نقطہ نظر

امریکا سیاسی تصفیے سے پہلے ہی افغانستان سے فرار کیوں ہوا؟

صدر بائیڈن افغانستان سےنکلنے کے بعد کیا حکمت عملی اپناتے ہیں اس کا سامنے آنا باقی ہےلیکن بظاہر امریکی مقاصد زبردست دکھائی دیتے ہیں

افغانستان میں امریکی مشن کے کمانڈر نے 12جولائی کو چارج چھوڑ دیا اور کابل میں ہونے والی ایک تقریب میں افغان مشن کی کمان سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل فرینک میک کنزی کو سونپ دی، یوں افغانستان میں امریکی جنگ کا علامتی اختتام ہوچکا ہے۔ تاہم حالات یہ ہیں کہ افغانستان کے 407 اضلاع میں سے 200 پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے اور 124 اضلاع پر قبضے اور کنٹرول کی جنگ جاری ہے جبکہ باقی اضلاع ابھی تک اشرف غنی انتظامیہ کے کنٹرول میں ہیں۔

فوجی انخلا کی تکمیل کے لیے 11ستمبر کی ڈیڈ لائن مقرر کرنے والے صدر بائیڈن نے 9 جولائی کو افغانستان سے فوج کی واپسی کی نئی تاریخ دی تھی اور کہا تھا کہ 31 اگست کو فوج کی واپسی مکمل ہوگی لیکن اس سے پہلے ہی واپسی کا کام مکمل ہوچکا ہے۔

صدر بائیڈن نے افغان جنگ کو ناقابلِ فتح قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا مقصد اسامہ بن لادن کو سزا اور دہشتگردی کو امریکا کے لیے خطرہ بننے سے روکنا تھا اور یہ دونوں مقاصد حاصل ہوچکے ہیں۔ صدر بائیڈن نے افغانستان کو 20 سال حالتِ جنگ میں رکھنے اور افغانوں کی بے گناہ ہلاکتوں پر ایک لفظ بھی نہ کہا اور انتہائی 'کاروباری' انداز میں کہا کہ وہ افغان قوم کی تعمیر کے لیے نہیں گئے تھے اور یہ کام افغانوں کا ہے کہ وہ اپنے ملک کی تعمیر کریں۔

امریکا کی افغانستان سے واپسی انتہائی پُراسرار انداز میں ہوئی۔ امریکیوں نے بگرام ایئربیس رات کے اندھیرے میں بجلی بند کرکے خالی کیا اور مقامی کمانڈر کو اطلاع تک نہ دی۔ اب 31 اگست کی نئی ڈیڈ لائن سے پہلے ہی امریکی افغانستان چھوڑ چکے ہیں اور صرف 650 امریکی فوجی کابل میں چھوڑے گئے ہیں جو امریکی سفارتخانے کی سیکیورٹی کا کام کریں گے۔

امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے ساتھ ہی طالبان کی پیش قدمی تیز ہوچکی تھی اور وہ ہر روز نیا علاقہ قبضے میں لے رہے تھے لیکن امریکیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ دراصل طالبان نے دیہی افغانستان میں پیش قدمی 2014ء سے ہی شروع کردی تھی جب نیٹو افواج نے جنگی کردار سے کنارہ کشی اختیار کرکے چارج افغان فورسز کے حوالے کیا تھا، اس لیے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ امریکیوں کو طالبان کے ارادوں اور افغانستان کے مستقبل کے نقشے کی خبر نہیں تھی تو یہ اس کی کم علمی ہے۔

طالبان نے دیہی اور دُور دراز علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد انہیں اگلے آپریشنز کے لیے اڈوں کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ انہی دُور دراز کے اضلاع میں طالبان نے نئی بھرتی بھی کی، ان کی تربیت بھی کی اور درست وقت کا انتظار کیا، یہ ممکن نہیں کہ امریکی اس سے بے خبر ہوں۔

افغان طالبان نے امریکیوں کی واپسی اور افغانستان پر کنٹرول کے لیے فوجی اور سفارتی حکمتِ عملی ترتیب دی تھی اور سفارتی حکمتِ عملی ہی ان کی فوجی منصوبہ بندی کے کام آئی۔ 2018ء میں سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے اور 29 فروری 2020ء کو دوحہ امن معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں افغانستان سے غیر ملکی فوجی انخلا کی ڈیڈ لائن یکم مئی 2021ء مقرر کی گئی۔

