'اسکوئڈ گیم' کے پُرتشدد مناظر میں پنہاں سماجی پہلو
17 ستمبر کو ریلیز ہونے والی اسکوئڈ گیمز محض 2 ہفتوں میں امریکا، آسٹریلیا اور جنوبی کوریا سمیت 76 ممالک میں نیٹ فلکس پر سب سے زیادہ دیکھی جانے والی سیریز بن چکی ہے۔
جنوبی کوریا میں بننے والی سیریز کی 9 قسطوں میں مایوس مقروض افراد کو رضاکارانہ طور پر 6 مراحل پر مشتمل اذیت ناک اور خونی کھیل میں حصہ لیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ فاتح امیدوار کے لیے 46 ارب 50 کروڑ وان (تقریباً 3 کروڑ 80 لاکھ ڈالر) کی انعامی رقم مقرر کی جاتی ہے۔
ابتدائی طور پر 456 کھلاڑیوں کو کھیل میں آنے والے دلچسپ موڑ کے بارے میں خبر نہیں ہوتی۔ دراصل اس کھیل کا فاتح کوئی ایک ہی ہوسکتا ہے جبکہ دیگر کھلاڑی مرحلہ وار اس جان لیوا کھیل میں اپنی جانیں گنواتے جائیں گے۔
ناظرین کو اس حوالے سے عندیہ پہلی قسط کی ابتدا میں ہی دے دیا جاتا ہے، جس میں بچوں کے 2 گروہوں کو کوریا کے پُرتشدد اسکوئڈ نامی ایک گیم کو کھیلتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ دونوں گروہ میدان پر قیر ماہی مچھلی (squid) کی شکل کے بنے رقبے پر قبضے کی جدوجہد میں مصروف ہوتے ہیں۔ کھیل میں شامل جارحانہ اور دفاعی کھلاڑیوں کو ایک دوسرے سے مزاحمت کرتے ہوئے اس مخصوص رقبے میں ثابت قدم رہنا ضروری ہے کیونکہ کمنٹری کے مطابق اگر کوئی بھی کھلاڑی لکیر سے باہر نکلا تو وہ 'مر' جائے گا۔
اس طرح کے کھیل عام طور پر زندگی میں حاصل ہونے والے تجربات کے استعارے ہوتے ہیں۔ کھیلوں کو ایسی طرز پر تیار کیا گیا ہے جن میں کھلاڑی قبضے کی جدوجہد میں دوسرے کھلاڑی پر غالب آکر اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر سماجی خواہشات اور محدود تحرکِ معاشرہ سے جڑی کہانیوں کی جھلک بھی مل جاتی ہے۔
پہلی قسط میں ریڈ لائٹ، گرین لائٹ (جسے کوریا میں 'پٹوہ کے پھول کھل گئے' اور دنیا میں بُت پکارا جاتا ہے) نامی بقائے جان کے کھیل میں کھلاڑیوں کو پیٹھ دیے کھڑے گڑیا نما روبوٹ کے قریب جانا ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس ربورٹ نے اچانک پیچھے مڑ کر کسی کھلاڑی کو ہلتے ہوئے دیکھ لیا تو وہ 'کھیل سے خارج' ہوجاتا ہے (مگر یہاں خارج ہونے کا مطلب موت ہوتا ہے)۔
اسکوئڈ گیمز میں بچوں کے کھیلوں کو جس طرح اذیت ناک پہلوؤں میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے اس نے بلاشبہ ناظرین کے تخیل کو تسخیر کرلیا ہے اور سماجی و اقتصادی عدم مساوات اور سرمایہ دارانہ نظام کا جذبات پرور استعارہ بھی فراہم کیا ہے۔
ٹی وی ڈراموں میں اکثر کوریا کو غیر مساوی اور پُرتشدد معاشرے کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ 20ویں صدی میں یہ خطہ جاپانی کالونی رہا، پھر کوریائی جنگ جھیلی، تقریباً 40 برس فوجی آمریت برداشت کی اور مالی بحرانوں سے گزرا۔ صدمات سے بھرپور تاریخ نے اس کی قومی نفسیات کو گہرے نفسیاتی زخم پہنچائے ہیں۔
