نقطہ نظر

منوڑہ کا ساحل: کراچی کے تفریحی مقامات میں ایک اچھا لیکن مہنگا اضافہ

کراچی کا جزیدہ منوڑہ مذہبی ہم آہنگی سے لے کر کئی تاریخی حوالوں سے اہم مرکز رہا ہے۔ اب یہاں بین الاقوامی معیار کا ساحل بھی ہے

اتوار کا دن ہے۔ صبح کے 10 بجے ہیں۔ سلیم، منوڑہ کے ساحل پر جلدی جلدی اپنی دُوربین ہولڈر میں لگا رہے ہیں تاکہ سیرو تفریح کے لیے آنے والے لوگ دُور تک سمندر کا نظارہ کرسکیں۔ سلیم کہتے ہیں کہ ’منوڑہ میں نئے پارک کا آج پہلا دن ہے اس لیے آج خوب رش ہے۔ انہیں امید ہے کہ پہلے کی نسبت وہ آج زیادہ پیسے کمائیں گے‘۔

سلیم منوڑہ کے ساحل پر 1996ء سے دُوربین لگا رہے ہیں۔ یہی ان کا ذریعہ معاش ہے۔ 2 روپے سے شروع ہونے والا کرایہ آج 20 روپے تک جا پہنچا ہے۔ سلیم نے ہمیں بتایا کہ پہلے یہاں روزانہ رش لگا رہتا تھا اور مہنگائی بھی اتنی نہیں تھی۔ اب دنیا بدل چکی ہے۔ لوگ ہم سے کہتے ہیں کہ بھائی 5 روپے یا 10 روپے لے لو اور دُوربین سے نظارہ کرنے دو۔ ظاہر سی بات ہے کہ اخراجات بڑھ گئے ہیں۔

جوق در جوق شہریوں کی آمد سے سلیم بہت خوش ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’رات ہی اس پارک کا افتتاح ہوا ہے اور میڈیا پر اس کے ابھی چرچے ہیں اس لیے صبح سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہاں کا رخ کر رہی ہے۔ اس جزیرے پر لوگوں کی دلچسپیاں بڑھ گئی ہیں۔ دیکھ لیں ساحل پر خوب رونق لگی ہوئی ہے'۔

لیکن خوشی کے ساتھ سلیم کو یہ فکر بھی ہے کہ ’کہیں ایسا نہ ہو کہ شہریوں میں ساحل گھومنے کا شوق وقتی ثابت ہو اور رش بھی کم ہوجائے کیونکہ کشتیوں کے کرائے بہت زیادہ ہیں۔ پارک آنے والے ایک بڑے خاندان کو پہلے جزیرے تک پہنچنے کے لیے 5 سے 6 ہزار خرچ کرنے پڑیں گے پھر جزیرے اور پارک کی داخلہ فیس حتیٰ کہ پارک کے اندر بیٹھنے کی فیس بھی ادا کرنی ہوگی۔ یعنی پکنک کے خواہشمند خاندانوں کو یہاں آنا مہنگا پڑے گا اور آہستہ آہستہ لوگ دیگر ساحلی علاقوں کا رخ کرنا شروع کردیں گے‘۔

سلیم کی باتیں اپنی جگہ درست ہیں لیکن اس پر بات کرنے سے پہلے منوڑہ کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔

منوڑہ کی تاریخ

کراچی کا قدیم جزیرہ منوڑہ مذہبی ہم آہنگی سے لے کر کئی تاریخی حوالوں سے اہم مرکز رہا ہے۔ کراچی کی تاریخ جب جب لکھی جائے گی منوڑہ کا ذکر ضرور آئے گا۔

سندھ میں تالپوروں کے دور میں بھی کراچی کو ماہی گیروں کی بستی سمجھا جاتا رہا اور اس کی کوئی جغرافیائی اور معاشی اہمیت نہیں تھی۔

عارف حسن سہ ماہی رسالے آج: کراچی کی کہانی کے مضمون 'کراچی شہر تغیرات کی زد میں' میں لکھتے ہیں کہ '1720ء میں حب دریا کا دہانہ خوب بارشیوں کی وجہ سے مٹی اور ریت سے اٹ گیا اور جہاز رانی کے قابل نہیں رہا اس وقت کراچی کے مغرب میں واقع کھڑک بندر کے تاجروں نے قرب و جوار میں نئی قدرتی بندگارہ کی تلاش شروع کی تاکہ وسطی ایشیا، افریقہ اور ہندوستان کے ساتھ تجارت کا سلسلہ جاری رہے'۔

