نقطہ نظر

مشروم جھیل: سوات کی جھیلوں میں خوبصورت اضافہ

پہاڑوں کی چوٹیوں کے درمیان زمرد رنگ کے پانی کی اس جھیل کا شمار بلاشبہ پاکستان کی اونچی، بڑی اور خوبصورت جھیلوں میں ہوتا ہے

بیس کیمپ سے تقریباً 6، 7 گھنٹوں کی ایک طویل اور تھکا دینے والی مسافت طے کرنے کے بعد جیسے ہی مشروم جھیل (Mushroom Lake) پر میری پہلی نظر پڑی، تو نہ جانے کیوں مجھے احساس ہوا کہ سوات کو خداوند نے بڑی فیاضی کے ساتھ فطری حُسن سے نوازا ہے۔

بیشتر لوگ اسے سوات کے میدانی علاقوں میں تلاشتے ہیں جبکہ یہ حُسن، فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں، ان کی گود میں نیلے پانیوں کی برفیلی جھیلوں کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے، بلندی سے گرنے والی آبشاروں کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے یا پھر بڑے بڑے بانڈہ جات (چکیل، باکسر، ٹیپ، کُو، دیسان، جانشئی وغیرہ) کی صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔

سوات کی پوری وادی سے بھرپور لطف اٹھانے کے لیے بلاشبہ ایک زندگی کم ہے۔ مشروم جھیل کے کنارے بیٹھ کر مجھے خیال آیا کہ واقعی سوات کے فطری حُسن سے محظوظ ہونے کے لیے دوسری بار دنیا میں آنا پڑے گا۔ جھیل کنارے بیٹھے بیٹھے مجھے کشور کمار کی آواز میں گایا ہوا یہ مشہور نغمہ یاد آیا اور گنگنایا بھی کہ

تیرا ساتھ ہے کتنا پیارا

کم لگتا ہے جیون سارا

تیرے ملن کی لگن میں

ہمیں آنا پڑے گا دنیا میں دوبارہ

جھیل کا نام 'مشروم' کیسے پڑا؟

جھیل کنارے بیٹھے مجھے سب سے پہلے خیال یہ آیا کہ اس کا نام 'مشروم' ہی کیوں پڑا؟ حالانکہ اس کا پرانا نام 'بلی ڈنڈہ' یعنی 'بَلی جھیل' ہے۔ گوگل میپ پر تلاشیں تو بَلی نامی کوئی جھیل ہاتھ نہیں آتی۔ شاہی باغ میں بھی کھوکھے اور ریسٹورنٹ والے مقامی لوگ اسے 'مشروم' پکارتے ہیں۔ انہی کے بقول ہمارے بڑے اسے 'بَلی' کے نام سے پکارتے تھے۔

مقامی لوگوں کے مطابق بہار کے موسم میں جیسے ہی جھیل کے آس پاس برف پگھل جاتی ہے، تو انواع و اقسام کی خود رُو کھمبیاں (Mushrooms) اُگ آتی ہیں۔ مقامی لوگ انہیں اکٹھا کرکے شہر میں مہنگے داموں فروخت بھی کرتے ہیں۔ انہیں مختلف ادویات بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مذکورہ انواع و اقسام کی کھمبیوں کی وجہ سے جھیل کا نام بھی 'مشروم' (Mushroom) پڑگیا۔

جھیل تک کیسے جایا جائے؟

سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے کالام تک سڑک پکی کردی گئی ہے۔ 96 کلومیٹر کا یہ راستہ اگر رش زیادہ نہ ہو، تو ساڑھے 3 گھنٹے میں باآسانی طے کیا جاسکتا ہے۔

کالام سے آگے اُتروڑ تک 17 کلومیٹر کی سڑک کچی ہے، جہاں تک عام گاڑی کی مدد سے باآسانی رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اُتروڑ سے آگے کا راستہ (تقریباً 11 کلومیٹر) نہ صرف کچا ہے بلکہ پُرخطر بھی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اُتروڑ سے شاہی باغ تک فور بائے فور گاڑی کرائے پر حاصل کی جائے۔ گوکہ اب جبہ (بیس کیمپ) تک کچی سڑک کا اہتمام ہوچکا ہے اور گاڑی وہاں تک جایا کرتی ہے، مگر بہتر یہی ہے کہ شاہی باغ سے جبہ تک پیدل سفر کیا جائے۔ یہ ایک طرح سے 3 یا ساڑھے 3 گھنٹوں پر مشتمل ہر لحاظ سے ایک بہترین ہائیک ہے۔

