ہینری پوٹنجر، 19ویں صدی اور سندھ
گزرا ہوا وقت کبھی نہیں لوٹتا، شاید اسی لیے تاریخ اپنے آپ کو کبھی نہیں دہراتی۔ مگر چونکہ وقت اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے اس لیے ہم صدیوں سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہم آج جو کچھ ہیں وہ گزرے دنوں کی کوکھ کی عنایتیں ہیں۔
وقت کی اس کوکھ کے تپتے دنوں میں زمانوں کی پگڈنڈیوں پر ہمارے آباؤاجداد کے ننگے پاؤں سفر کے نشان ملتے ہیں۔ وہ اگر وقت کے تپتے ریگستانوں میں حالات کا سفر نہ کرتے تو ہم آج ان ٹھنڈی چھاؤں میں کبھی سکون سے نہ رہتے۔ اس لیے ہمارا گزرے وقتوں سے ایسا رشتہ ہے جس سے ہم ایک پل بھی الگ نہیں ہوسکتے۔ اگر ہم چاہیں تب بھی نہیں کیونکہ گزرے کل کے سوا آنے والا کل ممکن ہی نہیں ہے۔
10 مئی 1809ء بروز بدھ۔ ہر برس کی طرح اس برس بھی جنوب مغرب کی تیز ہوائیں چلنا شروع ہوگئی تھیں۔ کراچی قلات کے خانوں کے ہاتھوں سے کسی پکے آم کی طرح میروں کے آنگن میں آکر گرا تھا۔ اب میروں کی حکومت کا جھنڈا جھولتا تھا اور بدھ کے اس روز شہر کی بندرگاہ سے کچھ توپوں کے چلنے کی آوازیں شہر کی کچی گلیوں میں سے بہتی ہوئی لوگوں کے کانوں تک پہنچیں۔ بارود کے وجود میں کبھی ہنسی کے ڈھول نہیں بجتے چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہو۔ اس لیے توپوں کے ان دھماکوں کے ساتھ ڈر کا ایک سنپولا کراچی والوں کے شعور میں کنڈلی مار کر بیٹھ گیا کہ وقت ہی خوف کی پرورش کرتا ہے۔
توپوں کی یہ آوازیں کمپنی سرکار کے جہازوں ’ماریہ‘ اور ’پرنس آف ویلز‘ کی تھیں جو ایک دوسرے کو سلامی دے رہے تھے کہ خوف کی بنیاد پر ہی ملکوں پر قبضہ کیا جاتا ہے۔ سندھ پر قبضہ کرنے کی گوری سرکار نے شروعات کردی تھی، جس کے لیے یہ ٹیم 27 اپریل کو بمبئی سے نکلی تھی۔ اس ٹیم کا بظاہر مقصد سندھ کے امیروں سے ملاقات اور پرانے عہدناموں پر بات چیت تھا۔ اگر بات ہی کرنی تھی تو ’پرنس آف ویلس‘ کو کراچی کے ساحل تک لانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ کراچی کے ساحل پر کوئی جنگ نہیں چل رہی تھی۔ پرنس آف ویلز ایسٹ انڈیا کمپنی کا ایک بہت بڑا جنگی بحری جہاز تھا۔ دراصل یہ خوف پھیلانے کا ایک نفسیاتی حربہ تھا جو گوری سرکار ہر جگہ کھیلتی تھی۔
کمپنی بہادر نے سندھ بھیجنے کے لیے بمبئی سول سروس کے ’نکولس ہینکی اسمتھ (Nicholas Hankey Smith) کو ’سفیر‘ مقرر کیا۔ بنگال سول سروس کے ’ہینری ایلس ایسکوائر‘ (Henry Ellis Esquire) کو اس کا فرسٹ اسسٹنٹ نامزد کیا۔ بمبئی کے مقامی پیدل فوج کے ’لیفٹیننٹ رابرٹ ٹیلر‘ (Lieutenant Robert Taylor) اور ’ہینری پوٹنجر‘ (Henry Pottinger) کو سیکنڈ اور تھرڈ اسسٹنٹ مقرر کیا۔ کیپٹن چارلس کرسٹی (Charles Christie) کو استقبالیہ دستے کی کمان سونپی۔ ’ولیم ہال اسکوائر‘ (William Hall Esquire) کو سرجن کے طور پر اور بمبئی میرین کے ’کیپٹن ولیم مئکسفیلڈ‘ (Captain William Maxfield) کو میرین سرویئر کے طور پر شامل کیا۔ ان کو سندھ بھیجنے کے لیے خطیر بجٹ رکھا گیا اور بڑے طمطراق سے یہ اپنا کام کرتے ہوئے 10 تاریخ کو کراچی پہنچے تھے۔
10 مئی کو کراچی کے گورنر (نواب) نے ان سے ملاقات کی مگر یہ ملاقات کوئی خوشگوار ثابت نہیں ہوئی۔ 2، 3 ملاقاتوں کے بعد 14 مئی کو کراچی کے گورنر نے ان کو ٹینٹ لگانے کے لیے جگہ دی جہاں پر انہوں نے چھاؤنی قائم کی مگر ان کو یہ سختی سے تاکید کی گئی کہ ان کا کوئی آدمی کراچی کے قلعے کی طرف نہیں آئے گا اور چھاؤنی پر نظر رکھنے کے لیے اطراف میں چوکیاں قائم کردی گئیں۔ یہ رویہ امیرانِ سندھ کے احکامات کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے، جس میں سختی کا عنصر نمایاں ہے کیونکہ کراچی کے گورنر کو ساری ہدایات حیدرآباد سے ملتی تھیں جس پر وہ عمل کرتا۔
