سن یاٹ سین یونیورسٹی کی تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوئی کہ ویکسین کی تیسری خوراک سے کورونا وائرس کے خلاف خلیات پر مبنی مدافعتی ردعمل بھی مضبوط ہوتا ہے۔
یہ نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب چین میں بیماری کے زیادہ خطرے سے دوچار افراد کو بوسٹر ڈوز دینے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔
یہ فیصلہ وقت کے ساتھ ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی کے خدشات پر کیا گیا۔
سائنو فارم ویکسین پاکستان سمیت متعدد ممالک میں کووڈ کی روک تھام کے لیے استعمال کی جارہی ہے اور چین کی ویکسینیشن مہم میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
ویکسینیشن کرانے والے ہیلتھ ورکرز کے نمونوں کے تجزیے کے بعد تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سائنو فارم کی دوسری خوراک کے استعمال کے 5 ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی شرح میں 70 فیصد تک کمی آئی۔
مگر ویکسین کی تیسری خوراک کے استعمال کے ایک ہفتے بعد اینٹی باڈیز کی شرح میں 7.2 گنا اضافہ ہوگیا۔
تحقیق میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اینٹی باڈیز کی سطح میں تبدیلی سے ویکسین کی افادیت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یا کورونا کی نئی اقسام کے خلاف کتنا تحفظ ملتا ہے۔
اس سے قبل فائزر/بائیو این ٹیک، موڈرنا اور دیگر ویکسینز کی افادیت میں بھی وقت کے ساتھ کمی دریافت کی گئی ہے اور کمپنیوں کی جانب سے اس طرح کے ڈیٹا کو بوسٹر ڈوز کی منظوری کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
مگر کچھ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ بوسٹر ڈوز کے استعمال کا فیصلہ کرنے کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے۔