پہلی اینگلو افغان جنگ: ایک جنگی سفر کی کتھا (آخری حصہ)
اس سیریز کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے
آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب آپ تاریخ کے پُرفسوں قصے پڑھتے ہیں، جن میں ہزاروں واقعات ہوتے ہیں، جن کے وجود میں کئی کیفیتیں چھپی ہوتی ہیں، تب مطالعہ کرتے ہوئے کبھی آپ خوش تو کبھی غمگین ہوجاتے ہیں اور کسی بات پر غصہ بھی آجاتا ہے۔
مگر چونکہ وہ سب بیت چکا ہوتا ہے اس لیے ہم ان واقعات کی ہیئت اور ترتیب کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ ہمیں یہ سب پڑھتے وقت ذہن میں یہ ضرور رکھنا چاہیے کہ، ہم جو برسوں، مہینوں، ہفتوں، دنوں اور راتوں میں ڈھلے واقعات پڑھتے ہیں وہ ان کرداروں پر کٹ ٹو کٹ فیچر فلموں کی طرح نہیں گزرے ہوں گے بلکہ ایک ایک پل کی صورت میں گزرے ہوں گے۔ تکالیف و درد کا پتا انہیں ہی ہوگا جو ان کیفیات کو سہنے والے تھے۔
شدید ٹھنڈ کے بارے میں لکھنا اور اس کا تجربہ کرنا دو الگ حقائق ہیں۔ تاریخ میں کچھ بھی بے جان نہیں ہے۔ حقیقتوں کے سارے سبق اس میں سمائے ہوئے ہیں، بس انہیں محسوس کرنے اور ان سے سیکھنے کے لیے ہمارے پاس آنکھ، عقل اور محسوسات ہونی چاہئیں۔
یہ 1607ء کے جنوری کی بات ہے۔ یہ وہ دن تھے جب راوی لاہور قلعے کے قریب سے بہتا تھا۔ شہزادہ سلیم جو جہانگیر کے نام سے جانا گیا، اس نے اپنی زندگی میں جتنا ممکن ہوسکا اپنے باپ کو بغاوتوں کے ذریعے پریشان کیا، اور اب جب جہانگیر خود بادشاہ بنا تو وہ ساری بغاوتیں ان کے اپنے نور چشم کی صورت میں وقت نے لوٹادیں۔
اس کے شہزادے خسرو نے بغاوت کردی اور لاہور میں آکر پناہ لی۔ شاہی فرمان جاری ہوا کہ باغیوں کو پکڑا جائے، لاہور کی گلی گوچوں میں اُدھم مچا اور جیلوں میں 500 کے قریب باغی قید کیے گئے۔ اس کے بعد حکم دیا گیا کہ ان کو پھانسی دی جائے، اس پر بھی عمل ہوا۔ جب بادشاہ کا غیظ و غضب برس چکا تو بادشاہ نے کشتی پر سوار ہوکر دریا پار کیا اور مرزا کامران کے باغ پہنچے اور مہابت خان کو حکم ہوا کہ: سلطان خسرو، حسن بیگ اور خواجہ عبدالرحیم کو حاضر کیا جائے۔
شہزادے کو معاف کردیا گیا جبکہ دیگر، جن میں مہابت خان کا چھوٹا بھائی بھی شامل تھا، ان کو دل دہلا دینے والی موت ملی۔ ان سازشوں سے آزاد ہوکر جہانگیر نے کچھ ماہ لاہور میں آرام کیا اور مارچ 1607ء کے آواخر میں بادشاہ کے دل نے چاہا کہ وہ کابل جاکر قدرت کی خوبصورتی دیکھے اور شکار بھی کرے۔
جب وہ جون کی ابتدا میں وہاں پہنچا تو آسمان سے برسی برف پگھل چکی تھی۔ خواجہ نعمت اللہ ہروی لکھتے ہیں کہ 'کابل میں جہاں ان دنوں بعض جگہ سرخ پھولوں کی چادر سی بچھی ہوئی تھی وہیں کچھ علاقے زرد پھولوں سے زعفران زار بنے ہوئے تھے'۔
