کابل سے غیر ملکی فوجی انخلا: آگے کیا ہوگا؟
امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ انجام کو پہنچی، ڈیڈلائن کے خاتمے سے 24 گھنٹے پہلے ہی امریکی بستر گول کرگئے۔ یہ جنگی تاریخ کا ایسا باب ہے جو وفا نہ ہونے والے وعدوں اور افراتفری میں بھاگ نکلنے جیسی بڑی ناکامیوں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
امریکی اس قدر افراتفری میں تھے کہ اپنے 300 شہریوں کو بھی افغانستان میں بے یار و مددگار چھوڑ کر نکل گئے۔ انخلا کے آخری چند گھنٹے ڈرامائی تھے جن میں امریکی فوجیوں کو ہم وطنوں کو طیاروں میں سوار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا سامان باندھ کر روانہ ہونا تھا اور انہی آخری گھنٹوں میں انہیں 2 حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں 13 امریکی فوجی مارے گئے اور آخری لمحے تک کسی نئے حملے کا خوف ان کے ذہن پر سوار رہا۔
جنگ سے تھکی امریکی قوم نے نہ ختم ہونے والی جنگوں سے نجات کے لیے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کو چُنا اور پھر جو بائیڈن کو لے آئی۔ بائیڈن نے جنگ ختم کرنے کا وعدہ نبھایا لیکن اب اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک وہ شدید تنقید کی زد میں ہیں اور اس کی وجہ جنگ کا خاتمہ نہیں بلکہ غیر منظم اور افراتفری میں کیا گیا فوجی اور شہری انخلا ہے، جس کی وجہ سے امریکی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے اور لوگ سابق وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کو یاد کر رہے ہیں جنہوں نے ایک بار کہا تھا، امریکا کا دشمن ہونا خطرناک لیکن امریکا کا دوست ہونا مہلک ہے۔
امریکی انخلا کے بعد کئی اہم سوالات سر اٹھائے کھڑے ہیں جن کے جواب آنے والے دنوں میں ملیں گے لیکن اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ کیا ہوگا اور کیسے ہوگا؟ ہم بھی چند سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے سوال مرتب کرلیتے ہیں۔
- کیا طالبان کی حکومت تسلیم کرلی جائے گی؟
- کیا طالبان حکومت کر پائیں گے؟
- کیا افغانستان سے دہشتگرد گروپوں کا خاتمہ ممکن ہوگا؟
- کیا دہشتگردی کے خلاف شروع کی گئی جنگ بھی انجام کو پہنچی؟
- کیا امریکا کا قائدانہ کردار جاری رہے گا؟
- امریکی صدر جو بائیڈن کو افراتفری میں کیے انخلا کا کیا بھگتان کرناپڑسکتا ہے؟
- خطے کی سیاست میں علاقائی ملکوں کا کردار کیا ہوگا؟
سب سے پہلا سوال طالبان کی حکومت کو تسلیم کیے جانے کا ہے، اس سے پہلے انہی صفحات پر اس سوال کا جواب اشارتاً لکھ چکا ہوں اور اس کو مزید واضح لکھا جاسکتا ہے۔ افغان طالبان نے اب تک حکومت کا باضابطہ اعلان نہیں کیا اور آخری امریکی فوجی کی موجودگی تک یہ اعلان مؤخر رکھا گیا تھا (ان سطور کے لکھے جانے تک بھی اعلان نہیں ہوا) تاہم اس کی وجہ بین الاقوامی سطح پر ہونے والے مذاکرات اور ان کے نتائج ہیں۔ یہ مذاکرات نیویارک اور دوحہ میں ہو رہے ہیں۔
