آئرن کی کمی کے دوران جسم مناسب مقدار میں ہیموگلوبن بنانے سے قاصر ہوجاتا ہے۔
ہیموگلوبن خون کے سرخ خلیات کا وہ پروٹین ہے جو آکسیجن جسم کے دیگر حصوں میں پہنچاتا ہے اور اس کی عدم موجودگی سے مسلز اور ٹشوز اپنے افعال سرانجام نہیں دے پاتے۔
مگر اس تحقیق میں بتایا گیا کہ درمیانی عمر میں آئرن کی کمی سے آئندہ ایک دہائی کے دوران امراض قلب، ہارٹ اٹیک اور فالج جیسے امراض کا خطرہ 10 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔
یونیورسٹی ہارٹ اینڈ Vasculature سینٹر ہمبرگ کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ ایک مشاہداتی تحقیق تھی جس کے نتائج کو دیکھ کر ہم ٹھوس طور پر نہیں کہہ سکتے کہ آئرن کی کمی امراض قلب کا باعث بن سکتی ہے۔
مگر انہوں نے مزید بتایا کہ شواہد سے عندیہ ملتا ہے کہ آئرن کی کمی اور امراض قلب کے خطرے میں تعلق موجود ہے جس کی تصدیق کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
سابقہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا تھا کہ آئرن کی کمی کے باعث دل کی شریانوں سے جڑے امراض کے شکار افراد کو زیادہ سنگین نتائج کا سامنا ہوسکتا ہے، مگر آئرن سپلیمنٹس سے حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
ان نتائج کو دیکھتے ہوئے اس نئی تحقیق میں شامل ماہرین نے آئرن کی کمی اور دل کی صحت پر اثرات کا مشاہدہ عام آبادی پر کیا گیا۔
تحقیق میں 3 تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی جن میں 12 ہزار سے زیادہ افراد شامل تھے جن کی اوسط عمر 59 سال تھی اور 55 فیصد خواتین تھیں۔
دل کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے والے عناصر میں تمباکو نوشی، ذیابیطس، موٹاپے اور کولیسٹرول کا جائزہ خون کے نمونوں سے لیا گیا جبکہ اسی سے آئرن کی کمی کی جانچ پڑتال بھ کی گئی۔
بعد ازاں محققین نے ان افراد میں امراض قلب، فالج اور کسی بھی وجہ سے اموات کا جائزہ لیا اور ہر ایک کا تجزیہ آئرن کی کمی سے کیا گیا۔
60 فیصد افراد آئرن کی مکمل کمی کا شکار تھے اور 64 فیصد میں فنکشنل آئرن کی کمی کو دریافت کیا گیا۔
13 سال سے زیادہ عرصے تک ان افراد کا جائزہ لینے پر دریافت ہوا کہ فنکشنل کمی کا سامنا کرنے والے افراد میں امراض قلب کا خطرہ 24 فیصد تک بڑھ جاتا ہے، 26 فیصد میں دل کی شریانوں سے جڑے امراض سے موت جبکہ 12 فیصد میں کسی بھی وجہ سے موت کا خطرہ دریافت کیا گیا۔
اس کے مقابلے میں آئرن کی مکمل کمی کا سامنا کرنے والے افراد میں امراض قلب کا خطرہ 20 فیصد تک دریافت کیا گیا۔
محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ آئرن کی کمی کو دور کرلیا جائے تو امراض قلب کے خطرے کو 11 فیصد، دل کی شریانوں سے جڑے امراض سے موت کے خطرے کو 12 فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ آئرن کی کمی کو درمیانی عمر کی آبادی میں آسانی سے دور کیا جاسکتا ہے کیونکہ دوتہائی میں یہ فنکشنل کمی ہوتی ہے، جس سے آئندہ 13 سال میں ان میں امراض قلب کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی میں شائع ہوئے۔
آئرن کی کمی کی علامات میں غیرمعمولی تھکاوٹ، جلد زرد ہوجانا، سانس لینے میں مشکل یا سینے میں درد، سر چکرانا اور سردرد، دل کی دھڑکن متاثر ہونا، بالوں اور جلد کو نقصان پہنچنا، منہ اور زبان کی سوجن، معدے میں درد، پیشاب میں خون آنا، پیروں میں سوئیاں چبھنے کا احساس، ہاتھ اور پیر ٹھنڈے پڑ جانا اور جلدی انفیکشن قابل ذکر ہیں۔