مزید کے لیے کلک کریں
مذکورہ بالا باتوں سے آپ جو بھی سمجھے ہیں، اس کی وضاحت کرنا ضروری نہیں۔ دنیا اس موقعے پر کہی ہوئی باتوں پر ہی اصرار کر رہی ہے۔ آپ نے کہا تھا، اب آپ کریں۔ بندہ پوچھ بھی نہیں سکتا کہ حضور یہ سب تو آپ 20 سال میں نہیں کرسکے۔ اب یہ وزن کی پنڈ ہم اٹھائیں؟ لیکن یہ کہہ کر ہماری جان چھوٹ تھوڑی جائے گی۔
آج کے دن کی خبر یہ ہے کہ طالبان افغانستان کے پہلے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کرنے کے قریب ہیں۔ ہلمند صوبے کے 10 میں سے 9 اضلاع طالبان کے کنٹرول میں آچکے ہیں۔ لشکر گاہ کسی وقت بھی سرینڈر ہوسکتا ہے یا شاید نہ ہو کہ لڑائی ابھی جاری ہے۔
لڑائی کا مطلب سمجھنا ہے تو وہ یوں ہے کہ جنوری سے اب تک افغانستان میں ساڑھے 3 لاکھ لوگ بے گھر ہوچکے ہیں ۔ پاکستان کی مشکل جاننی ہے تو کرسچن سائنس مانیٹر کی ایک رپورٹ کا مطالعہ کیجیے جس کے مطابق افغان طالبان اب اعلیٰ سطح کے پاکستانی ملٹری عہدیداروں سے ملاقاتوں میں بہت درشت رویہ اختیار کیے رہتے ہیں۔
امریکا کے دورے پر گئے ہوئے پاکستان کے مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے امریکی ہم منصب سے ملاقات کی اور اس کے بعد جو کچھ وہ میڈیا سے بات چیت میں کہتے رہے اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ پاکستان مزید افغان مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ امریکی بیان آگیا ہے کہ پاکستان افغان مہاجرین کو قبول کرے۔
افغانستان کے صوبے ہرات میں اقوامِ متحدہ کے ایک کمپاؤنڈ پر حملہ ہوا جس میں ایک افغان سیکیورٹی گارڈ مارا گیا۔ یہ واقعہ عین اس دن ہوتا ہے جس دن پاکستانی مشیر لیفٹیننٹ جنرل فیض کے ہمراہ امریکی ہم منصب سے ملاقات کرتے ہیں۔ امریکی افغانستان میں تشدد کم کرنے کا کہہ رہے ہوں اور ایسے میں یہ کچھ ہو تو ان کی آواز میں دنیا کی آواز بھی شامل ہوجاتی ہے جبکہ ہم منمناتے ہی رہ جائیں گے؟
اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے اس واقعے کی مذمت کی ہے، ساتھ ہی مطالبہ بھی کیا ہے کہ افغانستان میں تشدد میں کمی لائی جائے۔ تمام فریقین سے کہا گیا ہے کہ وہ عالمی انسان دوست قوانین کا احترام کریں اور سویلین کو نشانہ بنانے سے گریز کریں۔
ہمارے لیے اس سے زیادہ نامناسب وقت نہیں ہوسکتا تھا کہ جب ہمارا بھارت 'مہان' سیکیورٹی کونسل کا ایک مہینے کے لیے چیئرمین بھی بن گیا۔ افغان وزیرِ خارجہ حنیف اتمر نے بھارتی وزیرِ خارجہ جے شنکر سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ بھارت فوری طور پر سیکیورٹی کونسل کا ایک خصوصی اجلاس بلائے اور اس اجلاس میں افغانستان کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔
اب ہمارے شریک جب ایسا اجلاس بلائیں گے تو اس میں طرح طرح سے ہمارا ذکر کرکے ہماری تعریف پر ہی غزلیں کہیں گے۔ اک دوسرے سے بڑھ کر ہماری باتیں کرنے والوں میں اگر چینی بھی دکھائی دیں تو ہمیں غش وغیرہ نہیں کھانا چاہیے۔ طالبان اس وقت مشن پر ہیں، افغانستان میں موجود ہر ڈیزائن کی عسکری تنظیم ان کی مدد امداد کر رہی ہے۔ ای ٹی آئی ایم کے چینی عسکریت پسند ہوں، اسلامک موؤمنٹ آف ازبکستان والے ہوں یا القاعدہ سب طالبان کی فتوحات میں ان کی مدد امداد فرمانے میں مصروف ہیں۔ اس کا کچھ ذکر ایشیا ٹائم نے اپنی رپورٹ میں کیا ہے۔
اس موقعے پر ہی اقوامِ متحدہ نے افغانستان پر اپنی سیکیورٹی رپورٹ جاری کی ہے جس میں عسکری تنظیموں کے نام، تعداد اور علاقوں کی تفصیل لکھی ہے جن میں پاکستانی تنظیموں کا بھی ذکر ہے۔ شدت پسندی اور پاکستان کا ذکر دنیا 'جہاں مامتا وہاں ڈالڈا' والے اصول کے تحت ہی کرتی ہے۔ بس ہمیں گھبرانا نہیں ہے۔
امریکی اس وقت بڑے طریقے سے پاکستان کے ساتھ فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔ وہ رابطہ، مطالبہ، دباؤ اور جو حربہ بھی انہیں آزمانہ ہو اس کا رُخ پنڈی کی طرف ہی رکھتے ہیں۔ پاکستان کی سول حکومت کو لفٹ ہی نہیں کرواتے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اب تک وزیرِاعظم عمران خان کو فون تک نہیں کیا۔ ویسے انہوں نے دنیا کے کئی دیگر اہم رہنماؤں کو بھی فون نہیں کیا، سعودی ولی عہد کا نمبر بھی ابھی تک نہیں ملایا ہے اور نہ مستقبل قریب میں ایسا کوئی امکان نظر آتا ہے۔
اس فون کال کو لے کر مسئلہ ہم خود ہی بنا رہے ہیں۔ جب معید یوسف نے فنانشل ٹائم کو انٹرویو دیا تو اگلوں نے اس کی ہیڈلائن ہی شکایتی سی لگا دی کہ پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر گلہ کررہے ہیں کہ 'بائیڈن کپتان کو کال نہیں کررہے'۔ یہ بھی کہہ دیا کہ 'پھر ہمارے پاس اور آپشن بھی ہیں'۔
فنانشل ٹائم کی اسی رپورٹ میں کچھ تجزیہ کاروں کا یہ خیال بھی لکھا گیا ہے کہ کپتان کو اس لیے لفٹ نہیں کرواتے کہ وہ انہیں طاقتور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا کٹھ پتلی ہی سمجھتے ہیں۔
اس طرح کے اور دو، چار انٹرویو دے کر ایسی مزید عزت افزائی کروا لیں، اگر کوئی کسر باقی محسوس ہوتی ہے تو۔
ویسے کم ہمارا کپتان بھی نہیں ہے۔ جب 2 رکنی اعلیٰ سطح کا امریکی دورہ جاری تھا، انہی دنوں کپتان نے امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا کہ امریکا افغانستان میں میس یعنی گند کرگیا ہے۔ امریکا نے جس طرح اچانک باہر نکلنے کا فیصلہ کیا ہے اب اس کے پاس کوئی بارگیننگ پاور نہیں رہی کہ وہ افغان دھڑوں میں ڈیل کروا سکے۔
ایسے موقع پر ایسا بیان۔
اس بیان کو امریکیوں نے کیسا لیا ہوگا؟ وہ پہلے ہی افغانستان کے حوالے سے ہم پر تپے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں انہیں ناکام وغیرہ بتا کر انہیں مزید مشتعل ہی کیا ہوگا۔
یہ سن کر ان کے ہاتھ جو آیا ہوگا اسی کو داد وغیرہ دی ہوگی۔ اس موقعے پر تو امریکا میں معید یوسف اور جنرل فیض ہی تھے۔ اب کوئی ان کے دل سے پوچھ لے کہ پھر کیا ہوا۔
ہمارا کپتان جب بولتا ہے، دل تو پھر ڈولتا ہے صاحب۔