اس تاریخ کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات کے اظہار کے لیے دیگر ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں بھی گہرے سیاسی بیانیوں کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ نیٹ فلکس کی زومبیز پر مشتمل حالیہ سیریز کنگڈم (Kingdom) (2019ء-2021ء)، ڈی پی (D.P.) (2021ء)، سگنل (Signal) (2016ء) اور اسٹرینجر (Stranger) (2015ء) کی کہانیوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ کوریائی معاشرے میں اقتصادی خلیج وقت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے اور یہ ٹی وی ڈارموں کا ایک پسندیدہ موضوع بھی بن گیا ہے۔
یہ غیر مساوی معاشرہ سنڈریلا کی کہانیوں کی پیداوار ہے کہ جس میں مرکزی کرداروں کو معاشرے میں اعلیٰ مقام نہ پانے تک غربت میں دربدر اور امیر کبیر افراد کی دھتکار پاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ یہی تصور امیر زادوں پر مبنی ڈراموں میں بھی ملتا ہے، مثلاً اسکائے کیسل (Sky Castle) (2018ء) اور دی پینٹ ہاؤس (The Penthouse) (2020ء-2021ء) میں دکھایا گیا ہے کہ امیر کس طرح کوریائی ملک کی دولت پر اپنا کنٹرول قائم رکھے ہوئے ہیں۔
بونگ جون ہو کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم پیراسائیٹ (Parasite) نے بڑے ہی ڈرامائی انداز میں اقتصادی خلیج کی طرف توجہ مبذول کروائی۔ اسی طرح برننگ (Burning) (2018ء)، ویٹرن (Veteran) (2015ء) اور انسائیڈرز (Insiders) (2015ء) جیسی دیگر فلموں نے بھی اس موضوع کو بھرپور انداز میں اٹھایا۔
اقتصادی دباؤ
اسکوئڈ گیمز میں سماجی و اقتصادی عدم مساوات کو کھلاڑیوں کو لاحق اقتصادی دباؤ اور اس سے متعلق دلخراش کہانیوں کے ذریعے ظاہر کیا گیا ہے۔ سیریز میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کس طرح کوریا میں سماجی تحفظ کے ناقص انتظامات اور غیر ضابطہ بند مالی ڈھانچوں کے سبب ان کے مسائل سنگین حد تک بڑھ جاتے ہیں۔
نچلے طبقات سے تعلق رکھنے والوں کا روزگار غیر یقینی کا شکار رہتا ہے: سیریز کے مرکزی کردار جی ہُن (لی جونگ جائی) شدید مالی تنگی کا شکار ہے اور ادھار کے پیسوں سے کھیلی گئی جوئے کی بازیاں ہارنے کی وجہ سے اس پر قرضے کا بوجھ مزید بڑھ گیا ہے۔ ان حالات میں اسے اپنی ماں کی جان بچانے کے لیے ضروری آپریشن بھی کروانا ہے لہٰذا وہ اپنی مالی مشکلات کو حل کرنے کے لیے بھاری شرح سود پر قرض دینے والوں سے پیسے ادھار لینے کی کوشش کرتا ہے۔
متعدد ٹی وی ڈراموں میں بھاری شرح سود پر قرض لینے کے عمل کو سماج پر لگی ایک دیمک کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ دراصل سود کی شرح میں اس قدر بھاری اضافہ کیا جاتا ہے کہ قرض میں مسلسل اضافہ کرتے ہوئے مقروض افراد کو بڑی آسانی سے جدید غلامی کی دلدل میں پھنسا دیا جاتا ہے۔
اسکوئڈ گیمز میں دیگر بالخصوص شمالی کوریا سے ہجرت کرکے آنے والوں اور جنوبی ایشیائی مہاجرین کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دکھا کر غلامی کی منظر کشی کی گئی ہے۔
اسکوئڈ گیم کے کرتا دھرتاؤں کی جانب سے کھلاڑیوں کو کھیل چھوڑنے سے خبردار کیا جاتا ہے کہ ان کی غربت یا ان پر قرض کے بھاری بوجھ کی وجہ سے باہر کی دنیا ان کے لیے اور بھی زیادہ بدترین ثابت ہوگی۔