تالپروں کے نزدیک بھلے ہی کراچی کی جغرافیائی اور معاشی اہمیت نہیں تھی لیکن اس قدرتی جزیرے کی دفاعی اہمیت ضرور تھی اور آج تک اس کی دفاعی اہمیت برقرار ہے۔

عارف حسن اپنے مضمون میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ '1779ء میں جزیرہ منوڑہ پر بندرگاہ کی حفاظت کے لیے ایک قلعہ اور واچ ٹاور تعمیر کروایا گیا تھا۔ یہ دونوں عمارتیں پتھر سے بنی ہوئی تھیں۔ قلعہ ایک مربع نما عمارت تھی اور اس کے کونوں پر برج بنائے گئے تھے۔ ساتھ ہی مزید حفاظت کے لیے احاطے میں بند مورچے بنائے گئے تھے۔ اونچی دیواروں میں بندوقچیوں کے لیے سوراخ بھی بنائے گئے تھے۔

'انگریزوں نے سندھ پر قبضے کے دوران سب سے پہلے منوڑہ پر ہی برطانوی جھنڈا لہرایا تھا۔ اس وقت 25 جوکھیو اور 10 بلوچ پہرے دار قلعے کی حفاظت پر مامور تھے اور انہیں 120 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ اس قلعے کا کچھ حصہ 1839ء میں برطانوی قبضے کے دوران گولاباری کی زد میں آیا۔ جو حصہ بچا اسے ماسٹر اٹینڈینٹ کی رہائش گاہ میں تبدیل کردیا گیا۔ بعدازاں 1889ء میں اس قلعے کو آفیسرز کالونی میں تبدیل کردیا گیا۔‘

1890ء میں شائع ہونے والی کتاب 'کراچی ماضی، حال اور مستقبل' میں الیگزینڈر ایف بیلی لکھتے ہیں کہ ’برطانوی بیڑا، یکم فروری 1839ء کو منوڑہ کے ساحل پر پہنچا اور 3 فروری کو کسی مزاحمت کا سامنا کیے بغیر منوڑہ کا قلعہ فتح کرلیا گیا۔ بعدازاں 5 فروری کو دونوں حکومتوں کے درمیان معاہدہ طے پاگیا‘۔

اتنی لمبی تمہید اس لیے باندھی گئی کہ قارئین منوڑہ اور کراچی کی تاریخ اور ان کی باہمی اہمیت سمجھ سکیں۔ اب منوڑہ جزیرے کو بنیادی طور پر 2 وارڈ زون میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بلدیات اور عوامی سہولیات منوڑہ کنٹونمنٹ بورڈ کے ذمے ہیں جبکہ کچھ حصے کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے پاس ہیں۔ چنانچہ داخلی راستوں اور پارک کی فیسیں یہی ادارہ وصول کرتا ہے۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی نے اب اس پورے پروجیکٹ کو کنٹونمنٹ بورڈ کے سپرد کردیا ہے۔

منوڑہ کا 'واٹر فرنٹ بیچ' کراچی کا پہلا ترقی یافتہ ساحل

وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پارک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس منصوبے کا بنیادی مقصد لوگوں کو منوڑہ کے خوبصورت ساحل کی طرف متوجہ کرنا تھا۔ ساحلی تفریح کے لیے لوگ ہاکس بے، کلفٹن سی ویو جانا پسند کرتے تھے بلکہ بلوچستان کے ساحل گڈانی اور مکران کوسٹل ہائی وے کی طرف بھی جاتے ہیں جس کے سبب وہاں رش بڑھ گیا تھا، لیکن منوڑہ کی جانب عوامی دلچسپی کم ہوگئی تھی، اور لوگ اس مقام کو بھول نہ جائیں اس لیے اس تفریحی جزیرے پر 65 کروڑ روپے کی لاگت سے بین الاقوامی معیار کا ساحلی پارک بنایا گیا ہے تاکہ لوگوں کو سستی تفریح مہیا کی جاسکے‘۔