دوحہ مذاکرات اور معاہدے کو امن کی کامیابی قرار دیا گیا لیکن دراصل ان مذاکرات کا واحد مقصد امریکا کو اس لاحاصل جنگ سے باہر نکالنا تھا۔ ان مذاکرات کے دوران امریکا نے افغانستان میں اپنی سرپرستی میں بنائی گئی کابل حکومت کو بھی شامل نہ کیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان مذاکرات کا مقصد اس لولی لنگڑی حکومت کو مکمل طور پر افغانستان کے مستقبل سے دُور رکھنا اور طالبان کو مضبوط بنانا تھا۔

ری پبلکن صدر ٹرمپ نے دوحہ معاہدہ کیا اور ڈیموکریٹ جو بائیڈن نے اس معاہدے کو 'بُری ڈیل' کہنے کے باوجود اس پر عمل درآمد کیا۔ دوحہ مذاکرات کے دوران طالبان نے فوجی طاقت جمع کرنا شروع کردی اور امریکیوں کی واپسی کے اعلان کا انتظار کرنے لگے۔

ٹرمپ سے ہونے والے معاہدے کے تحت یکم مئی فوجی انخلا کی ڈیڈ لائن تھی لیکن طالبان نے معاہدہ طے پاتے ہی محتاط انداز میں جنگی حکمتِ عملی پر عمل شروع کردیا تھا اور افغان فورسز پورا سال طالبان کو روکنے کی ناکام کوشش میں مصروف رہیں۔ افغان فورسز کو کبھی کبھی امریکی فضائی مدد ملتی تو طالبان کچھ جانی نقصان کے ساتھ پسپا ہوجاتے لیکن امریکی کارروائی رکتے ہی طالبان کی پیش قدمی شروع ہوجاتی تھی۔ طالبان کو جس قدر وقت اور مہلت درکار تھی امریکی معاہدے نے انہیں مہیا کردی تھی۔ طالبان کی افغانستان میں پیش قدمی یکم مئی تک تیز تر ہوچکی تھی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ منصوبہ بندی پر عمل شروع ہوچکا تھا۔

امریکی انخلا سے پہلے ہی افغان فورسز نے ہتھیار ڈالنا شروع کردیے تھے جبکہ کئی اضلاع اور بارڈر پوسٹس طالبان نے لڑے بغیر ہی قابو کرلیے۔ اب حالت یہ ہے کہ طالبان تاجکستان، ازبکستان، ایران اور پاکستان کے ساتھ بارڈرز کراسنگ پر کنٹرول حاصل کرچکے ہیں اور بڑے صوبائی دارالحکومت طالبان کے نشانے پر ہیں۔

شمالی افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی ان کی بہترین جنگی حکمتِ عملی کی تصویر ہے۔ اگر شمالی افغانستان پر طالبان کا کنٹرول مضبوط ہوجاتا ہے، جیسے انہوں نے شمال کے بڑے حصے پر قابو پالیا ہے، تو افغان حکومت اپنے روایتی مددگار علاقوں کا کنٹرول کھونے کے بعد مزاحمت کے قابل ہی نہیں رہے گی اور اس کے بکھرنے کا امکان مزید بڑھ جائے گا۔

طالبان اور کابل حکومت کی پوزیشن کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ اس سال یکم مئی کو طالبان کے کنٹرول میں صرف 73 اضلاع تھے جبکہ حکومت کے کنٹرول میں 115 اضلاع تھے، لیکن 5 جولائی تک صورتحال بدل گئی ہے اور طالبان کا کنٹرول 73 اضلاع سے بڑھ کر 195 اضلاع تک پھیل گیا جبکہ کابل حکومت 115 اضلاع سے سکڑ کر 75 اضلاع تک محدود ہوگئی ہے۔ یکم مئی کو 210 اضلاع میں کنٹرول کے لیے لڑائی جاری تھی اور 5 جولائی تک لڑائی صرف 129 اضلاع تک محدود ہوگئی۔

طالبان کی شمالی افغانستان میں پیش قدمی کابل حکومت میں بیٹھے جنگی سرداروں کے گھر میں گھسنے کے مترادف ہے اور وہ جنگ کو ان کے گھر تک لے گئے ہیں۔ شمالی افغانستان اگر مزاحمت میں ناکام رہا تو مشرق، مغرب اور جنوب میں لڑائی کی نوبت ہی نہیں آئے گی جبکہ وسطی افغانستان پر بھی طالبان کا قبضہ آسان ہوجائے گا اور طالبان کابل کے دروازے پر ہوں گے۔

