طبی جریدے جرنل سیل میں شائع تحقیق کے نتائج سے یہ توقع بڑھی ہے کہ کووڈ 19 سے دماغ کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی ممکن ہوسکتی ہے۔
تحقیق کے نتائج سابقہ تحقیقی رپورٹس سے مختلف ہیں جن میں عندیہ دیا گیا تھا کہ کورونا وائرس ناک کے راستے دماغی خلیات کو متاثر کرسکتا ہے۔
بیلجیئم اور جرمنی کے ماہرین کی اس تحقیق میں دعویٰ کیا گیا کہ وائرس ناک میں موجود معاون خلیات sustentacular کو تو متاثر کرسکتا ہے مگر وہ حس شامہ سے منسلک سنسری نیورونز (او ایس این ایس) کو متاثر نہیں کرسکتا۔
جرمنی کے میکس پلانک ریسرچ کے ماہر پیٹر مومبیٹرز نے بتایا کہ یہ ایک انتہائی اہم فرق ہے، کیونکہ اگر کورونا او ایس این ایس کو متاثر کرتا ہے تو وہاں سے وہ دماغ تک آسانی سے پہنچ سکتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ اگر دماغ اس حصے میں داخل ہوسکتا ہو تو وہ دماغ کی زیادہ گہرائی میں جاکر طویل المعیاد نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اس کے مقابلے میں اگر وائرس صرف sustentacular خلیات کو متاثر کرتا ہے تو اس سے ہونے والا نقصان زیادہ دیرپا نہیں ہوتا۔
اس سے کووڈ کے مریضوں میں سونگھنے کی حس سے محرومی کی بھی وضاحت ہوتی ہے اور ایک تخمینے کے مطابق ہر 10 میں سے ایک فرد کے لیے یہ مسئلہ طویل المعیاد یا مستقل بھی ہوسکتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس کی ممکنہ وجہ او ایس این ایس کے ٹکڑے ہونا ہے چاہے ان کو نقصان نہ بھی پہنچے۔
انہوں نے بتایا کہ ایسا ہونے پر خلیات کے افعال متاثر ہوتے ہیں اور sustentacular خلیات کے دوبارہ بننے تک بحال نہیں ہوتے۔
مگر محققین نے لانگ کووڈ کے مریضوں میں موجود دیگر ذہنی و اعصابی علامات جیسے تھکاوٹ اور ذہنی دھند کا جائزہ نہیں لیاْ۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں کسی کو شک نہیں کہ مرکزی اعصابی نظام اس بیماری سے متاثر ہوتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ ایسا براہ راست وائرس سے ہوتا ہے یا اس کا کوئی بلا واسطہ میکنزم ہے، جیسے خون میں ورم کا ردعمل یا علاج وغیرہ۔