نقطہ نظر

نوابزادہ نصراللہ خان اور سرکاری پیسے کا تمباکو

سیاست نوابزادہ صاحب کا اوڑھنا بچھونا تھی،ان کا وقت آبائی شہر سے زیادہ لاہور میں لٹن روڈ پر واقع ایک درمیانے درجے کے گھر میں گزرتا۔

60ء، نہیں بلکہ 70ء کی دہائی تک کراچی میں 2 گھر بلکہ سیاسی گڑھ ایسے تھے جہاں آمروں کے خلاف اپوزیشن کی مرکزی قیادت کے اجلاس ہوا کرتے تھے۔ ایک گھر لسبیلہ چوک سے بائیں ہاتھ کو مُڑ کر گارڈن میں محمود الحق عثمانی کا تھا جو پہلے عوامی لیگ میں ہوا کرتے تھے۔

مگر 1956ء میں جب نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کا قیام عمل میں آیا تو یہ طے ہوا تھا کہ صدر کا انتخاب مشرقی پاکستان سے ہوگا اور سیکرٹری جنرل کا انتخاب مغربی پاکستان سے ہوگا۔ پھر جب اس جماعت کا پہلا باقاعدہ کنونشن ہوا تو محمود الحق عثمانی سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ وضع دار شرافت و دیانت کا نمونہ ہمیشہ شیروانی اور پاجامہ پہنتے تھے۔ ہائے ہائے، کیا شخصیت تھی، کبھی تفصیل سے عثمانی صاحب کو ضرور یاد کروں گا۔

اگر دوسرے گھر یا گڑھ کی بات کی جائے تو وہ گرومندر سے لیاقت آباد جاتے ہوئے بائیں ہاتھ پر واقع لکھم ہاؤس ہوا کرتا تھا۔ غیر منقسم بنگال اور پھر بعد میں پاکستان کے سابق وزیرِاعظم حسین شہید سہروردی کی یہ رہائش گاہ تھی۔ وہ ڈھاکہ سے جب کراچی آتے تو لکھم ہاؤس آباد ہوجاتا۔ سہروردی بڑے دبنگ سیاستدان اور اس سے بھی بڑے وکیل تھے۔

بنگلہ بندھو مجیب الرحمٰن انہیں اپنا سیاسی گرو کہا کرتے تھے اور ان کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے سے بھی گریز کرتے تھے۔ سہروردی کے انتقال کے بعد ان کی صاحبزادی بیگم اختر سلیمان بھی اپنے والد کے مہمانوں کا اسی طرح استقبال کرتی تھیں۔ میں اپنے رسالے کے لیے بیگم اختر سلیمان کا انٹرویو کرچکا تھا، جس میں انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے والد کو بیروت میں قتل کیا گیا تھا۔

بیگم اختر سلیمان کے بعد اس گھر کی مالکن بیرسٹر شاہدہ جمیل بنیں جو سماجی کاموں خاص طور پر خواتین کھلاڑیوں کے لیے بڑی سرگرم رہتیں اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزارت بھی قبول کرلی۔

یہ ساری تمہید اسی لیے باندھی کہ پہلی بار نوابزادہ نصراللہ خان کو اسی گھر میں دیکھا اور سُنا۔ سر پر سرخ ترکی ٹوپی تھی، شیروانی کے چند بٹن کھلے اور چند بند، ایک ہاتھ میں چھڑی اور دوسرے ہاتھ میں حقہ تھا۔

نوابزادہ نصراللہ خان کی خاص بات یہ ہے کہ ہر سویلین اور فوجی آمریت کے خلاف محاذ بنانے میں مرکزی کردار انہی کا ہوتا تھا۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کی ڈکٹیٹرشپ کے بعد بھٹو مخالف اتحاد پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے) کے آرکیٹیکٹ بھی نوابزادہ نصراللہ خان ہی تھے۔

نہ جانے ان کی گفتگو میں کیا جادوگری تھی کہ دائیں بازو کی کٹر جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابو الاعلی مودودی اور بائیں بازو کی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے قائد خان عبد الولی خان کو اپنے پہلو میں بٹھا کر حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کرتے تو اسی وقت سیاسی پنڈت یہ پیش گوئی کرتے کہ 'بھئی اب حکومت کے جانے کے دن گننے شروع کردو'۔

یہ جو لکھم ہاؤس میں نوابزادہ نصراللہ خان کو پہلی بار دیکھنے اور سننے کا میں نے ذکر کیا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب میں اپنی طفلی صحافت کا آغاز کرچکا تھا۔ اس زمانے میں آج کی طرح سیاستدان سے بالمشافہ گفتگو کرنے میں کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوتی تھی، نہ دروازوں پر سیکیورٹی چیک، نہ ہی سیکیورٹی کے نام پر گھیرے میں گارڈز کی دھتکارتی 'ہٹو بچو' کی آوازیں آیا کرتی تھیں۔