جی سیون ممالک آج (منگل کے روز) طالبان کی حکومت کو تسلیم کیے جانے کے حوالے سے ترکی، قطر اور نیٹو کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے۔ اس اجلاس اور امریکی انخلا کی تکمیل سے پہلے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس ہوا جس میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جس میں طالبان پر زور دیا گیا کہ امریکا کے فوجی انخلا کے بعد وہ لوگوں کو افغانستان سے باہر جانے کی اجازت دینے کا عہد پورا کریں۔
تاہم، چین اور روس نے یہ کہتے ہوئے قرارداد کی حمایت کرنے سے انکار کیا کہ یہ بات امریکا کی جانب سے غیر منظم روانگی کے الزام سے دھیان ہٹانے کے مترادف ہے۔ فرانس نے برطانیہ اور امریکا سے مل کر یہ قرارداد پیش کی تھی۔ قرارداد میں انسانی بنیاد پر امداد جاری کرنے، انسانی حقوق کی سربلندی کو یقینی بنانے اور انسدادِ دہشت گردی کے اقدام کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔
جی سیون ممالک کے ترکی، قطر اور نیٹو کے اجلاس میں بھی یہی مطالبات دہرائے جائیں گے۔ اس قرارداد سے واضح ہو رہا ہے کہ طالبان کی حکومت تسلیم کیے جانے کے لیے ایک روڈ میپ دے دیا گیا ہے جو 3 مرحلوں یا شرائط پر مشتمل ہے۔
پہلا مرحلہ
افغانستان سے افغانوں اور تمام غیر ملکیوں کی محفوظ اور منظم طریقے سے واپسی یقینی بنائی جائے، اس کا مطلب ہے کہ امریکی واپسی کے لیے دی گئی 31 اگست کی ڈیڈلائن کے بعد بھی مستقبل میں یہ واپسی یقینی بنائی جائے۔
دوسرا مرحلہ
خواتین، بچوں اور اقلیتوں کے انسانی حقوق کو یقینی بناتے ہوئے افغانستان میں انسانی امداد کی اجازت دی جائے۔ بات چیت کے ذریعے سیاسی سمجھوتے پر پہنچا جائے اور تمام افغانوں کی نمائندہ حکومت بنائی جائے جس میں خواتین کی نمائندگی بھی ہو۔ پچھلے 20 برس میں ہونے والی پیش رفت کو لپیٹا نہ جائے۔
تیسرا مرحلہ
افغان طالبان اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کا ملک کسی دوسرے ملک پر حملے کے لیے استعمال نہیں ہوگا، دہشتگردوں کو پناہ یا تربیت اور دہشتگردی کی کارروائیوں میں معاونت نہیں دی جائے گی۔
اقوامِ متحدہ کی قرارداد میں افغانوں اور غیر ملکیوں کے لیے ملک چھوڑنے میں سہولت کی خاطر کابل میں محفوظ زون کا مطالبہ بھی شامل تھا لیکن روس اور چین کی مخالفت کے بعد اسے نکال دیا گیا کیونکہ اس نکتے کی وجہ سے ویٹو کا ڈر موجود تھا۔ اس کا ذکر روس کے مندوب نے کیا اور کہا کہ محفوظ راستے کی بات کرتے ہوئے افغانستان سے برین ڈرین کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا اور افغانستان کے معاشی مسائل کی طرف بھی توجہ نہیں دی گئی۔ امریکا نے افغان سینٹرل بینک کے اثاثے منجمد کیے ہیں جس کے انسانی زندگیوں پر اثرات کا بھی کوئی ذکر نہیں کررہا۔
روس کے مندوب نے کہا کہ اس قرارداد میں علاقے کے ملکوں کے لیے دہشتگردی کے خطرات پر بھی کوئی بات نہیں کی گئی۔ یوں روس نے اپنے تحفظات اور ایجنڈا بتا دیا۔ امریکا اور اتحادی اقوامِ متحدہ میں پیش کی گئی قرارداد کو ایک روڈ میپ تصور کر رہے ہیں اور اس پر عمل کی صورت میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ابھی وقت درکار ہے۔