شمالی افغانستان جو طالبان کے خلاف مزاحمت کا گڑھ تھا وہ ان کے کنٹرول میں آنے کا ثبوت یہ ہے کہ شمالی اتحاد کا ہیڈکوارٹرز رہنے والا بدخشاں صوبہ طالبان کے قبضے میں ہے۔ بدخشاں کے 28 اضلاع میں سے 26 پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے۔ بدخشاں میں طالبان کی پیش قدمی اس لیے بھی حیران کن ہے کہ کئی اضلاع بغیر لڑائی کے طالبان کے قبضے میں چلے گئے اور وہاں تعینات افغان فورسز نے تاجکستان کی طرف فرار اختیار کرکے طالبان کو راستہ دیا۔

صوبہ تخار میں بھی حالت اچھی نہیں اور 17 میں سے 14 اضلاع پر طالبان کا کنٹرول ہے۔ صوبائی دارالحکومت تالقان کے لیے لڑائی جاری ہے اور طالبان نے شہر کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ بدخشاں اور تخار کا مکمل کنٹرول طالبان کے پاس آنا شمالی اتحاد کی جنگی قوت کے خاتمے کے مترادف ہوگا۔ بدخشاں پر قبضے کے بعد شمالی اتحاد کے گھر پنج شیر پر طالبان کا حملہ بھی آسان ہوجائے گا۔

شمالی افغانستان پر جلد از جلد کنٹرول طالبان کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے لیکن وہ شمالی افغانستان تک محدود نہیں، جنوب میں طالبان نے کئی اہم اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے۔ ہلمند کے اہم اضلاع گرشک اور ناوہ بارکزائی طالبان کے قبضے میں ہیں۔ قندھار میں شاہ ولی کوٹ اور پنجوانی پر بھی طالبان کا کنٹرول ہے، گرشک پر قبضہ اس لیے اہم ہے کہ یہاں سے کابل کے وفادار ملیشیاز نے صوبائی دارالحکومت لشکر گاہ پر طالبان کا قبضہ روکنے میں مدد دی تھی۔

پنجوائی تحریکِ طالبان کی جائے پیدائش ہے اس لیے اس کی فتح طالبان کے لیے تزویراتی اور علامتی طور پر اہم ہے۔ پنجوائی اور شاہ ولی کوٹ پر قبضہ طالبان کو قندھار شہر پر گرفت مضبوط کرنے میں مدد دے گا۔ قندھار صوبے میں اسپین بولدک پر بھی طالبان نے چڑھائی کر رکھی ہے جو پاکستان کے بارڈر پر ہونے کی وجہ سے اہم ہے۔

اسپین بولدک طالبان مخالف کمانڈر تادین رزاق کا گڑھ ہے جن کے بھائی عبدالرزاق خان کو طالبان نے اکتوبر 2018ء کے ایک حملے میں ہلاک کیا تھا اور اس حملے کے وقت امریکی کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر بھی موجود تھے لیکن وہ بچ نکلے۔ تادین رزاق نے اب تک قندھار کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اسپین بولدک پر حملے کی صورت میں وہ کسی ایک شہر کے دفاع کے قابل ہوں گے۔

کابل حکومت نے طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے ملیشیاز کو بھی متحرک کیا ہے لیکن جب افغان فورسز ہی پسپائی اختیار کر رہی ہوں تو ملیشیاز کا حوصلہ کون بڑھائے گا۔ طالبان کے لیے بڑا مسئلہ افغان ایئرفورس ہے اور اس کے توڑ کے لیے انہوں نے پائلٹوں کی ٹارگٹ کلنگ شروع کردی ہے اور اب تک 7 پائلٹ قتل ہوچکے ہیں جس سے پائلٹوں اور ان کے خاندانوں کا حوصلہ بھی ٹوٹ جائے گا۔

ان حالات میں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکا افغانستان سے کیوں نکلا؟ اس کا جواب صدر بائیڈن نے خود دیا تھا جب انہوں نے افغانستان سے انخلا کے معاہدے پر عمل درآمد کا اعلان کیا تھا۔ صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ اس لاحاصل جنگ کو ختم کرکے اب امریکا کی نمبر ون خارجہ پالیسی ترجیح چین پر توجہ دینے کا وقت آگیا ہے۔

