ایک اندازے کے مطابق ہر 10 میں سے ایک یا 3 میں سے ایک مریض کو کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد لانگ کووڈ کا سامنا ہوتا ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ لانگ کووڈ کی علامات براہ راست وائرس کا نتیجہ ہوتی ہیں یا بیماری کے نتیجے میں جسم میں تناؤ اور صدمے کی کیفیت اس کا باعث ہے۔
برطانیہ کے امپرئیل کالج لندن نے لانگ کووڈ کے مریضوں میں اینٹی باڈیز کے ایسے مخصوص پیٹرن کو دریافت کیا ہے جو دیگر مریضوں یا صحت مند افراد میں نظر نہیں آتا۔
محققین نے اسے آٹو اینٹی باڈیز کا نام دیا گیا ہے جو امراض سے لڑنے کی بجائے جسم کے صحت مند ٹشوز پر حملہ آور ہوتی ہیں اور بیماری کا سلسلہ برقرار رہتا ہے۔
لانگ کووڈ کے مریضوں کو شدید تھکاوٹ، سانس لینے میں مشکلات، مسلز میں تکلیف اور سردرد سمیت متعدد علامات کا سامنا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔
محققین نے کہا کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل قریب میں لانگ کووڈ کے روزانہ کیسز کی تعداد کتنی ہوسکتی ہے مگر یہ جوان افارد کے یے تباہ کن ہے، جن کی زندگیوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس آٹو اینٹی باڈیز پیٹرن کی دریافت کے بعد محققین کی جانب سے ایسے بلڈ ٹیسٹ کی تیاری پر کام کیا جائے گا جس سے لانگ کووڈ کی تشخیص ہوسکے۔
پروفیسر آلٹمان کی جانب سے اس بلڈ ٹیسٹ کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ 6 ماہ کے دوران ہمارے پاس ایسا بلڈ ٹیسٹ ہوگا جس سے عام ڈاکٹر بھی لانگ کووڈ کی تشخیص کرسکیں گے۔
اس مقصد کے لیے متعدد کووڈ کے مریضوں اور اس بیماری سے محفوظ رہنے والے درجنوں افراد کے خون کے نمونوں کو اکٹھا کیا گیا۔