چین نے بھی امریکی قرارداد کو سپورٹ نہیں کیا۔ دونوں ملک امریکا کی روانگی سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنا چاہتے ہیں اور دونوں ملکوں کے لیے سیکیورٹی مسائل بھی ہیں۔ روس افغان مسئلے میں خود کو ایک مصالحت کار کے روپ میں پیش کر رہا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے حال ہی میں امریکا اور مغربی ملکوں کی طرف سے افغانستان میں جمہوریت کے قیام کی کوششوں کا بھی مذاق اڑایا تھا۔
انہوں نے اینجلا مرکل سے مذاکرات کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ مغرب کے سیاستدان اب اس بات کو سمجھنے لگے ہیں کہ اجنبی سیاسی نظام کو دوسرے ملکوں پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے فوری بعد روس کے صدر متحرک ہوئے اور خطے کے ملکوں سے فون پر رابطے کیے اور دنیا کو جتانے کی کوشش کی کہ وہ امریکا کی ہزیمت کے بعد قیادت کے قابل ہیں۔ روس نے دوسرے ملکوں کے برعکس سفارتخانہ بھی خالی نہ کیا اور شہریوں کو نکالنے کے لیے بھی بے چینی نہ دکھائی بلکہ معمول کی سرگرمیاں جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔
دراصل روس ایک عرصے سے طالبان کو اقتدار میں واپس آتا دیکھ رہا تھا اور اس کی تیاری میں تھا اور پچھلے 7 سال سے طالبان قیادت کے ساتھ بھرپور رابطوں میں تھا۔ جیسے بین الافغان مذاکرات کے لیے روس نے ماسکو میں بندوبست کیا، طالبان کو دہشتگرد گروپ قرار دینے کے باوجود ان کی قیادت کو ماسکو میں پروٹوکول ملتا رہا۔ اب روس کئی برسوں سے کی گئی محنت کا پھل وصول کرنے کی کوشش میں ہے۔ روس خطے میں اثر و رسوخ گہرا کرنا چاہتا ہے۔
اگست کے اوئل میں ہی طالبان کی پیش قدمی دیکھ کر روس نے ہمسایہ ملکوں ازبکستان، تاجکستان اور چین کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقیں کیں، اور یوں روس نے وسطی ایشیا میں خود کو سب کا محافظ ہونے کا یقین دلا دیا۔ روس امریکی انخلا کو خطے میں واشنگٹن کے کم ہوتے اثر و رسوخ سے تعبیر کرتا ہے۔ روس اپنے عقب میں کسی بھی دہشتگردی کے خطرے کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے اور طالبان سے یقین دہانیاں لینے کے بعد سیاسی تصفیے میں کردار ادا کرنے کا متمنی ہے۔ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ روس کس قدر کامیاب رہتا ہے لیکن افغانستان کا سیاسی تصفیہ ماسکو میں ہوتا نظر آتا ہے اور ابھی تک روس اس مسئلے میں بڑا کھلاڑی بن کر اُبھرا ہے۔
چین بھی طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے اشارے پہلے ہی دے رہا ہے۔ چین کے وزیرِ خارجہ وانگ ژی نے امریکی ہم منصب سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری نئی طالبان حکومت کے معاملات چلانے میں رہنمائی فراہم کرے۔ واشنگٹن بھی نئی حکومت کو چلانے میں مدد دینے کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرے کیونکہ امریکا کا جلدبازی میں انخلا افغانستان میں دہشتگردوں کو منظم ہونے کا موقع دے سکتا ہے۔