یہ وہی کابل ہے جہاں جہانگیر نے تقریباً 3 ماہ گزارے اور ان 3 ماہ میں بعض عمارتوں کی مرمت اور سڑکوں اور باغوں کی بہتری کا حکم دیا تھا۔ اگست 1607ء میں وہ واپس لوٹ آیا۔ ہم جو 1843ء میں بالاحصار سے کابل کی طرف دیکھتے ہیں تو جہانگیر کو یہاں سے گئے ہوئے 2 صدیاں اور 36 برس گزر چکے ہیں۔ موسم گرم ہے اور نظاروں کے اعتبار سے آج بھی فطری حُسن سے بھرپور ہے مگر کابل کے بازاروں میں وہ چہل پہل نہیں رہی۔ شاہ شجاع کے قتل کے بعد جو آندھی اُٹھی ہے وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے کہ کابل روز بروز انسانوں سے خالی ہو رہا ہے اور کمپنی سرکار کی فوجیں کابل کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
یہ ستمبر کا گرم مہینہ ہے اور 34 ماہ سے چلتی ہوئی اس جنگ کی آنکھ مچولی اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ دیکھا جائے تو جنگ کی اس آگ نے دونوں طرف بڑا نقصان کیا۔ اخلاقی لحاظ سے کمپنی سرکار کو غیر معمولی دھچکا پہنچا اور اتنی طاقت کے باوجود انہیں شکست کی دھول چاٹنی پڑی۔ یہ الگ بات ہے کہ جنگ افغان سرزمین کے لیے نئی نہیں تھی کیونکہ افغانستان جس جگہ پر واقع ہے وہ زمانہ قدیم سے سرد علاقوں سے گرم علاقوں اور سمندر کی طرف جانے کے لیے ایک گزرگاہ رہا ہے، ایک ایسی گزرگاہ جس کا لینڈ اسکیپ انتہائی خوبصورت اور موسم معتدل رہا ہے۔ بلاشبہ یہاں کی وادیوں کی خوبصورتی بڑی دلربا رہی ہے، مگر کبھی کبھی اپنی خوبصورتیاں اپنے ہی وجود کی دشمن بن جاتی ہیں۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔
یہ زمین کبھی کسی کے جبڑوں میں تو کبھی کسی کے جبڑوں میں رہی ہے۔ مگر کمپنی سرکار کو امید نہیں تھی کہ یہ زمین ان کے گلے میں ناکامی اور نامرادی سے بھرے کانٹوں والا وہ ہار بن جائے گی جس کی عمر صدیوں پر محیط ہوگی۔ فتح کو تو بھلایا جاسکتا ہے مگر ناکامی اور شکست خوردگی، ذلت کا وہ طوق ہے جو اگر آپ چاہیں بھی تو گلے سے اُتار پھینک نہیں سکتے کہ اس کی جڑیں بڑی گہری اور مضبوط ہوتی ہیں۔
کمپنی سرکار کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا اور اب وقت آگیا تھا جنگ کے میدان سے خالی ہاتھ لوٹ جانے کا، مگر کمپنی بہادر چاہتی تھی کہ ذلت بھری اس واپسی کو کوئی ایسا رنگ دیا جائے، کوئی ایسا اُدھم مچایا جائے کہ دُور دُور تک شک و شبہات کی آندھی اٹھے اور سچ کو اس دھند میں کوئی ڈھونڈ نہ سکے۔
یہ تھی تو ایک غلط فہمی اور نادانی مگر گوری سرکار یہ نادانی بڑے دھوم دھڑکے سے کرنا چاہتی تھی۔ جنرل سر جارج اس واپسی کے شب و روز سے متعلق ہمیں بتاتے ہیں کہ 'کابل کا یہ منظر بڑا شاندار تھا۔ کابل کے قریب واقع ایک گھاٹی میں انگریز فوج کی چھاؤنی قائم کی گئی تھی۔ یہ فوج اتنی زیادہ تھی کہ افغانوں نے اتنی بڑی تعداد میں فوج کبھی نہیں دیکھی ہوگی، 6 یورپی ریجمنٹس گھاٹی میں موجود تھیں، توپ خانہ اور سپاہیوں کی بٹالینز بھی تھیں۔