صدر بائیڈن کا خیال ہے کہ اس لاحاصل جنگ پر وسائل اور توانائیاں صرف کرنے کے بجائے امریکا کو درپیش سب سے بڑے چیلنج چین کے مقابلے کے لیے وسائل اور توانائیاں بچائی جائیں۔ امریکا چین کو ابھرتی ہوئی آمرانہ قوت سمجھتا ہے جو عالمی افق پر امریکا کے غروب کا سبب بن سکتی ہے۔ امریکا چین کو ٹیکنالوجی، فوجی اور معاشی میدانوں میں چیلنج کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

صدر بائیڈن یا ان سے پہلے صدر ٹرمپ کا گریٹر مشرق وسطیٰ سے نکل کر انڈوپیسفک پر توجہ دینے کا آئیڈیا نیا نہیں۔ سابق صدر اوباما نے بھی عراق جنگ سے نکلنے کا جواز یہی بتایا تھا اور کہا تھا کہ اب ان کی توجہ کا مرکز ایشیا ہے۔ صدر بائیڈن افغانستان سے فوجی انخلا کے بعد کیا حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں ابھی اس کا سامنے آنا باقی ہے، لیکن بظاہر امریکی وجوہات اور مقاصد بہت زبردست دکھائی دیتے ہیں جو واشنگٹن کے مفاد میں ہیں لیکن افغانستان سے نکلنے کے بعد کیا حقیقت میں امریکی وسائل اور توجہ صرف چین پر رہ سکتی ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔

امریکی فوجی انخلا کے جواز میں واشنگٹن کے پاس 4 دلائل ہیں:

ہر ایک دلیل بہت حقیقی نظر آتی ہے لیکن ان کے جائزے کی ضرورت ہے۔

جہاں تک امریکی فوجی وسائل افغانستان سے نکال کر انڈوپیسفک میں تعینات کرنے کی بات ہے تو صدر بائیڈن نے جب اقتدار سنبھالا تو افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بہت محدود تھی، چند ہزار فوجی افغانستان میں تعینات رکھ کر طالبان کی پیش قدمی کو روکا جاسکتا تھا اور افغان فورسز کا مورال بھی بلند رکھا جا سکتا تھا۔

افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد افغانستان کے اندر طاقت کا توازن بگڑ گیا ہے اور چند ہزار فوجی افغانستان سے نکال کر کہیں اور تعینات کرنے سے بھی عالمی سطح پر طاقت کے توازن میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انڈوپیسفک میں امریکی فوجی استعداد بڑھانا پینٹاگون کی ترجیح ہے لیکن افغانستان سے واپس لائے گئے وسائل انڈوپیسفک میں فوجی استعداد بڑھانے کے منصوبے میں سمندر کے اندر قطرے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔

اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ امریکا افغانستان میں آپریشنز بند کرکے انڈوپیسفک پر توجہ کا اشارہ دے رہا ہے اور یہ اشارہ اہم ہے، تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکا افغانستان میں آپریشنز بند نہیں کر رہا بلکہ افغانستان کے باہر سے آپریشنز کا ارادہ رکھتا ہے۔ طالبان کی پیش قدمی کے بعد بائیڈن انتظامیہ امریکی عوام کو یقین نہیں دلاسکتی کہ افغانستان میں دہشتگردی کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اسے دہشتگردی کے خلاف آپریشنز جاری رکھنا پڑیں گے۔

اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا نے ’دُور افق سے‘ آپریشنز کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس مقصد کے لیے فوری طور پر مشرقِ وسطیٰ میں موجود فوجی اڈے اور خلیج فارس میں تعینات بحری بیڑے استعمال کیے جائیں گے۔ قطر اور عرب امارات سے کئی گھنٹوں کی پرواز کے بعد آنے والے جنگی طیاروں کے فیول کے اخراجات کا اندازہ لگائیں تو افغانستان کے اندر رہ کر اخراجات سے کہیں زیادہ رقم خرچ ہوگی۔

