنے یا آبنائے تائیوان میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے کے کسی بھی یک طرفہ قدم‘ کی مخالفت کرے گا۔
دراصل یہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے عسکری تحرک کی جانب اشارہ تھا۔ خود امریکا بھی خطے میں اپنی عسکری موجودگی کو بڑھاتے ہوئے وہاں جنگی بحری جہاز بھیج رہا ہے۔ اس گھمبیر صورتحال نے خطے کے ممالک کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور رہنماؤں کی جانب سے اس معاملے پر خبردار بھی کیا جارہا ہے۔
سنگاپور کے وزیرِاعظم لی ہسین لونگ نے امریکا اور چین کے درمیان کسی چھوٹی سی غلطی کے باعث فوجی تصادم کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔ بائیڈن نے ایک جانب تو ملاقات میں ’ون چائنہ‘ پالیسی کے حوالے سے امریکا کے عزم کا اعادہ کیا مگر دوسری جانب اگلے ماہ جمہوریت کے حوالے سے ہونے والے سربراہی اجلاس میں تائیوان کو بھی شرکت کی دعوت دے دی۔ یہ ایک اور اشتعال انگیز قدم ہے جس سے چین اور امریکا کے درمیان موجود تناؤ میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔
امریکا کی جانب سے صدر بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات کے حوالے سے جاری ہونے والے ایک سادہ سے بیان میں اس بات کا کوئی ذکر موجود نہیں تھا کہ امریکا مستقبل میں چین کے ساتھ کس طرح کے تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم اس بیان میں ’ذمہ دارانہ مقابلے کی اہمیت‘ پر ضرور زور دیا گیا جو ایک اہم مقصد ہے۔
مزید پڑھیے: پاکستان کو چین اور امریکا دونوں کی ضرورت بننا ہوگا
اس کے برعکس چین کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں تعلقات میں بہتری لانے کے لیے چین کے فریم ورک کے حوالے سے وضاحت کی گئی۔ صدر شی نے چین-امریکا تعاون کے لیے 3 اصول اور 4 ترجیحات بیان کیں۔ مستقبل کے تعلقات کے ان 3 رہنما اصولوں میں ایک دوسرے کا احترام، پُرامن بقائے باہمی اور ایسی شراکت داری ہے جس میں دونوں ممالک کے مفادات پورے ہوں۔ اس کے علاوہ 4 ترجیحات میں بڑے چیلنجز پر عالمی ردِعمل کی قیادت کرنا، تعاون میں اضافے کے لیے مختلف سطحوں پر ملاقاتیں کرنا، تعلقات میں بگاڑ سے بچنے کے لیے اختلافات سے نمٹنا اور اہم بین الاقوامی مسائل پر تعاون میں اضافہ کرنا شامل ہے۔
یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا چین اور امریکا کے درمیان تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ بہتر ہوں گے یا نہیں؟ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا بائیڈن انتظامیہ چین کو محدود کرنے کی پالیسی پر ہی کاربند رہتی ہے یا نہیں۔ دراصل اس پالیسی کی بنیاد چین کو ایک اسٹریٹجک حریف اور ایک چیلنج کے طور پر دیکھنا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ امریکی ترجیحات کے حوالے سے چین کس حد تک پیچھے ہٹتا ہے۔
دوسری جانب اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے کہ ایک موجودہ سپر پاور کے بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے احساس کو کس طرح حل کیا جاسکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب وہ کسی نئی سپر پاور کو اپنے عالمی غلبے کے لیے خطرہ سمجھے۔ ہنری کسنجر نے اس حوالے سے حال ہی میں کہا کہ تاریخ کے اس اہم موڑ پر دنیا کی قسمت کا فیصلہ امریکا اور چین کے مابین تعلقات نے ہی کرنا ہے۔
یہ مضمون 23 نومبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری پاکستان کی سابق سفیر برائے امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