ہم جب پارک میں داخل ہوئے تو تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے کہ واقعی یہ تمام ساحلی سہولیات سے آراستہ تھا۔ ہم نے اس منصوبے کے فوکل پرسن اور چیف انجینیئر خالد منصور سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ 'ہم نے پروجیکٹ ڈیزائن کرتے ہوئے کوئی خاص ماڈل ذہن میں نہیں رکھا تھا۔ بنیادی مقصد یہی تھا کہ عوام کو بہتر سہولیات کے ساتھ ساحلی تفریح فراہم کی جائے۔ ہم نے بین الاقوامی معیار کی سہولیات دینے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ 7.9 ایکڑ پر پھیلے اس پارک میں کم و پیش 29 سائیبان جبکہ لوگوں کے بیٹھنے کے لیے میز اور کرسیوں کا بندوبست بھی کیا گیا ہے تاکہ وہ ساحل کے نظاروں سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوسکیں‘۔

خالد منصور کا کہنا تھا کہ 'پارک میں بچوں کے لیے پلے ایریا اور کھانے پینے کے مراکز بھی بنائے گئے ہیں۔ صاف ستھرے واش روم کے ساتھ نہانے کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے جبکہ پارکنگ کے لیے بھی جگہ مختص کی گئی ہے۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ لوگ یہاں آئیں۔ کراچی کا یہ ایک خوبصورت ساحل ہے لیکن بہت ہی کم لوگ یہاں آنا پسند کرتے ہیں‘۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’جہاں تک نئی جیٹی اور فیری سروس کی بات ہے تو یہ ہمارے ابتدائی پروجیکٹ کا حصہ نہیں تھا لیکن افتتاحی تقریب میں وزیرِ اعلیٰ کی طرف سے یہ خیال پیش کیا گیا ہے۔ یقیناً ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے آئندہ کچھ عرصے میں فیری سروس اور نئی جیٹی پر کام کیا جائے گا'۔

ساحلی پارک سے جڑی چند شکایتیں

علی کا خاندان منوڑہ کی ساحلی خوبصورتی کے بارے میں سُن کر ہفتہ وار چھٹی کے روز یہاں پہنچا۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ بچے اور بڑے کشتی رانی سے بھی لطف اندوز ہوں اور نیا نیا پارک بھی کم دلچسپی کا باعث نہیں ہوگا۔ لیکن انہیں پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب وہ کشتی میں سوار ہونے لگے۔ کشتی تک رسائی کے لیے بنائی گئی سیڑھیاں نہایت مخدوش تھیں جن پر چلنا موت کو دعوت دینے سے کم نہیں تھا۔ مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ سیرو تفریح کے لیے آنے والے لوگ بھی اسی راستے کو استعمال کر رہے تھے۔ یہ سیڑھیاں کسی بھی وقت ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہیں لہٰذا اس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

پھر دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب کشتی بان نے ان سے 4 بڑوں اور 3 چھوٹوں کا 1800 روپے کرایہ طلب کیا۔ علی نے بتایا کہ جزیرے پر اترتے ہی چھوٹوں کا 20 اور بڑوں کا 50 روپے داخلی کرایہ ادا کیا۔ پھر کرائے کی وین سے پارک تک پہنچے۔ وہاں ایک بار پھر ہر شخص کا 20 روپے کرایہ لیا گیا۔ ادائیگی کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ ہر گھرانے سے اندر موجود سائبان اور بینچز کا 500 روپے کرایہ بھی طلب کیا جا رہا تھا۔ علی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ کراچی کا پہلا بین الاقوامی معیار کا ساحل ہے اس لیے آمد و رفت کے کرائے بھی بین الاقوامی معیار کے ہیں۔

یہ تو تفریح کی غرض سے آئے ہوئے علی کی باتیں تھیں لیکن منوڑہ کے ایک عوامی نمائندے نے (شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر) ہمیں بتایا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جمعہ، ہفتہ اور اتوار کے روز شہریوں کا رش بڑھ جاتا ہے جس کے باعث گاڑیوں کے لیے پارکنگ کی جگہ چھوٹی پڑتی جا رہی ہے۔ یہاں پہلے ہی سڑکیں زیادہ چوڑی نہیں ہیں ان پر اگر گاڑیاں پارک ہوجائیں گی تو مقامی آبادی کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’یہاں آنے والے لوگوں کو شکایت ہے کہ پارک کی داخلی فیس بڑھا دی گئی ہے۔ بچوں کی مد میں 50 اور بڑوں کی مد میں 100 روپے لیے جارہے ہیں۔ ایک گھرانے کے بقول ہم 10 افراد ہیں ایسے میں تو پارک میں داخلے کے لیے ہی ایک ہزار روپے خرچ ہوجائیں گے۔ پھر اندر بیٹھنے کے لیے شیلٹر اور کھانے پینے کا خرچہ الگ، اس کے علاوہ اونٹ اور گھوڑے کی سواری بھی کراچی کی ساحلی تفریح کا ایک جزو ہے یعنی عام لوگوں کے لیے اپنے گھر والوں کے لیے منوڑہ کی سیر ایک مہنگا سودا ہے‘۔

