آخر جیکب آباد زندگی گزارنے کے لیے مشکل ترین شہر کیوں بن گیا؟
سندھ کا شہر جیکب آباد زمین پر گرم ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ یہاں پڑنے والی ریکارڈ توڑ گرمی کی وجہ سے بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس شہر کے حوالے سے دلچسپی دکھائی ہے۔
حال ہی میں دی ٹیلی گراف نے ایک خبر شائع کی جس میں کہا گیا ہے کہ جیکب آباد ان 2 مقامات میں سے ایک ہے جہاں کا درجہ حرارت انسانی جسم کے لیے قابلِ برداشت درجہ حرارت کی حد سے زیادہ ہوچکا ہے۔ جیکب آباد کے علاوہ ایسا دوسرا مقام متحدہ عرب امارات کا علاقہ راس الخیمہ تھا۔ اس خبر میں لوگ بروگھ (Loughborough) یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق کو حوالہ بناکر مزید تفصیلات کا بھی ذکر کیا گیا۔
2019ء میں ٹائم میگزین نے بھی اپنے ایک مضمون میں دعویٰ کیا تھا کہ کچھ عرصے بعد جیکب آباد انسانی آبادی کے لیے غیر موزوں ہوجائے گا۔ مضمون میں کہا گیا تھا کہ ’سندھ میں موسمِ گرما سنگین صورت اختیار کرگیا ہے‘، اور یہ کہ ’اس سے اموات ہوسکتی ہیں‘۔
لیکن پاکستان میں اسے صرف وقتی طور پر اہمیت دی گئی۔ یہاں ہر سال گرمیوں کا نیا ریکارڈ قائم ہوتا ہے لیکن پھر بھی موسمی تغیرات کے اثرات سے بچنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جاتے۔
پاکستان میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ (پی ایم ڈی) کے مطابق 28 مئی 2021ء کو پارا 50 ڈگری سیلسیس تک چلا گیا جو اب تک اس سال کا سب سے زیادہ درجہ حرارت ہے۔ گزشتہ سال جون میں پارا 51 ڈگری تک گیا تھا۔ پی ایم ڈی کے ایک ڈائریکٹر ندیم فیصل کے مطابق 2019ء میں بھی پارا 51 ڈگری تک گیا تھا۔
ان کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ہیٹ ویوز عموماً مارچ سے شروع ہوتی ہیں اور ستمبر تک جاری رہتی ہیں۔ یوں ایک اور سخت موسمِ گرما تقریباً اپنے اختتام پر ہے اور جیکب آباد کے باسیوں کو کچھ عارضی سکون ضرور ملے گا۔ لیکن اس بات کی ضرورت برقرار ہے کہ حکومت ان مسائل کے حل کے لیے طویل مدتی اقدامات کرے تاکہ آئندہ سال ان مسائل سے بچا جاسکے۔
گرمی کا توڑ
شدید گرمیوں میں جب جیکب آباد تپ رہا ہوتا ہے تو اکثر رہائشیوں کے لیے وہ معمولی بات ہوتی ہے۔ اس دوران وہ تھادل، لیموں پانی، گنے کا رس اور لسی سمیت دیگر روایتی مشروب پیتے ہیں اور اس جیسے دیگر ٹوٹکے اپناتے ہیں۔ جن لوگوں کے رشتے دار دیگر شہروں میں ہوتے ہیں اور ان کے پاس وہاں جانے کے وسائل بھی ہوتے ہیں تو وہ شدید گرمیوں میں جیکب آباد چھوڑ دیتے ہیں۔
عمران اوڈھو جیکب آباد کی ضلعی کونسل کے سابق چیئرمین ہیں، انہوں نے ای او ایس کو بتایا کہ ’کئی لوگ گرمیوں کے موسم میں شدید گرمی سے بچنے کے لیے کراچی، کوئٹہ اور جامشورو چلے جاتے ہیں‘۔
دیگر افراد دن کے وقت باہر نکلنے سے گریز کرتے ہیں۔ ڈاکٹر قمر الزماں چوہدری ایک کلائیمیٹ چینج ایکسپرٹ ہیں، وہ 2012ء میں جاری ہونے والی پاکستان کلائیمیٹ چینج پالیسی کے مرکزی مصنف بھی تھے۔
ان کے مطابق ’جیکب آباد کا جغرافیائی محل وقوع اور یہاں کا خشک موسم زیادہ درجہ حرارت کی وجہ بنتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں موسمی تغیر کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں میں بھی تغیر دیکھا جارہا ہے، لوگ صبح جلدی اپنے کاموں کا آغاز کرتے ہیں، دن وقت باہر نکلنے سے گریز کرتے ہیں اور پھر شام کو باہر جاتے ہیں‘۔