افغانستان کے اندر تعینات فوجیوں کی تنخواہیں اور راشن کے اخراجات تو بچائے نہیں جاسکتے کیونکہ وہ جہاں بھی تعینات کیے جائیں گے یہ اخراجات تو وہاں بھی ہوں گے، امریکا الٹا فیول کا خرچ بڑھا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اتنی دُور سے پرواز کرکے آنے والے طیاروں کے پاس کارروائی کا وقت بھی محدود ہوگا اور زمین پر انہیں انٹیلی جنس مدد بھی حاصل نہیں ہوگی۔ ان آپریشنز کے لیے پینٹاگون کو جنگی طیارے بھی بڑھانا پڑیں گے۔ اضافی فائر پاور کے لیے امریکا کو پاکستان کے ساحلوں سے باہر جنگی بیڑہ بھی کھڑا کرنا پڑسکتا ہے اور اس مقصد کے لیے ان دنوں بھی جنوبی بحیرہ چین سے یو ایس ایس رونالڈ ریگن کو پاکستان کے قریب سمندر میں تعینات رکھا گیا ہے۔

امریکا کے ’دُور افق سے‘ آپریشنز میں اتحادی بھی زیادہ حصہ ڈالنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد اتحادی فوجیوں کی مجموعی تعداد سے کم تھی۔ اب فضائی آپریشنز اور نگرانی کی ضرورت ہوگی اور اتحادی امریکا کے برابر وسائل اور استعداد نہیں رکھتے۔

جہاں تک سفارتی اور بیوروکریسی سطح پر امریکا کو چین پر توجہ مرکوز کرنے کا معاملہ ہے تو ویسا بھی بالکل دکھائی نہیں دیتا۔ فوجی انخلا کے فیصلے کے بعد سے ہی امریکا کو سفارتی اور محکمانہ سرگرمیاں بڑھانی پڑی ہیں اور اعلیٰ امریکی عہدیدار انخلا کے بعد کی حکمتِ عملی کے لیے سر کھپا رہے ہیں۔ امریکا کے مددگار افغانوں کو بسانے کا مسئلہ امریکی عہدیداروں کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ امریکا کو خطے میں نئے اڈے درکار ہیں جہاں سے افغانستان میں فضائی آپریشنز کیے جاسکیں اس کے لیے امریکی دفاعی و سفارتی حکام دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔

وسطی ایشیا کے ملکوں کے ساتھ ناختم ہونے والے مذاکرات جاری ہیں اور روس وسطی ایشیا میں امریکی اڈوں میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی مستقل دردِ سر ہے اگرچہ ترکی اس کے لیے تیار ہے لیکن طالبان اسے بھی دھمکیاں دے رہے ہیں اور ترکی ابھی تک ان دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لا رہا کیونکہ ترکی روس سے دفاعی میزائل نظام خریدنے کے بعد سے واشنگٹن میں اثر کھو چکا ہے اور کابل ایئرپورٹ کی سیکیورٹی کے لیے رضامندی ظاہر کرکے بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ یورپی یونین میں پوزیشن بہتر بنانے کا خواہاں ہے۔

افغان فورسز کی تربیت اور ان کو دیے گئے اسلحے کی مرمت پینٹاگون کے لیے ایک اور پریشانی والا معاملہ ہے۔ افغان فورسز کی تربیت کے لیے قطر سے مذاکرات ہو رہے ہیں کہ وہ انہیں سہولیات دے جہاں امریکی فوجی افغان فورسز کو تربیت دے سکیں۔ قطر افغان طالبان کے سیاسی دفتر کا بھی میزبان ہے۔ کابل میں سفارتخانوں کی سکیورٹی ایک اور بڑا مسئلہ ہے اور موجودہ حالات میں کئی سفارتی مشنز بند ہیں جبکہ امریکا بھی اپنے سفارتی مشن کی تعداد طے نہیں کرپا رہا۔

ان حالات میں امریکا کے وسائل کی بچت کسی طرح بھی نظر نہیں آ رہی اور چین پر توجہ کے لیے وقت، وسائل اور توانائی بچانے کی دلیلیں پُرکشش تو ہیں لیکن عملی طور پر کارگر نہیں۔ وسائل بچانے کی بات اس لیے بھی درست نہیں کہ امریکا کے بجٹ میں افغان فورسز اور حکومت کے لیے رقم بڑھا دی گئی ہے۔ طویل فاصلے سے فضائی آپریشنز کے لیے آنے والے جنگی طیاروں کے آپریشن اور مرمت کے اخراجات الگ ہیں۔ اگر خطے میں اڈے مل گئے تو ان کے اخراجات الگ سے ہوں گے اور میزبان ملکوں کی فرمائشیں اپنی جگہ۔