'لشکر کے خیمے اس طرح قطار میں لگے ہوئے تھے، جیسے ایک ہی جگہ پر کئی بازار بن گئے ہیں، جہاں تک نظر جاتی بس خیمے ہی خیمے نظر آتے، توپوں کی قطاریں ایک ترتیب سے کھڑی تھیں اور برطانوی سرکار کی طاقت کی علامت نظر آتی تھیں۔ ان کو دیکھ کر افغان سخت پریشان تھے اور اس پریشانی میں وہ یہ سوچ رہے تھے کہ آگے نہ جانے کیا ہونے والا ہے؟'
شاہ شجاع کے قتل کے بعد اس کے بیٹے فتح جنگ کو بادشاہ بنا کر تخت پر بٹھایا گیا اور غلام حیدر خان پاپلزئی کو اس کا وزیر بنادیا گیا تھا۔ اپریل سے ستمبر تک وہ بادشاہ رہا مگر یہ 6 ماہ اس نے شدید ذہنی دباؤ میں گزارے۔
جب اسے یہ خبر ملی کہ جنرل پولاک کابل پہنچ گیا ہے تو وہ فوری طور پر گھاٹی میں قائم چھاؤنی میں اس کے پاس پہنچا اور اپنے سخت ذہنی دباؤ اور خوف میں رہنے کی باتیں بتائیں۔ لارڈ ایلنبرو نے افغانستان کی جنگ سے متعلق سارے سیاسی اختیارات جنرل پولاک کے حوالے کردیے تھے کہ وہ اپنے حساب سے جو ٹھیک لگے فیصلہ کرے۔ پولاک کی مدد اور مشاورت کے لیے ایک تجربہ کار عملدار میجر رالنسن بطور اسسٹنٹ اس کے سپرد کردیا گیا تھا۔ طے یہ پایا کہ فتح جنگ کو روایتی انداز میں نقاروں کی گونج میں تخت پر بٹھایا جائے۔ ایسا ہی ہوا اور بالاحصار پر یونین جیک کا جھنڈا ایک بار پھر لہرا دیا گیا۔
اب کابل میں 3 بادشاہتیں قائم تھیں، کبھی کبھی حالات کی ایسی آندھی چلتی ہے کہ دُور تک کچھ نظر نہیں آتا اور جب دُور تک کچھ نظر نہ آئے تو سوچ کا آسمان بھی دھندلا جاتا ہے۔ ایسے میں ہر طرف پھیلی ہوئی دھند سے خوف آنے لگتا ہے جس کو دُور کرنے کے لیے ڈیڑھ اینٹ کی دیوار کھڑی کردی جاتی ہے جس سے تحفظ کا احساس پیدا تو ہوجاتا ہے مگر حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں ہے۔
کابل کے سرداروں کے گرد بے اعتمادی اور بے یقینی کی آندھی چلتی تھی اس لیے کسی کو کسی پر بھروسہ نہیں رہا تھا اور ہر کوئی اپنی ڈیڑھ چاول کی دیگ الگ سے پکا رہا تھا۔ ان حکومتی دعویداروں میں پہلا خان زمان، دوسرا اکبر خان اور تیسرا شاہ شجاع کا بیٹا اور کمپنی سرکار کے چنا ہوا فتح جنگ تھا، اس لیے ان دنوں بالاحصار کے قلعے میں لذیذ شب دیگیں بنتی تھیں اور ان سے لذت اٹھانے والے بھی بہت سارے امیر آکر جمع ہوئے تھے۔ مگر کابل شہر کا درد الگ تھا جو روز بروز ویران ہو رہا تھا۔
آنے والے دنوں میں کچھ انہونی کے خوف سے ہر گزرتے دن کے ساتھ کابل ویرانیوں میں ڈوبتا جاتا تھا۔ کابل کے ان دنوں کے بارے میں ہمیں نہ محمد اسماعیل ریحان کچھ بتاتے ہیں اور نہ ہی ہمارے نامعلوم مصنف کوئی بات کرتے ہیں، ایسی کیفیت میں ہمارے پاس جنرل میکمین رہ جاتے ہیں جو ہمیں ان دنوں کا احوال اپنے الفاظ میں سناتے ہیں۔ جب فتح جنگ بادشاہی کا تاج پہن چکا اور اسے گوری سرکار کی مدد مل گئی تو اب اس ناکام لوٹتی ہوئی کمپنی سرکار کی خواہش یہ تھی کہ اب جب واپسی ہو ہی رہی ہے تو یہ واپسی کچھ اس طرح کی ہونی چاہیے کہ یہ سرزمین اور یہاں کے لوگ اس واپسی کو صدیوں تک یاد رکھیں۔