لیکن ہر کوئی گھر میں نہیں رہ سکتا۔ جیکب آباد میں چاول کی کاشت کی جاتی ہے جو گرمیوں کے موسم میں ہی ہوتی ہے۔ چاول کے پودے مئی کی ابتدا میں نرسریوں میں اگائے جاتے ہیں اور جون جولائی میں انہیں کھیتوں میں لگایا جاتا ہے۔ اس وجہ سے سال کے گرم ترین دنوں میں کسان اپنا کام کرتے ہیں۔
صاحب خاتون ایک معمر کسان ہیں، وہ زیادہ دیر سائے میں بیٹھنے اور کام نہ کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتیں۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’ہم صبح جلدی کام شروع کردیتے ہیں اور صبح 11 بجے تک کام مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ دوپہر کے کھانے کے وقت کام میں وقفہ کرتی ہیں، اس دوران وہ کھانا کھاتی ہیں اور آرام کرتی ہیں پھر شام کو دوبارہ کھیتوں کا رخ کرتی ہیں۔ ان کے مطابق ’ہم دن کے گرم ترین حصے سے اس طرح بچتے ہیں‘۔
اظہر سرکی ایک صحافی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’جولائی کے بعد جیسے جیسے چاول کی فصل بڑھتی ہے ویسے ویسے موسم بھی گرم ہونے لگتا ہے، اس دوران دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے‘۔
صاحب خاتون کی طرح ایک نان بائی جانب علی اور ان کا ساتھی بھی شدید گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کام کے اوقات تبدیل کرتے ہیں۔ جانب علی نے پیڈسٹل فین اپنی جانب کرتے ہوئے کہا کہ ایک ساتھ 7 سے 8 گھنٹے تندور پر کام کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ میں اور میرا ساتھی 3، 3 گھنٹے کی شفٹ کرتے ہیں تاکہ ایک فرد آرام کرے اور دوسرا کام کرے‘۔
ڈاکٹر قمر الزماں نے حال ہی میں کلائیمیٹ چینج پالیسی میں کچھ اضافے کیے ہیں جو ابھی حکومت کی منظوری کے منتظر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زیادہ درجہ حرارت زیادہ نمی کے ساتھ مزید خطرناک ہوجاتا ہے لیکن جیکب آباد میں زیادہ درجہ حرارت اور کم نمی ہوتی ہے۔ ان کے مطابق ’یہاں رہنے والے زیادہ درجہ حرارت اور خشک موسم جس میں نمی بہت کم یا بالکل نہیں ہوتی کے عادی ہیں‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’کراچی میں صورتحال بالکل برعکس تھی۔ وہاں 2015ء میں آنے والی ہیٹ ویو میں درجہ حرارت جیکب آباد کے درجہ حرارت سے کچھ ہی کم تھا لیکن پھر بھی کئی لوگ اپنی جان سے گئے‘۔
پانی کی فراہمی
یہاں درپیش مسائل تبدیل نہیں ہوئے۔ ہیٹ ویوز اور موسمِ گرما میں شہر میں پانی کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اس دوران فلٹریشن پلانٹ بھی کسی نہ کسی وجہ سے بند ہوجاتا ہے۔ عماد علی فلٹریشن پلانٹ پر کام کرتے ہیں، انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’ہمیں شہر کی مین لائن میں پانی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے بلاتعطل 6 گھنٹے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ پلانٹ کے لیے ایک علیحدہ فیڈر مختص ہے لیکن کچھ بااثر لوگ اس سے بجلی چوری کرتے ہیں جس سے فیڈر پر بوجھ پڑتا ہے اور وہ بند ہوجاتا ہے۔ یوں پانی کی فراہمی بھی متاثر ہوتی ہے‘۔
پانی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے پانی کے کین گدھا گاڑیوں پر لاد کر صارفین تک پہنچائے جاتے ہیں۔ یہ پانی نجی طور پر ذخیرہ کیے گئے پانی سے بھرے جاتے ہیں اور یہ پانی عموماً کنوؤں سے حاصل کیا جاتا ہے۔