مشروم جھیل کے لیے 'جبہ' کو بیس کیمپ تصور کرلیں۔ یہ خود ایک بہت ہی پیاری جگہ ہے جہاں شرقاً غرباً پہاڑی سلسلے ہیں اور ان کے درمیان مشروم جھیل سے نکلنے والے پانی کی بل کھاتی ندی ہے۔ جبہ میں خیمے لگانے کے لیے ایک سے ایک بہتر جگہ مل سکتی ہے۔ رات کو پُرسکون خاموشی، اگست جیسے گرم مہینے میں آگ تاپنے کا عمل اور نیند نہ آتے سمے اختر شماری (تارے گننا) گویا سونے پر سہاگا کے مصداق ہیں۔

اگلی صبح تازہ دم جھیل تک پیدل سفر شروع ہوتا ہے۔ اسے ایک صبر آزما مرحلہ مان لیں۔ چٹانوں سے سرکنے والے بڑے بڑے پتھر (Boulders) سب سے پہلے راستہ روکے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان سے آگے کھلے میدان شروع ہوتے ہیں جو مویشیوں کی چراہ گاہ ہیں۔ ان کے درمیان نیلے پانی کی بل کھاتی ندی اور خود رو رنگ برنگے پھول ایک الگ سماں باندھتے ہیں۔

کھلے میدانوں میں 2 گھنٹے کی پیدل مسافت طے کرنے کے بعد ایک آبشار دیکھنے کو ملتی ہے، جو سیدھی مشروم جھیل سے نکل کر نیچے میدان میں گرتی ہے۔ آبشار سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر جھیل کے لیے دیوقامت پہاڑ پر چڑھائی کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔

جھیل تک پیدل جانے والا راستہ کیسا ہے؟

چڑھائی کا عمل شروع کرنے سے پہلے پانی کی بوتل بھر لی جائے تو بہتر ہے کیونکہ آگے پورے راستے میں پانی کا نام و نشان دکھائی نہیں دیتا۔ تقریباً ایک گھنٹہ چڑھائی کا عمل پورا کرنے کے بعد قبلہ رُخ 90 درجے کے زاویے سے مُڑنا پڑتا ہے، جہاں سے نیچے دکھائی دینے والی گہری کھائی اچھے خاصے جی دار بندے کو بھی چکرا کے رکھ دیتی ہے۔

تقریباً آدھا گھنٹہ پھونک پھونک کر قدم رکھنے کے بعد پہاڑ کے اوپر ایک چھوٹا سا مرغزار دیکھنے کو ملتا ہے۔ مرغزار سے جھیل کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔

پہاڑی سلسلے کی چوٹیاں، گلیشیئر اور آبشار، یہ وہ نشانیاں ہیں جو دُور سے مشروم جھیل کی موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ اس مقام سے ٹھیک ڈھائی یا 3 گھنٹے کی صبر آزما مسافت طے کرنے کے بعد جیسے ہی جھیل پر پہلی نظر پڑتی ہے تو آدمی بے ساختہ کشور کمار کی آواز میں گایا ہوا نغمہ گنگنانے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ 'تیرا ساتھ ہے کتنا پیارا۔۔۔!'

مشروم جھیل کی انفرادیت کیا ہے؟

مشروم جھیل، سطحِ سمندر سے 13 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں کے درمیان زمرد رنگ کے پانی کی اس جھیل کا شمار بلاشبہ پاکستان کی اونچی، بڑی اور خوبصورت جھیلوں میں ہوتا ہے۔ چوٹیوں پر پڑی برف پگھل کر جھیل کا پیٹ بھرتی ہے۔

جھیل سے نکلنے والا پانی، آبشار کی شکل میں گِر کر ندی کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور آگے دریائے سوات میں گِر کر اپنی شناخت کھو بیٹھتا ہے۔ مئی کے وسط سے ستمبر کے وسط تک کا دورانیہ جھیل کی سیر کے لیے آئیڈیل ہے۔ باقی مہینوں میں یہ برف سے اَٹی رہتی ہے۔

جھیل کی سیر کرنے والوں کے لیے چند ہدایات

مجھے مشروم جھیل کا نظارہ کرتے وقت کشور کمار کے نغمے کے ساتھ انگریزی کی یہ ضرب المثل بھی یاد آئی کہ The best view comes after the hardest climb یعنی کٹھن ترین چڑھائی کے بعد ہی نظارہ ملتا ہے۔


امجد علی سحاب روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو کو بطور مضمون پڑھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔


امجد علی سحاب

امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