خیر، نوابزادہ نصراللہ خان کی پُرمزاح اور شستہ گفتگو سے ایک سماں بندھا ہوا تھا۔ مگر جب مغرب کی اذان ہوئی تو یہ شعر پڑھتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ

دامن پر کوئی چھینٹ نا خنجر پر کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

نوابزادہ نصراللہ خان اپنی ہر دوسری تقریر میں یہ شعر ضرور پڑھتے، بعد میں یہ شعر ضرب المثل بن گیا۔

نوابزادہ نصراللہ خان نے نوجوانی میں اپنی سیاست کا آغاز کٹر مذہبی تحریک مجلس احرار سے کیا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ جب مغربی پاکستان میں انتخابات ہوئے تو انہوں نے 2 نشستوں پر انتخاب لڑا اور کامیاب بھی ہوئے مگر جب مسلم لیگ کی قیادت ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوئی تو علیحدگی اختیار کرلی اور عوامی لیگ سے وابستہ ہوگئے اور یہ وابستگی ایوب خان کے آخری دنوں تک جاری رہی۔ مگر جب ایوب خان کی منعقدہ گول میز کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمٰن نے 6 نکات رکھے تو انہوں نے عوامی لیگ سے علیحدگی اختیار کرلی۔

نوابزادہ صاحب کا تعلق مظفر گڑھ سے تھا۔ وہ اوسط درجے کے زمیندار تھے۔ یہ نہیں معلوم کہ ان کے پاس آموں کے کتنے باغ تھے مگر سال کے سال آموں کے موسم میں ہم ان سیکڑوں خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں پریس کلب میں آموں کی پیٹیاں ملتی تھیں۔

یہ سمجھ لیں کہ سیاست نوابزادہ نصراللہ خان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ ان کا وقت اپنے آبائی شہر سے زیادہ لاہور میں لٹن روڈ پر واقع ایک درمیانے درجے کے گھر میں گزرتا۔

صبح ہوتی نہیں کہ صحافیوں، سیاسی کارکنوں اور مداحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ چائے کے وقت چائے اور کھانے کے وقت وسیع دسترخوان بچھ جاتا۔ حقہ نوابزادہ کے ہاتھوں میں اس طرح جڑا ہوتا کہ گھر میں ہوں یا سفر میں چلم نہ بجھنے پاتی۔

2001ء میں جب نجی ٹی وی چینل آیا تو میں اس میں 'دو ٹوک' نامی پروگرام کرنے لگا۔ اس زمانے میں ڈی ایس این جی تو تھی نہیں لہٰذا سرکردہ سیاستدان کو خود اسٹوڈیو چل کر آنا پڑتا مگر نوابزادہ صاحب کی بزرگی اور احترام کے سبب کراچی کے علاقے پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں ان کی ہی جماعت کے رہنما بشارت مرزا کے گھر جاکر انٹرویو لیا اور اس انٹرویو کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا کہ اسکرین نے اس وقت اتنا متکبر بنادیا کہ بھول بیٹھا کہ میرے سامنے ایک ایسی شخصیت ہے جس نے نصف دہائی سے اوپر سیاست کو عبادت سمجھا، نہ کوئی جائیداد بنائی اور نہ آمریت کے سامنے سجدہ ریز ہوا۔

پی این اے کی جولائی 77ء کی تحریک میں جب بھٹو کو پھانسی ہوئی اور جنرل ضیا الحق کے خلاف جب تحریک چلی تو تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) بنانے اور اس میں ایک دوسرے کے بدترین مخالف بیگم نصرت بھٹو، اے آر مارشل خان اور سردار شیرباز مزاری کو ایک میز پر بٹھانے کا ناقابلِ یقین کارنامہ بھی نوابزادہ صاحب نے انجام دیا۔

ایک اور بات بھی ریکارڈ پر لے آؤں کہ نوابزادہ صاحب کو 1970ء کے الیکشن میں اپنے آبائی حلقے سے نوجوان غلام مصطفیٰ کھر کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی مگر 1988ء میں جب بے نظیر بھٹو اقتدار میں آئیں تو وہ بھٹو صاحب کے ہاتھوں شکست کو بھول چکے تھے اور جب وزیرِاعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بننے کی پیشکش کی تو انہوں نے وسیع تر قومی مفاد میں اسے قبول کرلیا۔

اور ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کمیٹی کے کروڑوں روپے کا آڈٹ ہو تو اس میں ان کے حقے کی چلم کے لیے تمباکو کا خرچہ بھی شاید نہ نکلے۔

جہل خرد نے دن یہ دکھائے

گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے

مجاہد بریلوی

مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