یہ تو پہلے ہی سامنے آچکا تھا کہ اس نئی قسم میں بہت زیادہ میوٹیشنز ہوئی ہیں مگر یہ کس حد تک متعدی ہے اور بیماری کی شدت بڑھانے کا باعث تو نہیں، یہ تعین کرنا ابھی باقی ہے۔
اٹلی کے بمبینو گیسو ہاسپٹل کے ماہرین نے اس نئی قسم کی تصویر جاری کی۔
اس تصویر میں اومیکرون کے اسپائیک پروٹین کی ساخت کو ڈیلٹا قسم کے اسپائیک پروٹین کے ساتھ دکھایا گیا ہے، جس سے بہت زیادہ میوٹیشنز کا انکشاف ہوتا ہے۔
اسپائیک پروٹین وائرس کا وہ اہم ترین حصہ ہے جسے وہ انسانی خلیات میں داخلے کے لیے استعمال کرتا ہے اور ویکسینز میں بھی اسے ہی ہدف بنایا جاتا ہے۔
دنیا بھر کے سائنسدان اومیکرون قسم کے بارے میں تفصیلات جمع کرنے کے لیے مسلسل کام کررہے ہیں۔
یہ نئی قسم سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں سائنسدانوں نے شناخت کی تھی اور اسے 26 نومبر کو عالمی ادارہ صحت نے ویرینٹ آف کنسرن یا قابل تشویش قرار دیا تھا۔
اومیکرون کے کیسز جنوبی افریقہ کے بعد بوٹسوانا، اسرائیل، ہانگ کانگ، بیلجیئم، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈز اور برطانیہ میں دریافت ہوچکے ہیں۔
اس نئی قسم کے بعد پاکستان سمیت مختلف ممالک نے سفری پابندیوں کو سخت کیا ہے۔
اطالوی تحقیق میں ثابت ہوا کہ کورونا وائرس کی نئی قسم کے اسپائیک پروٹین میں 43 میوٹیشنز ہوئی ہیں جبکہ ڈیلٹا میں یہ تعداد صرف 18 ہے۔
اس سے قبل تخمینہ لگایا گیا تھا کہ اومیکرون کے اسپائیک پروٹین میں 32 میوٹیشنز ہوئی ہیں مگر اٹلی کی تحقیق میں یہ تعداد اس سے بھی زیادہ بتائی گئی۔
تحقیق کے مطابق یہ میوٹیشنز اس حصے میں ہوئی ہیں جو انسانی خلیات سے رابطے میں رہتا ہے۔
مگر محققین نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں یہ زیادہ خطرناک ہے، بس ابھی یہی کہہ سکتے ہیں کہ وائرس انسانوں کے مطابق خود کو بدل کر نئی اقسام بنارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مزید تحقیق سے ہم بتا سکیں گے کہ یہ تبدیلی زیادہ خطرناک ہے یا کم۔
دوسری جانب موڈرنا نے کہا ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر اومیکرون ویرینٹ سے مقابلے کے لیے 2022 کے اوائل میں اپنی کووڈ 19 ویکسین کے اپ ڈیٹ ورژن کو جاری کرسکتی ہے۔
موڈرنا کے چیف میڈیکل آفیسر پال برٹن نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ہمیں موجودہ ویکسین سے ملنے والے تحفظ کے بارے میں آنے والے ہفتوں میں معمولم ہوجائے گا، اگر اس کے بعد ضرورت محسوس ہوئی تو ہم 2022 کے شروع میں نئی ویکسین تیار کرسکتے ہیں۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ موجودہ کووڈ ویکسینز اس نئی قسم کے خلاف کتنی مؤثر ہیں۔
موڈرنا کے مطابق وہ اپنی موجودہ ویکسین کی آزمائش اس نئی قسم کے خلاف کررہی ہے۔