وانگ ژی کا بیان چین کی پالیسی کو واضح کرتا ہے اور چین کے اپنے معاشی اور سیاسی مقاصد ہیں، اسی لیے ڈریگن اس خطرناک صورتحال میں خود کو باہر رکھنے کے بجائے اندر گھسنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان حالات میں یہ تو واضح ہوگیا کہ اگر طالبان نے پچھلے دور کی غلطیاں نہ دہرائیں تو انہیں اس بار بین الاقوامی برادری تسلیم کرکے حکومت کرنے اور ملک چلانے کا موقع دے گی۔
یہ اہم اور مشکل سوال ہے، طالبان کے پاس جنگ اور اب سفارتکاری کا تجربہ تو ہے لیکن نظامِ حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں۔ دوسری بات یہ کہ طالبان کے مقامی کمانڈرز کبھی بھی وقتی جذبات میں کوئی ایسا فیصلہ کرسکتے ہیں جو انہیں دنیا میں کسی نئے تنازع کا شکار بناسکتا ہے۔ گورننس کے علاوہ معیشت کے بھی مسائل ہیں۔ امریکا زرِمبادلہ ذخائر منجمد کرچکا ہے، دنیا بھی پابندیاں عائد کیے ہوئے ہے، طالبان معاشی بندوبست کا بھی تجربہ نہیں رکھتے لیکن ان کے ساتھ بڑا مسئلہ سیکیورٹی کا ہے۔
طالبان نے گوریلا جنگ کے ذریعے امریکی سرپرستی میں بننے والی حکومت اور غیر ملکی طاقتوں کو من مانی نہیں کرنے دی اور امریکی اتحاد کو نامراد لوٹنا پڑا، اب داعش کی صورت میں انہیں بھی ایسے ہی دشمن کا سامنا ہے۔ امریکی سینٹرل کمان کے سربراہ نے انخلا مکمل ہونے کا اعلان کیا تو یہ بھی ذکر کیا کہ ان کے اندازے کے مطابق داعش کے 2 ہزار تربیت یافتہ جنگجو افغانستان میں موجود ہیں۔ ایک اور بڑا مسئلہ طالبان کی کامیابی کے بعد یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ دنیا بھر سے جہاد کے نام پر بننے والے گروہ یہاں کا رخ کریں گے اور داعش خراسان یعنی افغانستان میں موجود داعش کا دھڑا ان کے لیے پُرکشش ہوگا۔
داعش خراسان عراق اور شام میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد داعشی جنگجوؤں اور قیادت کے لیے زیادہ دلچسپی کا باعث ہے۔ داعش خراسان مشرقِ وسطیٰ میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ سے نیٹ ورک بنانے کے ساتھ ساتھ کارروائیوں کے لیے بھاری فنڈز لیتی رہی ہے۔ غیر ملکی جنگجو بھی اسے جوائن کرتے رہے ہیں جن میں عراق سے داعش کا لیڈر ابو قتیبہ بھی شامل ہے۔ عام خیال کے برعکس داعش ایک منظم تنظیم ہے جس میں اطاعتِ امیر اور بیعت کا تصور بہت پختہ ہے اور داعش خراسان موجودہ سربراہ ابو ابراہیم الہاشمی کی تابع فرمان ہے۔ طالبان کو گوریلا جنگ سے نبردآزما ہونا پڑے گا اور امریکی جنرل میک کنزی کے لفظوں میں طالبان کو اپنا بویا ہوا اب کاٹنا پڑے گا۔
اس سوال کا جواب امریکی انخلا سے چند گھنٹے پہلے امریکی قیادت میں قائم 83 ملکی اتحاد کے مشترکہ بیان میں چھپا ہے۔ اس بیان میں داعش کو شکست دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم فوجی، انٹیلی جنس، سفارتی، معاشی اور قانون کے نفاذ سمیت قومی قوت کے ذریعے اس ظالمانہ دہشتگرد گروہ کی شکست یقینی بنائیں گے۔ اس مشترکہ بیان سے ایک اور سوال کا جواب مل گیا کہ افغانستان میں جنگ ختم ہوئی ہے لیکن لڑائی باقی ہے۔