چین کا معاشی، ٹیکنالوجی اور فوجی مقابلہ واشنگٹن کی ترجیح ضرور ہے لیکن مقابلے کا جو پلان اب تک نظر آ رہا ہے وہ قابلِ عمل نہیں۔ واشنگٹن کابل سے نکل رہا ہے تاکہ بیجنگ کا مقابلہ کرسکے اور بیجنگ امریکی انخلا سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی تیاری میں ہے۔ بیجنگ اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے افغانستان کی کڑی جوڑنا چاہتا ہے اور پاکستان میں بنائے گئے سی پیک منصوبوں کو وسطی ایشیا سے جوڑنے کے لیے افغانستان کی راہداری اس کی ضرورت ہے۔

بیجنگ نے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے اشرف غنی انتظامیہ سے مذاکرات شروع کر رکھے ہیں اور افغان طالبان بھی بیجنگ کے رابطے میں ہیں۔ یوں کوئی بھی فریق جو افغانستان پر عملداری قائم کرے گا چین ان سب سے رابطے میں ہے۔ کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات میں بیجنگ کا سب سے بڑا منصوبہ پشاور، کابل موٹروے ہے، اور اس پر بات جاری ہے۔

پشاور کابل موٹر وے کا بننا عملی طور پر افغانستان کو سی پیک سے جوڑنے کے مترادف ہوگا۔ امریکا کے جانے کے بعد کابل انتظامیہ چین کے خیر مقدم کو تیار ہے۔ چین کابل انتظامیہ اور طالبان کے علاوہ ہر بااثر افغان سیاستدان کو اعتماد میں لے رہا ہے۔ چین کی سرمایہ کاری کو ہر افغان فریق ایک زبردست موقع کے طور پر دیکھ رہا ہے جس سے افغانستان میں معاشی سرگرمی بڑھے گی اور نوجوانوں کو روزگار میسر آئے گا۔

چین افغانستان میں پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرکے معاشی فوائد سمیٹنا چاہتا ہے لیکن اس کی کامیابی کی کوئی گارنٹی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ چین کو امریکا کی نسبت بہتر مواقع میسر آسکتے ہیں۔ چین کو مشکل خطوں اور ملکوں میں کام کرنے کا تجربہ ہے اور ان کی پالیسی اور کام کرنے کا طریقہ امریکیوں سے مختلف ہے، لہٰذا ان کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوسکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چین کو ناکام ہونے میں امریکا سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ چین نے اس سے پہلے جہاں مشکل علاقوں میں کامیابیاں سمیٹی ہیں وہ اس سے بہت دُور تھے اور ناکامی کی صورت میں چین کا نکلنا آسان تھا۔

افغانستان چین کے بارڈر پر ہے اور ایک بار چین وہاں داخل ہوا تو نکلنا آسان نہیں ہوگا۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ دراصل وسائل تک رسائی کا پلان ہے اور افغانستان قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ افغانستان میں قدرتی وسائل کا تخمینہ ایک ٹریلین ڈالر سے زائد لگایا گیا ہے۔ ان میں تانبا، لوہا، سونا، یورینیم اور لیتھیم شامل ہیں۔ ان میں سب سے اہم لیتھیم ہے جو توانائی کا متبادل ذریعہ ہے اور جدید ٹیکنالوجی میں بیٹریز کے لیے ضروری تصور کیا جاتا ہے۔

افغان فریق اب تک چین کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور ہر دھڑا اسے خوش آمدید کہہ رہا ہے کیونکہ ان کے خیال میں چین کی سرمایہ کاری ان کے لیے فائدہ مند ہے اور اس سرمایہ کاری سے چین بالادست نہیں ہوگا بلکہ وہ چین کو بہتر طور پر استعمال کر پائیں گے، کیونکہ چین نے اگر بڑے منصوبے لگائے تو ان کی سیکیورٹی کی بھی ضرورت ہوگی اور یہی وہ پہلو ہے جہاں افغان یہ سمجھتے ہیں کہ چین ان کا دست نگر ہوگا۔ جہاں تک بات ہے افغانستان کے معدنی وسائل کو لوٹ کر لے جانے کی تو یہ آسان نہیں ہوگا اور شاید چین کو یہ کام مہنگا پڑے گا، کم از کم اس سے مہنگا جو تخمینہ چین لگا رہا ہے، اس کی مثال افغانستان میں تانبے کی کان کا چین کا ٹھیکہ ہے، جس سے چین اب تک اس کا فائدہ نہیں اٹھا پایا۔

