یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی (یو کے ایچ ایس اے) کی جانب سے اس حوالے سے بیان جاری کیا گیا جس میں اس قسم (جو ڈیلٹا پلس سے زیادہ جانی جاتی ہے) کو وی یو آئی 210 سی ٹی 01 کا آفیشل نام بھی دیا گیا۔
ڈیلٹا پلس کو برطانیہ میں سب سے پہلے جولائی 2021 میں دریافت کیا گیا تھا مگر یہ سب سے پہلے بھارت میں نمودار ہوئی تھی۔
اس قسم کے کیسز امریکا اور کینیڈا میں بھی دریافت ہوئے ہیں۔
یو کے ایچ ایس اے کے ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ کورونا کی یہ قسم اس وقت برطانیہ میں 6 فیصد کیسز کا باعث ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
یو کے ایچ ایس اے کی چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر جینی ہیریس نے بتایا کہ وائرسز میں اکثر میوٹیشنز ہوتی ہیں تو وبا کے چلتے کورونا کی نئی اقسام کا ابھرنا غیرمتوقع نہیں، اس سے یہ شواہد ملتے ہیں کہ وبا ابھی ختم نہیں ہوئی۔
بیان میں کہا گیا کہ کورونا کی اس قسم کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ یہ ڈیلٹا سے زیادہ متعدی ہے یا نہیں۔
لندن کالج یونیورسٹی کے جینیٹکس انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر فرانسوئس بیلوکس نے بتایا کہ اے وائے 4.2 ابھی زیادہ پھیلا نہیں تو اگر وہ 10 فیصد زیادہ متعدی ہو بھی تو اس کے نتیجے میں اضافی کیسز کی تعداد بہت کم ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ قسم واقعی زیادہ متعدی ہے تو کیسز کے پھیلاؤ کا فرق اس طرح کا نہیں ہوگا جس طرح ڈیلٹا کے پھیلنے سے ہوا، جو اس وقت گردش کرنے والی تمام اقسام سے بہت زیادہ متعدی تھی۔
خیال رہے کہ اسپائیک پروٹین کورونا وائرس کے باہری حصے میں ہوتا ہے جو وائرس کو خلیات میں داخل ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
تاہم کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر روی گپتا کے مطابق یہ میوٹیشنز زیادہ تشویش کا باعث نہیں، اے 222 وی کو ڈیلٹا میں بھی دیکھا گیا اور اس سے وائرس پر بہت زیادہ اثر نہیں ہوتا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وائے 145 ایچ کو ایلا اور دیگر اقسام میں بھی دیکھا گیا جو بظاہر اینٹی باڈیز پر اثرات مرتب کرتی ہے مگر یہ اثر معمولی یا معتدل ہوتا ہے۔
پروفیسر روی گپتا کے مطابق نئی قسم پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک اہم نکتے کے نظر انداز کیا جارہا ہے اور وہ یہ ہے کہ زیادہ عمر کے بچوں کی ویکسینیشن سست روی سے ہورہی ہے۔