عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ بی 1.1.529 کو یونانی لفظ اومیکرون کا نام دیا گیا ہے۔
یہ اعلان 26 نومبر کو عالمی ادارے کے ماہرین کے اجلاس کے بعد کیا گیا اور کئی ماہ بعد پہلی بار ڈبلیو ایچ او نے کورونا کی کسی نئی قسم کو باعث تشویش قرار دیا۔
عالمی ادارے نے یہ بھی کہا کہ ممکنہ طور پر یہ نئی قسم دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ابتدائی شواہد سے عندیہ ملا ہے کہ یہ نئی قسم دوبارہ کووڈ سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ اس نئی قسم میں بہت زیادہ تعداد میں میوٹیشنز ہوئی ہیں جن میں سے چند باعث تشویش ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ یہ نئی قسم سابقہ اقسام کے لہروں کے مقابلے میں بہت زیادہ تیزی سے ابھری ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ یہ بہت تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
دنیا کی متعدد حکومتوں کی جانب سے افریقہ کے جنوبی حصے کے ممالک سے سفر کے حوالے سے پابندیوں کو اس نئی قسم کی دریافت کے بعد سخت کیا ہے۔
جنوبی افریقہ نے سفری پابندیوں کو غیرمنصفانہ قرار دیا ہے۔
سائنسدانوں کی جانب سے کورونا کی اس نئی قسم کی تفصیلات جاننے کے لیے کام کیا جارہا ہے تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ کس حد تک متعدی ہے اور کووڈ ویکسینز کے خلاف مزاحمت تو نہیں کرتی۔
دوسری جانب فائزر کے ساتھ مل کر کووڈ ویکسین تیار کرنے والی کمپنی بائیو این ٹیک نے 26 نومبر کو اپنے بیان میں بتایا کہ کورونا کی اس نئی تشویشناک قسم کے حوالے سے مزید ڈیٹا 2 ہفتوں کے اندر سامنے آجائے گا جس سے تعین ہوسکے گا کہ اس کی تیار کردہ ویکسین کس حد تک مؤثر ہے یا اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے یا نہیں۔
کمپنی نے اپنے بیان میں کہا کہ 2 ہفتوں میں لیبارٹری ٹیسٹوں سے مزید ڈیٹا جمع ہونے کی توقع ہے، اس ڈیٹا سے معلوم ہوگا کہ بی 1.1.529 کس حد تک ویکسین کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہے اور کیا ویکسین میں تبدیلی ضرورت تو نہیں۔
کمپنی نے مزید بتایا کہ ضرورت پڑنے پر 6 ہفتوں کے اندر ویکسین کو ری ڈیزائن کیا جاسکتا ہے اور ابتدائی کھیپ 100 دن کے اندر ممالک کے لیے دستیاب ہوگی۔