جنرل فیض کے ساتھ کیا کچھ بدل رہا ہے؟
افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ ڈونلڈ آرمن بلوم کو پاکستان کے لیے نیا امریکی سفیر نامزد کیا گیا ہے اور اس نامزدگی کی ابھی امریکی سینیٹ سے توثیق ہونی باقی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان میں طویل عرصے سے امریکی سفیر موجود نہیں تھا۔ معاملات کو سفارت خانے کی ناظم الامور انجیلا ایگلر ہی دیکھ رہی تھیں۔
نئے امریکی سفیر عربی زبان سمجھتے اور بولتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے پریشانی والی بات ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ شیخوں کو ہماری دستی شکایت لگا دیا کریں اور ہمیں دو دن بعد ترجمے کے بعد معاملہ سمجھ آئے۔
ڈونلڈ آرمن بلوم کابل کے امریکی سفارتخانے میں پولیٹیکل اتاشی بھی رہے ہیں۔ بس یہ سمجھ لیں کہ امریکیوں نے چُن کر بندہ بھیجا ہے جس کے ساتھ کام کرکے ہمیں مزہ آئے گا۔
یہاں ایک دھیان ڈلوانا ضروری ہے۔ سفیر کے ماتحت کئی ایک ہی لیول یا گریڈ کے افسران ہوتے ہیں جن سے وہ کام لیتا ہے۔ ناظم الامور بہرحال سفیر نہیں ہوتا۔ اس کا دوسرا مطلب کیا یہ بھی ہے کہ سی آئی اے کا اسٹیشن چیف پھر زیادہ منہ زور ہوجاتا ہوگا ؟ جب افغانستان کے حوالے سے سیکیورٹی امور زیادہ زیرِ بحث تھے تو یہاں سفیر ہی موجود نہیں تھا۔ اب سفیر آ رہا ہے تو افغانستان میں امریکی مشن بھی ٹھکانے لگ چکا ہے۔
پاکستان میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو بھی تبدیل کردیا گیا ہے۔ جنرل فیض حمید جون 2019ء میں ڈی جی لگائے گئے تھے۔ ان کا دو ڈھائی سال کا دور ایسے واقعات سے بھرپور رہا جن کے ساتھ ان کا نام جوڑ کر لیا جاتا رہا۔
جو سول رٹ کو مرشد مانتے ہیں، وہ سارے مرید غائب اور کٹ شریک بھائی جنرل فیض کو کسی بھی کام کی اعترافی رسید دینے میں دیر نہیں لگاتے تھے۔ اس آپسی پیار محبت کے باوجود دونوں اک دوسرے کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔
جنرل فیض کی پوسٹنگ جس بڑے واقعے کے بعد عمل میں آئی وہ کابل میں ان کا چائے کے کپ کے ساتھ نمودار ہونا تھا۔ امریکی سینیٹ میں جو ایک بل آیا ہے، اس میں رپورٹ جمع کرانے کا مطالبہ بھی ہے کہ طالبان کی کابل آمد، پنجشر کے فال ہونے اور اشرف غنی کے فرار ہونے میں پاکستانی کردار کا جائزہ لیا جائے۔
اس سب کے ساتھ جنرل باجوہ کے کچھ مہینے پرانے کابل دورے کا احوال یاد کریں۔ جہاں تب اشرف غنی خود اعترافی سا بیان دیتے ہیں کہ جنرل باجوہ انکلیوسیو حکومت کی حمایت کا اعلان کرکے گئے ہیں۔ پھر ازبکستان میں عمران خان اشرف غنی کو کھری کھری سناتے ہیں کہ اب ہم طالبان کو کیسے منائیں جب وہ جیت چکے ہیں۔ وہ غلامی کی زنجیریں توڑنے والا بیان بھی یہیں کہیں فٹ کرلیں۔ اور پھر بائڈن کے ٹیلی فون نہ آنے کو یاد کریں۔
اب صورتحال کیا ہے؟ ہم میڈیا پر کیا دیکھ اور پڑھ رہے ہیں۔ 3 ہفتوں سے جنرل فیض کی پوسٹنگ کو لے کر ہالالالا ہورہی ہے۔ سائن ہوا، سمری آئی نہیں آئی پڑھنے سننے میں ہم مصروف ہیں۔
یہاں تک اگر آپ نے پڑھ لیا ہے تو آپ کو باقاعدہ شرپسند لکھاری والی فیلنگ آنے لگ گئی ہوگی۔ اہم عہدوں اور اداروں میں اختلاف دکھاتا اور پھیلاتا ہوا اک شرارتی۔ ایسا سوچیں بھی مت، اسی مر نہ جائیے ایسی کوئی حرکت کرتے ہوئے۔
آرمی چیف کی بہت سی معلوم ذمہ داریوں کے علاوہ ایک اور اہم ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔ اپنی ٹیم کے تمام ساتھیوں کو ایسے پوسٹ اور ٹرانسفر کرنا جس سے سب کو مقابلے میں رہنے اور ٹاپ پوزیشن پر آنے کا برابر موقع ملے۔ جنرل فیض کو پشاور کور کی کمان دے کر انہیں آئندہ چیف بننے کے لیے مقابلے میں برقرار رکھا گیا ہے۔
ساتھ ہی ان کے 2 سینئر ساتھیوں کو پنڈی میں اہم پوزیشن پر لایا گیا ہے۔ یہ دونوں بھی آئندہ چیف بننے کے لیے ریس میں شامل ہیں۔ اگر اس کو ٹرانسلیٹ کیا جائے تو جنرل فیض کو میڈیا، سیاست اور سفارت کے 3 تیز راڈار کی پہنچ سے دُور کیا گیا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ ایسا کرکے ان سے متعلق تنازعات کو بھلا دیے جانے کا وقت فراہم کیا گیا ہے۔
یہاں دو باتیں ہیں۔ کیا جنرل فیض وہی کچھ نہیں کر رہے تھے جو ایک یا دوسرا بڑا آفس ان سے کروا رہا تھا؟ مان لیں کہ وہ اپنے طور پر لگے ہوئے تھے تو جس کیس میں ان کا اپنا نام ہے اس کا وہ کیا کرسکے، اگر وہ اتنے ہی موثر تھے تو؟
اندرونی، بیرونی اور تکنیکی معاملات، بہت کچھ ایک فیصلے کے پیچھے ہوتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ وقت بدل رہا ہوتا ہے۔ امریکی ناظم الامور ایک ہی دن میں مریم نواز اور شہباز شریف سے الگ الگ ملتی ہیں۔
پاکستان کے لیے نئے امریکی سفیر کا تقرر ہو گیا ہے۔ افغانستان اب بھی زیرِ بحث ہے لیکن اب حوالہ اور فوکس سیکیورٹی سے بدل کر معیشت، سیاست اور حکومت کی جانب ہوگیا ہے۔ تو پاکستان میں بھی فوکس بدل رہا ہے۔ افراد اور ضرورت دونوں تبدیل ہو رہے ہیں۔