صحت

ایک چوتھائی کووڈ مریضوں کو طویل المعیاد علامات کا سامنا ہوسکتا ہے، تحقیق

ایسے شواہد مسلسل سامنے آئے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ بیماری طویل المعیاد بنیادوں پر جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرسکتی ہے۔

کووڈ 19 کا سامنا کرکے اس سے صحتیاب ہونے والی ایک چوتھائی سے زائد مریضوں میں بیماری کی طویل المعیاد علامات یا لانگ کووڈ کا امکان ہوتا ہے۔

یہ بات سوئٹزر لینڈ میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

زیورخ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 2020 میں عام آبادی میں کووڈ 19 سے بیمار ہونے والے بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے ایک چوتھائی سے زائد نے بتایا کہ وہ ابتدائی بیماری کے 6 سے 8 مہینے بعد بھی مکمل طورپر صحتیاب نہیں ہوسکے۔

کورونا وائرس کی وبا کے آغاز میں محققین کی زیادہ تر توجہ کووڈ 19 کے بوجھ میں کمی لانے پر مرکوز تھی۔

مگر حالیہ مینوں میں ایسے شواہد مسلسل سامنے آئے ہیں جن سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ بیماری طویل المعیاد بنیادوں پر جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرسکتی ہے۔

ان طویل المعیاد اثرات کے لیے پوسٹ کووڈ 19 سینڈروم یا لانگ کووڈ کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔

اس تحقیق میں 431 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص فروری سے اگست 2020 کے دوران ہوئی تھی۔

ان افراد سے بیماری کی تشخیص کے 7.2 ماہ بعد صحت کے بارے میں ایک آن لائن سوالنامہ بھرنے کے لیے کہا گیا۔

بیماری کی تشخیص کے وقت 89 فیصد افراد میں بیماری کی علامات موجود تھیں جبکہ 19 فیصد کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا، ان افراد کی اوسط عمر 47 سال تھی۔

مجموعی طور پر 26 فیصد افراد نے بتایا کہ کووڈ 19 کی ابتدائی تشخیص کے 6 سے 8 ماہ بعد بھی وہ مکمل طور پر بیماری کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے۔

ان میں سے 55 فیصد افراد نے تھکاوٹ کی علامات کو رپورٹس کی، 25 فیصد کو کسی حد تک سانس لینے میں دشواری کا سامنا تھا جبکہ 26 فیصد کو ڈپریشن کی علامات نے پریشان کیا۔

لانگ کووڈ کا سامنا کرنے والے مریضوں میں بیماری کے دوران ہسپتال میں داخل ہونے والے افراد اور خواتین کی تعداد زیادہ تھی۔

مجموعی طور پر 40 فیصدافرد نے بتایا کہ انہیں کم از کم ایک بار کووڈ 19 سے متعلق کسی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا۔

محققین کا کہنا تھا کہ یہ تحقیق آبادی پر کووڈ 19 کے اثرات پر مبنی تھی جس سے معلوم ہوا کہ 26 فیصد افراد تشخیص کے 6 سے 8 ماہ بعد بھی مکمل طورپر صحتیاب نہیں ہوسکے جبکہ 40 فیصد کو کم از کم ایک بار طبی امداد کے لیے رجوع کرنا پڑا۔

اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل پلوس ون میں شائع ہوئے۔

اس سے قبل جولائی 2021 میں ایک اور تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ کو شکست دینے والے ہر 10 میں سے 4 افراد کو مہینوں تک مختلف علامات کا سامنا ہوتا ہے۔

جنیوا یونیورسٹی اور یونیورسٹی ہاسپٹلز آف جنیوا کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کو شکست دینے والے ہر 10 میں سے 4 افراد میں لانگ کووڈ یا طویل المعیاد علامات کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق میں 410 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی تھی تاہم بیماری کی شدت اتنی زیادہ نہیں تھی کہ انہیں ہسپتال میں داخل ہونا پڑتا۔

ان میں سے 39 فیصد نے بیماری کو شکست دینے کے 7 سے 9 ماہ بعد بھی مختلف علامات کو رپورٹ کیا۔

ان افراد میں تھکاوٹ لانگ کووڈ کی سب سے عام علامت تھی جس کا سامنا 20.7 فیصد افراد کو ہوا جس کے بعد سونگھنے یا چکھنے کی حس سے محرومی (16.8 فیصد)، سانس لینے میں دشواری (11.7 فیصد) اور سردرد (10 فیصد) عام ترین علامات تھیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں لانگ کووڈ کی علامات جیسے تھکاوٹ، سانس لینے میں مسائل اور درد کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

لوگ خود 2 مختلف کووڈ ویکسینز کے استعمال کا فیصلہ نہ کریں، عالمی ادارہ صحت

امریکا میں جانسن اینڈ جانسن کووڈ ویکسین کے ایک اور مضر اثر کی وارننگ جاری

کچھ افراد کو 'لانگ کووڈ' کا سامنا کیوں ہوتا ہے؟ وجہ سامنے آگئی