ہمیں جب کشتی بان نے جیٹی پر اتارا تو سنبھل سنبھل کر سیڑھی پر قدم رکھا اور اوپر آئے۔ چلتے چلتے ہم پھر ٹھہر گئے کیونکہ اسی عمارت کے ایک حصے پر بڑے بڑے الفاظ میں لکھا تھا کہ یہ عمارت خطرناک ہے۔ ہم نے جیٹی کی مخدوش حالت سے متعلق وہاں کے عوامی نمائندے سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’نئی جیٹی بن جانے کے باوجود مسافروں کو پرانی جیٹی پر لے جانا ہمارے لوگوں کی غلطی ہے۔ دراصل اپنی آسانی کے لیے لوگوں کو نئی جیٹی سے چڑھایا اور پرانی جیٹی پر اتار دیا جاتا ہے‘۔

عوامی نمائندے نے مزید بتایا کہ ’نئی جیٹی پر 4 سے 5 سیڑھیاں بنائی گئی ہیں تاکہ مسافروں کا مجمع اکٹھا نہ ہو۔ 5 میں سے ایک سیڑھی کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے اپنے پاس ہے۔ 2 نیوی کے لیے مخصوص ہیں اور 2 منوڑہ اور بابا بھٹ کے مسافروں کے لیے ہیں۔ جہاں تک پرانی جیٹی کی بات ہے تو سننے میں آرہا ہے کہ اس پر جلد کام شروع ہوجائے گا‘۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کو چاہیے کہ وہ کسی حادثے سے بچنے کے لیے مخدوش ہوتی سیڑھیوں کی فوری مرمت کروائے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’شہری سڑک کے راستے بھی منوڑہ پہنچ سکتے ہیں۔ یہ راستہ عوام کے لیے کھلا ہے لیکن یاد رکھیں کہ یہ علاقہ کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود میں آتا ہے اس لیے چیک پوسٹ پر آپ کو شاختی کارڈ چیک کروانا ہوگا اور اسکوٹر والے نوجوان بھی غور سے سن لیں کہ انہیں ہیلمٹ کے بغیر اندر جانے کی اجازت نہیں ہوگی‘۔

منوڑہ کنٹونمنٹ بورڈ سے منسلک عمیر محمود نے ہمیں بتایا کہ ’مخدوش سڑھیوں اور پرانی جیٹی کا انتظامی اختیار ہمارے پاس نہیں بلکہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے پاس ہے۔ جہاں تک مہنگے کرائے کی بات ہے تو ان میں اضافہ ضرور کیا گیا تھا لیکن اب دوبارہ کمی کردی گئی ہے۔ چونکہ ہم نے پارک کی دیکھ بھال کے لیے پورا نظام بنایا ہوا ہے جس میں ہیومن ریسورس سے لے کر تکنیکی عملہ شامل ہے، ان کی تنخواہوں اور بجلی و دیگر یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی کے لیے پیسے درکار ہوتے ہیں اس لیے فیس طلب کی جا رہی ہے اور ابتدا میں 20 روپے فیس مقرر کی گئی‘۔

عمر محمود نے فیس کو بڑھانے کی ایک اہم وجہ یہ بھی بتائی کہ ’فیس میں اضافہ اس لیے بھی کیا گیا کہ پہلے ہی ہفتے ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ہر طرح کے شہری یہاں کا رخ کر رہے ہیں اور کہیں کہیں قانون کی خلاف ورزی بھی ہوتی نظر آئی جسے روکنے کے لیے فیس بڑھائی گئی۔ لیکن جب اس پر عوامی ردِعمل آیا تو ہم نے فیس کو کم کردیا‘۔

یقیناً تمام تر سہولیات سے آراستہ منوڑہ کا ساحل شہریوں کو صحت مند تفریح فراہم کر رہا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ پارک کا معیار برقرار رکھنے کے لیے اس پر پوری توجہ دی جائے گی۔

شیما صدیقی

شیما صدیقی18 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں، قدرتی آفات، انسانی حقوق، خواتین کے مسائل اور کراچی کی قدیم عمارتوں پر لکھتی رہتی ہیں، جیو ٹی وی میں زیرِ ملازمت ہیں اور کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کررہی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