افغانستان میں قدم جما کر چین صرف معاشی فوائد نہیں چاہتا بلکہ اس کی سیکیورٹی کے لیے بھی افغانستان اہم ہے۔ چین سنکیانگ میں علیحدگی پسندی کو روکنا چاہتا ہے اور طالبان کے اقتدار کی صورت میں وہ انہیں سنکیانگ سے دُور رکھنا چاہتا ہے۔ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان اکیلی طاقت نہیں اور افغانستان میں کئی جنگجو دھڑے ہیں جو چین کے لیے پریشانی کا سبب سکتے ہیں۔ ان دھڑوں کو بھارت چین کے خلاف استعمال کرسکتا ہے۔ چین جس قدر پاؤں پھیلائے ہوئے ہے اس پر اس کی استعداد سے زیادہ وزن ہے اور افغانستان میں پاؤں پھیلا کر چین یہ وزن بڑھا لے گا۔ اگر چین افغانستان کے اندرونی مسائل میں دھنس گیا تو ایک اور بڑی طاقت افغانستان کے قبرستان میں دفن ہوسکتی ہے اور شاید امریکا بھی یہی چاہتا ہے۔

افغانستان سے امریکی انخلا سے متاثر ہونے والوں میں پاکستان اور چین کے علاوہ تیسرا بڑا فریق روس ہے۔ وسطی ایشیا کو کوئی بھی سیکیورٹی خطرہ روس کے لیے براہِ راست خطرہ ہے اور ماسکو کو اس کا ادراک ہے۔ افغانستان کی لڑائی اگر خانہ جنگی میں بدلی تو مہاجرین کا سیلاب وسطی ایشیا کا رخ کرے گا اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کے لیے افغان بارڈر سے سیکیورٹی مسائل بھی جنم لیں گے۔

روس نے تاجکستان بارڈر پر حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی فوج بھی وہاں تعینات کردی ہے۔ ازبکستان بھی اس خطرے سے دوچار ہے، وسطی ایشا کی ریاستیں روس کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے میں شامل ہیں اور روس ان ریاستوں کا دفاع اپنے ملکی دفاع کے لیے لازمی تصور کرتا ہے۔ تاجکستان اور قازقستان میں روس کے فوجی اڈے موجود ہیں۔ تاجکستان نے 20 ہزار اضافی فوجی سرحدوں پر تعینات کردیے ہیں۔ سب سے بڑا خطرہ ترکمانستان کے لیے ہے جو افغانستان کے ساتھ بارڈر کو محفوظ نہیں بنا سکا۔

روس افغانستان میں براہِ راست فوجی مداخلت کے بجائے سرحدی ریاستوں کے دفاع کو مضبوط بنانے کی کوشش میں ہے۔ طالبان کو دہشتگرد گروپ تصور کرنے کے باوجود ماسکو کئی بار طالبان کی میزبانی کرچکا ہے اور حالیہ دورے میں طالبان نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ روس کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے اور افغان زمین کو روس کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں گے۔

روس کے لیے ایک اور بڑا خطرہ وسطی ایشیا میں امریکی یا نیٹو فورسز کی تعیناتی ہے۔ روس کے وزیرِ خارجہ بار بار کہہ رہے ہیں امریکا افغانستان کے گرد فوجی موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے اور وسطی ایشیا کی ریاستیں روس کے ساتھ معاہدے کے تحت امریکا کو اڈے نہیں دے سکتیں۔ روس امریکا کو افغانستان میں کئی مواقع پر زک پہنچا چکا ہے اور روس کی طرف سے امریکیوں کے قتل پر انعام کی رپورٹس بھی سامنے آئیں۔ روس کے کچھ حلقے امریکا کو افغانستان سے نکلتا دیکھنا چاہتے تھے لیکن اب ان کی خواہش اور کوشش بیک فائر کرچکی ہے اور روس کے لیے نئے خطرات سر اٹھا رہے ہیں۔