چنانچہ جن مقامات کو بربادی کے لیے چنا گیا ان کے بارے میں اگر ہم جارج میکمین سے سن لیں تو مناسب رہے گا۔ 'بالاحصار پر کمپنی کا پھریرا لہرانے کے بعد یہ فیصلہ کرنا لازمی تھا کہ کابل کو ایسی سزا دی جائے کہ وہ کبھی نہ بھولے، انفرادی طور وہ لوگ بھی سزا کے مستحق ہیں جنہوں نے لالچ میں آکر کمپنی سے بغاوت کی۔ کابل کے قریب کوہستان گھاٹی میں ابھی تک غرور کی لُو جلتی تھی جس کو بجھانا بھی لازمی تھا اور وہاں موجود قلعہ استالیف اور چاریکار کو بھی تباہ کرنے کا ارادہ کیا گیا۔ یہ اس لیے ضروری تھا کیونکہ اسی ریگستانی گھاٹی میں شاہ شجاع کی گورکھا پلٹن کا قتلِ عام کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں ایک سپاہی تک زندہ نہیں بچا تھا۔ چنانچہ جنرل سیل کو وہاں کارروائی کا حکم دیا گیا۔
'فوج جب اس گھاٹی میں پہنچی تو ان کے دوست فوجیوں کی ہڈیاں اور کنکال ہر طرف بکھرے ہوئے ملے، جگدال لک کا سارا علاقہ بھی فوجیوں کی ہڈیوں سے بھرا ہوا تھا اور اس کے نزدیک کچھ بھکاری پھٹے کپڑوں میں پھر رہے تھے جن میں سے کئی معذور تھے، دراصل یہ انگریز سرکار کے وہ سپاہی تھے جو اس جنگ میں زخمی ہوئے تھے۔ جنرل مک کاسکل نے ان کی زخمی حالت کی وجہ سے انہیں وہیں چھوڑ دیا تھا، ان میں سے کچھ فوجی وہاں کے سرداروں کے غلام بن کر رہ رہے تھے، فوجیوں کو وہاں کچھ انگریزوں کے بچے بھی ملے جو جنگ اور برفباری کے دوران اپنے والدین سے بچھڑ گئے تھے جن کو افغانوں نے پالا اور زندہ رکھا تھا۔'
جنرل میکمین ہمیں فوج کی اس کارروائی کے حوالے سے کچھ نہیں بتاتا البتہ کابل شہر کی بربادی کی روداد ضرور سناتا ہے۔ ’عام لوگوں کو سزا اور سبق دینے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ چھر چوک برباد کیا جائے کیونکہ سر ولیم میکناٹن کے مردہ جسم کو کاٹ کر اس کی تذلیل ان بازاروں اور چوک پر کی گئی تھی۔ اس فیصلے پر عمل کرتے ہوئے اس بازار اور قریب رہنے والوں کو وہاں سے نکال کر، فوج نے اس مشہور چوک اور بازاروں کو تحس و نحس کردیا، پھر کچھ فوجیوں نے وہاں کے لوگوں سے بہت زیادتیاں کی جو ان کو نہیں کرنی چاہئیں تھی'۔
کچھ مواد نیشنل آرمی میوزیم لندن سے بھی پڑھنے کے لیے مل جاتا ہے۔ 'کابل میں پولاک نے انتقام کی ایک بے مقصد کارروائی کی، اس نے قلعے اور بازار کو فقط انتقام کی دیرپا نشانی کے طور پر تباہ کیا'۔
ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ واپسی میں کچھ اچھا نہیں ہو رہا تھا کیونکہ جب اس جنگ کے دنوں کو قلمبند کرنے والا ایک گورا واپسی پر کیے گئے عوامل پر جنرل پولاک پر تنقید کرتا ہے تو یہ سمجھ آجاتا ہے کہ زیادتیاں کچھ زیادہ ہی ہوگئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت کمپنی کی فوج کابل چھوڑ رہی تھی تب تخت پر بیٹھا فتح جنگ ڈر اور خوف کے مارے وہاں نہیں رہنا چاہ رہا تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ مقامی لوگ فقط کمپنی کی فوجوں کے جانے کا انتظار کر رہے تھے کیونکہ ان کے جانے کے بعد وہ لمحوں میں درانی خون کو بالاحصار میں بہا کر خشک کرنے والے تھے۔
اتنی بربادی پھیلانے کے بعد 12 اکتوبر 1842ء میں کمپنی سرکار کا افغانستان سے انخلا شروع ہوا۔ سب سے آگے جنرل پولاک کی فوج تھی اس کے بعد مک کاسکل کا لشکر اور آخر میں جنرل ناٹ تھا۔ ہمارے بے نام مصنف اس واپسی کا تفصیلی احوال سناتے ہیں۔ 'کابل کی متعدد عمارتوں کو برباد کرکے یہ لشکر جلال آباد کے لیے روانہ ہوا، راستے میں افغانوں کے ٹولے خاص کر رات کے وقت ان پر حملہ آور ہوتے، جتنا ہوسکتا کمپنی سرکار کی فوج کا نقصان کرتے ساتھ میں خوراک اور جو ہاتھ لگتا لوٹ لیتے۔ ایک روز تو دن کے وقت خیبر لک کے نزدیک 200 افراد کے ٹولے نے ان پر حملہ کردیا۔ ان کے پاس تلواریں تھیں اور انہوں نے جان و مال کا بہت نقصان کیا، آخر میں ان کو 5 توپیں ہاتھ لگیں مگر شکر ہے کہ وہ چلانا نہیں جانتے تھے ورنہ بہت بڑی بربادی ہوتی۔
'جنرل پولاک، جس کے زیرِ کمان لشکر نے کابل اور جلال آباد میں بازاروں کو آگ لگائی تھی، وہ بڑی مغروری سے چلتے ہوئے خیبر لک پہنچا۔ جنرل مک کاسکل کی ریجمنٹ بھی اس کے ساتھ تھی، ان پر خیبر والوں نے پہاڑوں سے پتھروں اور گولیوں سے حملہ کردیا اور ایک پیدل جنگی ٹولا تلواریں لے کر حملہ آور ہوا، کچھ ہی دیر میں لاشوں کا ڈھیر لگ گیا اور جو کچھ بھی لشکر کے پاس تھا وہ سب لوٹ کر لے گئے۔ یہ سب جنرل پولاک کی غلطی اور غلط حکمتِ عملی کی وجہ سے ہو رہا تھا کہ گورنر جنرل لارڈ ایلنبرو نے حکم دیا تھا کہ افغانستان سے نکل آؤ تو پولاک نے واپسی پر قلعوں کو نقصان پہنچایا، بازار لوٹے، منہدم کیے اور نذرِ آتش کیے، یہ سب اس کی وجہ سے ہوا۔
'گورنر جنرل کا یہ بھی حکم تھا کہ افغانستان سے لوٹتی ہوئی تمام فوج فیروزپور میں آکر جمع ہو تاکہ جنگ میں شامل فوجیوں کو انعامات، اعزازات اور شاباس دے کر ہمت افزائی کی جائے۔ اس کے بعد یہ حکم جاری ہوا کہ فیروزپور میں ایک بڑا محرابی دروازہ بنایا جائے اور اس کو بابِ افغان کا نام دیا جائے اور ساری فوج وہاں سے گزر کر فیروزپور میں داخل ہو۔ اس یادگار کی تعمیر کے لیے انجینیئر میجر اسمتھ کو منتخب کیا گیا اور دوسری طرف دریائے ستلج پر کشتیوں کی مدد سے پُل بنایا جارہا تھا تاکہ فوج وہاں سے گزر سکے۔'
