ڈیلٹا کی اس نئی قسم میں ایک میوٹیشن موجود ہے جو جنوبی افریقہ میں دریافت قسم بیٹا میں دیکھنے میں آئی تھی۔
یہ میوٹیشن کے 417 این ویکسینز کے اثر کو کسی حد تک متاثر کرسکتی ہے تاہم حتمی تصدیق تحقیق سے ہی ممکن ہوسکے گی۔
بھارت کے ریاستی جینوم سیکونسنگ کرنے والے ادارے INSACOG نے اسے باعث تشویش قسم قرار دیا ہے، تاہم سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ اقدام احتیاطی طور پر کیا گیا۔
بھارت کے انسٹیٹوٹ آف جینومکس اینڈ انٹیگریٹیو بائیولوجی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر انوراگ اگروال نے کہا 'اس وقت ہم نے اس نئی قسم اور ڈیلٹا کے پھیلاؤ میں کسی قسم کے فرق کو نہیں دیکھا، چونکہ ڈیلٹا کو باعث تشویش سمجھے جانے والی قسم قرار دیا ہے تو ہم نے ڈیلٹا پلس کو بھی یہی قرار دیا'۔
ڈیلٹا پلس نامی یہ قسم بھارت کے ساتھ 9 دیگر ممالک بشمول برطانیہ میں بھی دریافت ہوئی جہاں اس کا پہلا کیس اپریل میں سامنے آیا تھا۔
پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق 16 جون تک اس نئی قسم کے 38 کیسز کی شناخت ہوئی ہے۔
لندن کالج یونیورسٹی کے جینیٹکس انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر فرانسوئس بیلکوس کے مطابق اتنی کم تعداد میں کیسز سے یہ کہنا ممکن نہیں کہ یہ نئی قسم زیادہ متعدی، زیادہ جان لیوا یا ویکسینز کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا 'تاہم ہر ملک میں کیسز کی کم تعداد سے یہ ٹھوس عندیہ ملتا ہے کہ یہ ڈیلٹا جیسی متعدی نہیں'۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی نئی لہر سامنے نہیں آئی جس سے عندیہ ملتا ہو کہ نئی اور زیادہ متعدی قسم پھیل رہی ہے'۔
بھارت کے میکس ہیلتھ کیئر کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر رومیل ٹیکو نے کہا 'کیسز کی تعداد میں کمی آرہی ہے اور کئی نئی لہر نہیں دیکھی، مگر ہمیں محتاط رہنا ہوگا، کیونکہ ابھی ہم نئی قسم کے بارے میں کافی کچھ نہیں جانتے'۔
ڈیلٹا پلس کے کیسز کا سامنا کرنے والی 3 3ریاستوں میں مقامی طور پر احتیاطی اقدامات کیے گئے ہیں جن میں مہاراشٹرا بھی شامل ہے۔
ڈاکٹر رومیل نے بتایا کہ ہمیں ان اضلاع پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جہاں اس نئی قسم کے کیسز سامنے آئے ہیں اور مزید اقدامات کا اطلاق فوری طور پر کرنا چاہیے'۔