فوجی انخلا عالمی معاملات میں امریکا کی بڑھتی ہوئی نااہلی کے ایک ثبوت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ دنیا کی طاقتور ترین فوج، 2 کھرب خرچ، پونے 8 لاکھ نفری کے ساتھ 2 دہائیوں تک ایک نئی قوم کی تعمیر کے مشن میں لگی رہی اور جب امریکیوں نے انخلا کا فیصلہ کیا تو اس کی بنائی نئی قوم کی فوج اور حکومت نے ایک ہفتے میں ہتھیار ڈال دیے۔ یہ تاریخ کا بڑا واقعہ ہے جسے امریکی صدی کے اختتام کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ عالمی تسلط میں عارضی دھچکا ہے یا فیصلہ کن مرحلہ آچکا ہے۔
امریکا کو اس سے پہلے بھی بڑے دھچکے لگ چکے ہیں جہاں امریکا نے کمزوری دکھائی یا لگا کہ امریکا کمزور پڑگیا ہے، جیسے پرل ہاربر پر جاپان کا حملہ، جس کے نتیجے میں امریکا کا بحرالکاہل کا بحری بیڑا تباہ ہوگیا تھا لیکن امریکا نے 3 سال کے اندر بحریہ کو دوبارہ کھڑا کرکے جاپان کو گھٹنوں کے بل جھکایا۔ 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر اور شام نے سوویت یونین کی مدد سے اسرائیل پر حملہ کیا تو امریکا نے اسرائیل کے لیے اسلحہ ایئرلفٹ کیا، ردِعمل میں عرب دنیا نے تیل کی سپلائی بند کی تو امریکی معیشت شدید متاثر ہوئی لیکن امریکا نے 10 سال میں سوویت یونین کا اثر کم کرکے مصر کو عرب قوم پرست اتحاد سے الگ کردیا۔
فی الحال امریکی زوال کی حتمی پیشگوئی شاید نہ کی جاسکے لیکن پچھلی 2 دہائیوں سے جیو اسٹرٹیجک حالات میں بڑی تبدیلیاں آچکی ہیں اور جس طرح اس کے عالمی طاقت بننے کے بھی فوری آثار نہیں تھے لیکن پہلی جنگِ عظیم میں اتحادیوں کے ساتھ مل کر سُپر پاور بن گیا تھا، شاید امریکا کا زوال بھی اسی طرح اچانک عمل میں آئے۔
امریکا 2008ء کے معاشی بحران کے بعد پہلے جیسا مضبوط نہیں رہا اور اس کے ساتھ روس کے دوبارہ ابھرنے اور چین کو پاؤں پھیلانے کا موقع ملا جس سے انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اب دنیا مکمل یک قطبی نہیں رہی۔ ٹرمپ دور میں اتحادیوں کے ساتھ ہونے والا سلوک اور اب افراتفری میں افغانستان سے امریکی انخلا واشنگٹن کی ساکھ داؤ پر لگا چکا ہے۔
اگر امریکی صدر کی آخری تقریر کو دیکھا جائے تو اس کے دو واضح پیغام تھے۔
- پہلا یہ کہ مجھے ان حقائق پر بہت دکھ ہوا ہے جن کا ہمیں اب سامنا ہے، لیکن مجھے افغانستان میں امریکا کی جنگ ختم کرنے کے اپنے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔
- دوسرا یہ کہ ہم 20 سال پہلے یہ واضح اہداف لے کر افغانستان گئے کہ 11 ستمبر 2001ء کو امریکا پر حملہ کرنے والوں کو پکڑیں اور یقینی بنائیں کہ القاعدہ افغانستان کو امریکا پر حملے کے لیے دوبارہ بطور ٹھکانہ استعمال نہ کرسکے۔ ہم نے یہی کیا، ایک دہائی پہلے۔ ہمارا مقصد قوم سازی کبھی نہیں تھا۔
صدر بائیڈن نے 2 باتوں کی بنیاد پر یہ مؤقف اختیار کیا ایک یہ کہ ہمارا مقصد قوم کی تعمیر و تشکیل نہیں تھا اور دوسرے یہ کہ امریکیوں کی اکثریت اس لاحاصل جنگ سے نکلنے کی حامی ہے۔