جارج میکمین کچھ بھی کہیں مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ کمپنی سرکار کی یہ ایک ناکام ترین جنگ تھی اور اس ناکامی کا غصہ انہوں نے سندھ پر حملہ کرکے اتارا۔ کبھی وقت ملا تو ہم آپ کو ضرور سندھ میں تالپوروں اور کمپنی سرکار میں لڑی ہوئی جنگ کے میدان میں لے جائیں گے، جہاں چارلس نیپیئر کی آنکھوں میں خون کی سرخی تھی اور میدانِ جنگ میں انسان گاجر مولی کی طرح کٹتے تھے۔
اس واپسی پر اگر ہم جنرل جارج میکمین کی رائے نہ سنیں تو وہ یقیناً ہم سے ناراض ہوگا کیونکہ اس سارے سفر میں گوری سرکار کے حوالے سے معلومات دینے میں اس نے ہماری کافی مدد کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ 'اس طرح افغانستان کی فوجی مہم اپنے شاندار اختتام کو پہنچی۔ اس جنگی لشکر پر کبھی آندھیاں آئیں تو کبھی سکھ بھرے روشن دن بھی آئے، افغانوں کو اس جنگ کی وجہ سے دن کے تارے دیکھنے پڑے، کسی کام کے لیے کبھی کوئی بہتر پلاننگ نہیں کی جاتی مگر اس میں اگر طریقہ کار، اصول اور ضابطے ہوں تو نتیجے بہتر بھی آسکتے ہیں'۔
ہمارے دوست سید فدا حسین شاہ بخاری ہم سے شاہ جہان آباد میں جدا ہوئے تھے۔ آنے کا وعدہ کرنے کے باوجود کابل نہیں آئے۔ ہوسکتا ہے اگلے سفر میں وہ ہمارے ساتھ ہوں۔ ہم نامعلوم مصنف کے بھی شکر گزار ہیں کہ انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں ہماری مدد کی اور لیڈی سیل نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اس سفر کا آج آخری دن ہے۔ ایک طرف بابِ افغان کی تعمیر کا کام ہو رہا ہے اور دوسری طرف راوی پر کشتیوں کا پل بن رہا ہے۔ میسوری سے 9 نومبر کو امیر دوست محمد خان فیروزآباد کے لیے نکل گئے ہیں تاکہ انگریز جنرل سے میٹنگ کرسکے کہ اس کو اب فقس سے آزادی مل چکی ہے۔
کابل میں وزیر اکبر خان اس انتظار میں ہے کہ امیر دوست کب واپس لوٹتے ہیں۔ اب افغانستان کے منظرنامے میں پھر تبدیلی آنے والی ہے۔ مگر ہم اس پہلی افغان اینگلو جنگ کے اختتام پر آپ سے جدا ہوتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ بہت جلد کسی اور سفر پر آپ کو لے کر چلیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم ایک بار پھر یہاں کابل کی طرف لوٹ آئیں کہ گوری سرکار کو ایک طویل عرصہ یہاں رہنا ہے اور یاد رہے کہ ایسی بہت سی سرخ آنکھیں ہیں جو افغانستان پر گڑی ہوئی ہیں۔
حوالہ جات
- تاریخ افغانستان و سندھ۔ مرتب: میر اشرف علی گلشن آبادی۔1845ء۔ بمبئی
- تاریخ افغانستان (جلد اول)۔ مولانا محمد اسماعیل ریحان۔ المناہل پبلشر۔ کراچی
- تاریخ خان جہانی و مخزن افغانی۔ خواجہ نعمت اللہ ہروی۔2017ء۔ اردو سائنس بورڈ۔ لاہور
- تاریخ افغانستان بحوالہ تاریخ سدوزئی۔ ڈاکٹر عاشق محمد خان درانی۔ 1999ء۔ سنگ میل پبلی کیشنز۔ لاہور
- The Lure of The Indus. By: L.G Sir George MacMunn. 1933, London.
- A Journal of the Disasters in Afghanstan 1841-42. Lady Sale. London 1843
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