دوسری قسط 'ہیل' (Hell) میں معاشرے میں کنارے سے لگے لوگوں کے غیر یقینی حالات سے بھرپور زندگی اور ان سے جڑی حقیقت کو کافی قریب سے دکھایا گیا ہے اور اس جان جوکھوں کے کھیل میں حصہ لینے کے پیچھے ان کے مقاصد کو بیان کیا گیا ہے۔
یہ سیریز دنیا میں اتنی مقبول کیوں ہو رہی ہے؟
اس سیریز کی عالمی مقبولیت کے پیچھے کئی وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ اس میں گیم شوز کی عالمگیر ثقافی پسندیدگی کو دھیان میں رکھا گیا ہے، جن میں کوئز شوز یا سروائیور جیسے ریئلٹی ٹی وی پروگرامز شامل ہیں۔ ان کھیلوں میں بھی کھلاڑی اپنی قسمت بدلنے کا مقصد لے کر آتے ہیں۔
کھلاڑیوں کی ہوسٹل نما قیام گاہ میں پہلی صبح کا آغاز ہائیڈن کے دھن ٹرمپیٹ کونسرٹو سے ہوتا ہے، جسے معروف کوریائی کوئز گیم شو جنگھاک کوئز (Janghak Quiz) (1973ء-1996ء) میں استعمال کیا جاتا تھا۔
اسکوئڈ گیم میں مغربی سنیما کی طرز کے پُرتشدد مناظر بھی دکھائے گئے ہیں جو کوریائی ٹی وی ڈراموں میں شاذ و نادر ہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں گہری سماجی بے چینی کا ایک استعارہ جنم لیتا ہے۔
اس سیریز میں بلیک کامیڈی (کسی المیے کے موضوع کو پُرمزاح انداز میں پیش کرنا) اور شیڈن فریڈ (دوسروں کے مصائب پر خوش ہونا) پر مبنی مناظر بھی پیش کیے گئے ہیں۔ سیریز میں اسکرین پر دکھائے جانے والے مناظر اور سنائی دینے والی رومانوی موسیقی میں مضحکہ خیز تضاد بھی ملتا ہے۔
مثلاً پہلے خونی کھیل کے لیے جب ایسچر کے ڈیزائن سے متاثرہ سیڑھیوں والے راستے کی تیاری کے ساتھ دیگر تیاریاں چل رہی ہوتی ہیں تب جان اسٹراس کی دھن بلو ڈینیوب والٹز پس منظر میں گونجتی ہے۔ اپنی بیٹی کی سالگرہ بھول جانے والے جی ہون اس کے لیے مسٹری تحفہ لے آتا ہے، اور وہ خود بھی نہیں جانتا کہ اس میں بندوق نما ایک سگریٹ لائٹر پڑا ہے۔ جب اس کی بیٹی تحفے کو کھولتی ہے تو ایک ہی وقت میں مزاح اور مایوسی سے بھرپور منظر اسکرین پر ہوتا ہے۔
آخری نکتہ یہ کہ سیریز کی پروڈکشن کا معیار بہت ہی اعلیٰ ہے۔ اس کے مناظر کافی پختہ ہیں اور یہ بڑے ہی مؤثر انداز میں سسپینس پیدا کرتے ہیں۔ اس طرح کے عناصر بھاری سماجی تنقید کو معتدل بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
فلم پیراسائیٹ کی کامیابی کے بعد اب اسکوئڈ گیم کوریائی فلم اور میڈیا کو مثالی انداز میں عالمی توجہ کا مرکز بنا رہی ہے۔
اسکوئڈ گیم کے ہدایت کار ہانگ ڈونگ ہایوک کو اپنے اسکرپٹ پر پیش کاروں کی رضامندی پانے کے لیے 12 برس کا انتظار کرنا پڑا۔ وہ ڈوگانی (Dogani) (2011ء) اور مس گرینی (Miss Granny) (2014ء) جیسی فلموں سے شہرت پانے والے ایک نہایت ہی کامیاب فلم ساز ہیں اور لگتا ہے کہ انہوں نے بڑے پردے پر واپسی کا ارادہ کرلیا ہے۔ یا شاید کوئی انہیں ایسا کرنے کے لیے قائل کرلے۔
یہ مضمون 17 اکتوبر 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری میکواری یونیورسٹی کے شعبہ ایشین اسٹیڈیز سے بطور لیکچرار منسلک ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