اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں فائزر، ایسٹرا زینیکا، اسپوٹنک وی اور سائنو فارم ویکسینز کا موازنہ کیا گیا تھا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کورونا وائرس سے انساخلیات کو متاثر ہونے سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹ یاڈیز کی شرح چاروں ویکسینز میں مختلف ہوتی ہے۔
تحقیق کے مطابق سائنو فارم اور اسپوٹنک وی ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز کی تعداد کم ہوتی ہے، ایسٹرا زینیکا میں یہ شرح معتدل جبکہ فائزر ویکسین سے سب سے زیادہ ہوتی ہے۔
ویکسینز کی اقسام کے مختلف مدافعتی ردعمل کی وجوہات پر کچھ عرصے سے کافی تحقیق کام کیا جارہا ہے۔
اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں جیسے ہر خوراک میں موجود متحرک اجزا اور پہلی اور دوسری خوراک کے درمیان وقفہ وغیرہ۔
یہ تحقیق جولائی میں ہوئی تھی جس میں منگولیا سے تعلق رکھنے والے 196 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی کووڈ ویکسینیشن مکمل ہوچکی تھی۔
ان افراد میں چاروں ویکسینز کا استعمال کیا گیا تھا اور اس وقت منگولیا میں 89.2 فیصد بالغ افراد کو سائنو فارم ویکسین استعمال کرائی گئی تھی۔
اسی طرح کچھ افراد کو اسپوٹنک وی یا ایسٹرا زینیکا ویکسینز کا استعمال کرایا گیا۔
محققین کے مطابق ان تینوں ویکسینز کا استعمال کرنے والے افراد میں بریک تھرو انفیکشن (ویکسینیشن کے بعد بیماری کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح) کا امکان فائزر ویکسین استعمال کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ اضافی طبی اقدامات جیسے بوسٹر ڈوز زیادہ بہتر ویکسین کی استعمال کرانی چاہیے تاکہ دنیا بھر میں کووڈ 19 کی وبا کو کنٹرول کیا جاسکے۔