عبد الغفار ایک ٹھیکے دار ہیں، انہوں نے گڑھی کہیرو روڈ کے ساتھ پانی کے حصول کے لیے بورنگ کے منصوبے میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں زمینی پانی میٹھا ہے لیکن جیکب آباد کے دیگر علاقوں میں یہ پانی کھارا ہے‘۔ عبد الغفار نے ہر بور پر تقریباً 20 سے 30 ہزار روپے خرچ کیے ہیں اور وہ پُرامید ہیں کہ وہ جلد ہی ان لگائے گئے پیسوں کو منافع کی صورت حاصل کرلیں گے۔
پانی اور بجلی کی فراہمی میں تعطل جیسے مسائل ملک بھر میں ہی موجود ہیں لیکن جیکب آباد کی تپتی گرمیوں میں ان مسائل کے اثرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔
سندھ میں ہر سال موسمِ گرما میں ایک اور مسئلہ بھی سر اٹھاتا ہے اور وہ مسئلہ ہیٹ اسٹروک سے ہونے والی اموات ہیں۔
تاہم ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر ارشاد میمن کا کہنا ہے کہ جیکب آباد میں گزشتہ 3 سالوں کے دوران ہیٹ اسٹروک کے نتیجے میں ہونے والی اموات کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہیٹ اسٹروک ایک مبہم اصطلاح ہے، اکثر لوگ بیماری کی اصل وجہ پر بات نہیں کرتے اور دعویٰ کردیتے ہیں کہ موت ہیٹ اسٹرک کی وجہ سے ہوئی ہے‘۔
یہ بات درست ہے کہ ہیٹ اسٹروک سے ہونے والی اموات کے حوالے سے کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ تاہم ایک ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈسٹرکٹ ہیلتھ منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم میں ہیٹ اسٹروک کا خانہ ہی نہیں ہے اس وجہ سے ہیٹ اسٹروک پر کوئی ڈیٹا جمع نہیں ہوتا۔
لیاقت میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ اینڈ میڈیکل سائنسز جامشورو کے ڈاکٹر بیکھا رام بھی ہیٹ اسٹروک کے کیسز کی تشخیص نہ ہونے کے امکان کو رد نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہیٹ اسٹروک کے کیسز میں کوئی خاص ٹیسٹ نہیں کیا جاتا۔ ایک الیکٹرولائٹ ٹیسٹ لازمی ہے لیکن جب مریض تیز بخار کے ساتھ آتا ہے تو ان کا صرف ملیریا اور ٹائفائڈ کا ٹیسٹ ہی ہوتا ہے‘۔
حل کیا ہے؟
موسمی تغیر کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جارہے ہیں اور اس مسئلے کے حل کے لیے منصوبے بھی تشکیل دیے جارہے ہیں۔ پاکستان کو بھی اس حوالے سے تیاری کرنی ہوگی۔
پاکستان نے بھی 2015ء کے معاہدہ پیرس کی توثیق کی ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر گورننس اینڈ پالیسی ڈاکٹر عمران خان نے نشاندہی کی کہ ’ترقی یافتہ‘ ممالک نے اس معاہدے میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ موسمی تغیرات سے متاثر ہونے والے ترقی پذیر ممالک کی امداد کے لیے سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ابھی تک اس امداد کے وعدے پر عمل نہیں ہوا ہے‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سال طے شدہ یو این کلائیمیٹ چینج کانفرنس آف پارٹیز (سی او پی-26) میں حکومت کو چاہیے کہ وہ ’ترقی یافتہ‘ دنیا کو یہ وعدہ یاد کروائے۔
فنڈز کا حصول تو مسئلے کے حل کا ایک پہلو ہے، دوسرا پہلو منصوبہ بندی اور اس کا نفاذ ہے۔ منظوری کی منتظر نئی کلائیمیٹ چینج پالیسی اس سمت میں ایک خوش آئند قدم ہے۔ ہمیں تیزی سے اقدامات کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ جیکب آباد جیسے علاقے موجودہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہوں۔
یہ مضمون 19 ستمبر 2021ء کو ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