کورونا کی قسم بیٹا کو بی 1351 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے جو 2020 کے آخر میں جنوبی افریقہ میں دریافت ہوئی تھی۔
کچھ شواہد سے عندیہ ملا تھا کہ کورونا کی اس قسم کے باعث جنوبی افریقہ میں وبا کی دوسری لہر کے دوران کووڈ کے سنگین کیسز کی تعداد پہلی لہر کے مقابلے میں بڑھ گئی تھی۔
اس قسم سے مریض زیادہ بیمار ہوسکتے ہیں یا نہیں، اسی بات کا تعین کرنے کے لیے قطر کے ویل کارنل میڈیسین کی جانب اس ملک میں 2021 کے اوائل میں کووڈ سے بیمار ہونے والے افراد پر تحقیق کی گئی۔
اس وقت قطر میں بیٹا اور ایلفا زیادہ گردش کرنے والی کورونا اقسام تھیں۔
ایلفا قسم سب سے پہلے برطانیہ میں سامنے آئی تھی جبکہ تحقیقی ٹیم نے بیٹا کے اثرات کا موازنہ ڈیلٹا قسم سے نہیں کیا، جس کو بھی بیماری کی شدت میں اضافے سے منسلک کیا جارہا ہے، کیونکہ وہ اس وقت قطر میں پھیل نہیں رہی تھی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ کورونا کی قسم بیٹا سے متاثر ہوتے ہیں، ان میں ایلفا سے بیمار افراد کے مقابلے میں بیماری کی شدت زیادہ سنگین ہونے امکان 25 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق بیٹا کے مریضوں کے لیے آئی سی یو نگہداشت کا امکان 50 فیصد اور موت کا خطرہ 57 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ یہ مشاہدات وقت کے ساتھ درست ثابت ہوئے، یعنی قطر میں جیسے جیسے بیٹا قسم پھیلنا شروع ہوئی تو ہسپتال میں داخلے کی شرح دگنا بڑھ گئی جبکہ آئی سی یو میں داخلے اور اموات کی شرح 4 گنا بڑھ گئی۔
انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ ہم کورونا کی ایک زیادہ خطرناک قسم کے بارے میں بات کررہے ہیں۔
تحقیق کا دائرہ زیادہ بڑا نہیں تھا مگر نتائج اس لیے اہم ہیں کیونکہ تحقیق میں کورونا کی مختلف اقسام سے متاثر افراد پر مرتب نتائج کا موازنہ انتہائی احتیاط سے کیا گیا تھا۔
اس سے قبل جولائی میں جنوبی افریقہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا تھا کہ اس ملک میں وبا کی دوسری لہر کے دوران ہسپتال میں داخلے کے بعد اموات کی شرح میں 30 فیصد تک اضافہ ہوا۔
اس وقت جب کورونا کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا پھیل رہی ہے، تو بیشتر ممالک بشمول جنوبی افریقہ اور قطر میں بیٹا قسم کا پھیلاؤ کم ہوگیا ہے۔