صدر جو بائیڈن کی اس پوزیشن کے بعد این بی سی کے پول میں ہر 10 میں سے 6 امریکیوں نے کہا کہ افغٓانستان کے معاملے سے جس طرح بائیڈن نے ڈیل کیا وہ اس سے متفق نہیں۔ 74 فیصد نے کہا کہ افغانستان سے فوج نکالنے کا عمل بہت بُرے طریقے سے انجام دیا گیا۔ 44 فیصد نے کہا کہ کچھ نہ کچھ بُرا ہوا۔ صرف 30 فیصد نے بائیڈن کی مجموعی کارکردگی کی تعریف کی۔ صدر بائیڈن کی مقبولیت پہلی بار 50 فیصد سے کم پر آئی ہے۔ ری پبلکنز کے علاوہ ساتھی ڈیموکریٹس بھی مطمئن نظر نہیں آتے۔
بائیڈن کا خیال ہے کہ ووٹر ان کے بڑے ترقیاتی پیکج پر دھیان دیں گے اور امریکا کی تعمیرِ نو کے نعرے پر توجہ دیں گے۔ یہ درست ہے کہ امریکی خارجہ پالیسی کے معاملات پر زیادہ دلچسپی نہیں دکھاتے لیکن جہاں امریکی خطرے میں ہوں اور اس مسئلے پر خوب تشہیر بھی کی گئی ہو تو معاملہ الٹ جاتا ہے۔ اس بار تو 300 امریکیوں کو طالبان کے خطرے میں چھوڑ کر کمانڈر اِن چیف مشن ادھورا چھوڑ گیا ہے۔ بائیڈن ٹیم کا خیال ہے کہ جب تک اگلا الیکشن ہوگا ووٹر کے ذہن سے افغانستان نکل جائے گا اور ان کی کورونا پالیسی اور ترقیاتی پیکج سب کے سامنے ہوگا۔ بائیڈن نے بڑا جوا کھیلا ہے اور اس کا نتیجہ اگلے الیکشن میں ہی سامنے آئے گا لیکن سیاست میں کچھ حتمی نہیں ہوتا اور اگر افغانستان آنے والے برسوں میں دوبارہ مسئلہ بن کر ابھرا تو بائیڈن یہ جوا ہار بھی سکتے ہیں۔
اس کا کچھ جواب تو ابتدائی حصے میں روس اور چین کے کردار کے حوالے سے زیرِ بحث آگیا ہے، لیکن ترکی، قطر اور عرب امارات بھی اہم کھلاڑی بن کر ابھرے ہیں۔ ترکی نے قطر کے ساتھ مل کر طالبان کے ساتھ کابل ایئرپورٹ کے حوالے سے ایک معاہدہ تیار کرلیا ہے اور اس پر دستخط ہونا باقی ہیں۔ ترکی اور قطر مل کر کابل ایئرپورٹ چلائیں گے لیکن اس سے پہلے انہیں طالبان کی حکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرنا ہے۔ ترکی اگر اس معاہدے پر دستخط کرتا ہے تو یہ طالبان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن سکتا ہے اور افغانستان میں اس کا کردار سب سے اہم ہوجائے گا۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے مشن میں قطر سب سے بڑا کھلاڑی بن کر ابھرا ہے۔ اس نے امریکی انخلا میں مدد دی کیونکہ طالبان قیادت اس کی مہمان تھی اور دونوں فریقین کے ساتھ قطر کے اچھے مراسم ہیں۔ قطر نے افغانستان کے کھلاڑیوں سمیت شہریوں کی بڑی تعداد کو طالبان کی چیک پوسٹوں سے گزار کر ایئرپورٹ پہنچایا۔ انخلا کے دوران بڑی تعداد میں افغانوں اور دیگر قومیتوں کی مہمان نوازی کی، دنیا بھر کے لیڈر قطر کی کوششوں کا اعتراف کر رہے ہیں اور اس کے صلے میں امریکا جی سیون اور نیٹو اجلاس میں قطر اور ترکی دونوں کو شامل کر رہا ہے اور خطے کے دیگر ملک اس اجلاس سے باہر ہیں۔
قطر کا مقاطعہ کرنے والے عرب امارات اور سعودی عرب بھی اب اس کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عرب امارات کے قومی سلامتی مشیر طحنون بن زاید ال نہیان نے قطر کا دورہ کیا اور قطر کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی۔ یوں قطر نے مشرق وسطیٰ میں بھی پوزیشن مضبوط کرلی ہے۔
دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