امریکا کو افغانستان سے نکالنے کی خواہش اور کوشش صرف روس کو بھاری نہیں پڑی بلکہ خطے کے تمام ملکوں کے لیے بیک فائر ہے۔ یہی حال ایران کا ہے جو امریکا کو افغانستان میں ناکام دیکھنا چاہتا تھا اور طالبان کو خفیہ مدد بھی دیتا رہا۔ طالبان کے سابق امیر ملا اختر منصور ایران کے دورے سے واپسی پر امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ لیکن ایران اب طالبان کے اقتدار میں آنے سے ڈر رہا ہے، اور طالبان کے ساتھ مذاکرات اور سفارتی رابطے ایران کے اس ڈر کا مظہر ہیں۔

اس بار طالبان اقتدار میں آئے تو ان کے کئی ملکوں کے ساتھ سفارتی روابط ہوں گے۔ ایران، چین اور روس اپنے سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے طالبان کو تسلیم کرنے کے اشارے بھی دے چکے ہیں۔ وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ بھی طالبان کے سفارتی روابط موجود ہیں اور حال ہی میں طالبان نے ان ملکوں کے دورے بھی کیے ہیں۔

طالبان کا اقتدار میں آنا یا خانہ جنگی پاکستان کے مفاد میں بھی نہیں۔ پاکستان کی اعلیٰ قیادت کھل کر کہہ رہی ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان بھی افغان طالبان کا حصہ بن چکی ہے اور پاکستان کو سیکیورٹی خطرات درپیش ہیں کیونکہ تحریک طالبان پاکستان کی جڑیں پاکستان کے اندر ہیں۔ مہاجرین کا نیا سیلاب پہلے سے رجسٹرڈ 14 لاکھ افغان مہاجرین کی تعداد کو کئی گنا بڑھا سکتا ہے جو پاکستان کی معیشت کے لیے ناقابلِ برداشت ہوگا۔

طالبان کا اقتدار میں آنا پاکستان کے اندر موجود انتہا پسند گروہوں کے حوصلے بھی بڑھائے گا۔ پاکستان کی قیادت نے کئی برسوں سے یہ مؤقف اپنا رکھا تھا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ امریکا کی واپسی سے بظاہر یہ مؤقف درست نظر آیا۔ لیکن اگر یہ پوچھا جائے کہ کیا پاکستان اس صورتحال کے لیے تیار تھا تو مایوس کن جواب ملتا ہے۔ اب پاکستان کو شکایت ہے کہ امریکا سیاسی تصفیے سے پہلے ہی بھاگ نکلا ہے۔ حالات اس تیزی سے کروٹ لے رہے ہیں کہ اب پاکستان کے پاس تیاری کا وقت ہی نہیں بچا۔

افغان طالبان کے ترجمان نے رائٹرز سے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ان کے پاس سیاسی تصفیے کا کوئی پلان ہے اور ایک ماہ میں تحریری طور پر وہ یہ پلان کابل انتظامیہ کو پیش کردیں گے۔ اگر یہ درست ہے اور پلان تمام فریقوں کے لیے قابلِ قبول ہوا تو پاکستان کچھ بہتری کی توقع کرسکتا ہے۔ افغان طالبان کے امن منصوبے پر اشرف غنی انتظامیہ کا راضی ہونا محال نظر آتا ہے اور اشرف غنی انتظامیہ میدانِ جنگ میں ناکامیوں کے باوجود امن منصوبے کی مزاحمت کرسکتی ہے۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ جلد بامعنی امن مذاکرات شروع ہونے کی توقع ہے۔ اشرف غنی انتظامیہ اس موقع کو ضائع نہ ہونے دیں۔ افغان میڈیا کے مطابق اس ہفتے کے اختتام پر 11 سینئر سیاستدانوں کا وفد مذاکرات کے لیے دوحہ روانہ ہو رہا ہے۔ اس وفد میں عبداللہ عبداللہ، حامد کرزئی، یونس قانونی، کریم خلیلی، محمد محقق، سلام رحیمی، عبدالرشید دوستم، گلبدین حکمت یار، سید سادات منصور نادری، عنایت اللہ بلیغ کے علاوہ فاطمہ گیلانی بھی شامل ہوں گی۔ اگر حامد کرزئی کا اندازہ درست ہے اور انہیں کسی طرف سے سنجیدہ مذاکرات کی یقین دہانی ملی ہے تو یہ اچھی خبر ہے لیکن کرزئی کا انتباہ بھی ذہن نشیں رہنا چاہیے کہ فریقین اس موقع کو ضائع نہ ہونے دیں۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