کمپنی بہادر کے سفیر نے سندھ کے امیروں کو اس سختی سے متعلق ایک شکایتی خط تحریر کیا اور ان سے حیدرآباد آکر ملنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ اس خط کے بعد امیروں نے ’آخوند محمد بقا‘ کو اپنی طرف سے بات چیت کرنے کے لیے چھاؤنی بھیجا۔ ان کی مقررہ سفیر نکولس اسمتھ سے ایک طویل ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں آخوند محمد بقا نے سفیر کو اپنے اعتراضات سے آگاہ کیا۔ سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ کراچی کے ساحل پر کمپنی کے جنگی جہاز کیوں موجود ہیں؟ ان کو یا تو واپس بھیجا جائے یا کم سے کم سندھ کی سمندری حدود سے باہر کھڑا کیا جائے۔ اس کے بعد ہی امیروں سے ملاقات کی کوئی صورت نکل سکتی ہے۔
جب تک بات ایک طرف ہوتی تب تک چھاؤنی پر سختی کو اور بڑھادیا گیا۔ پوٹنجر لکھتے ہیں، ’ہمارے یہاں آنے کے بعد سخت چوکسی برتی جا رہی ہے اور اتنی سخت قسم کی نگرانی کہ ہم اگر چھاؤنی سے باہر نکلنے کی ہمت کریں تو یہ ایک بدمزہ بات ہوجائے گی۔ گورنر اور آخوند کے رویوں کی وجہ سے دشمنی کا ماحول بن گیا ہے، اب مناسب یہی لگ رہا ہے کہ سرکاری چیزوں اور قیمتی سامان کو فوری طور پر بذریعہ جہاز بھیجنے کا فیصلہ کیا جائے۔ اس کے لیے ہم نے گورنر کو کچھ کشتیاں دینے کے لیے گزارش کی کہ ہم کو سامان جہاز تک منتقل کرنا ہے۔
'مگر اس نے سختی سے منع کردیا اور ساتھ میں ملاحوں کو بھی سختی سے تاکید کی گئی کہ ہمیں کوئی کشتی نہ دی جائے۔ اگر کسی ملاح نے ہمیں کشتی دی تو وہ ضبط کرلی جائے گی۔ حقیقت میں ہم آزاد گھومنے والے قیدیوں کے سوا کچھ نہیں تھے۔ ہمارے خیموں کے گرد چوبداروں (وہ چوکیدار جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہوتا ہے) کو مقرر کیا گیا تاکہ ہم کو وہ یہ محسوس کروا سکیں کہ ہم ان کی قید میں ہیں، اور وہ یہ محسوس کروانے میں کامیاب بھی ہوئے۔
’ایک ہفتے تک اسی قید کی کیفیت میں گزارنے کے بعد سندھ کے امیروں کا خط پہنچا جس میں تحریر کا لہجا کچھ نرم تھا اور ساتھ میں جہازوں کے کھڑے ہونے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ گھٹتی سانس اور سکڑتے ہوئے راستوں میں ملنے والی یہ ایک بڑی آزادی تھی۔ کمپنی بہادر کا وفد مایوسی کی کیفیت سے نکل آیا اور خود کو دم دلاسہ دیا کہ ’تالپور جھک گئے‘۔ اور ہم نے حیدرآباد جانے کا پکا ارادہ کرلیا۔ ہم نے جب حیدرآباد کے سفر کے لیے گھوڑے خریدنے شروع کیے اور یہ خبر بازار میں پھیلی تو گھوڑوں کی قیمتیں فوری طور پر بڑھا دی گئیں۔ پہلے جو گھوڑا 100 روپے کا ملتا تھا وہ اچانک 200 سے 250 بلکہ 300 تک پہنچ گیا۔ اب چونکہ اس مہم میں بجٹ کا مسئلہ نہیں تھا سو بڑی فراخدلی سے گھوڑوں کی خریداری شروع ہوئی۔‘
اب چونکہ یہ وفد جب حیدرآباد جائے گا تو اس کی واپسی کراچی سے نہیں ہوگی، اس لیے اس وقت کے کراچی کے بیوپار سے متعلق پوٹنجر جو کہتے ہیں وہ سن لیتے ہیں، ’سندھ کا دوسرے ملکوں سے بیوپار اکثر کراچی کے راستے ہوتا ہے اس لیے وہ چیزیں جو یہاں سے جاتی ہیں یا باہر سے یہاں آتی ہیں ان کی جانچ پڑتال کا یہ اچھا موقع ہے۔ یہاں جن چیزوں کی پیداوار ہوتی ہے ان میں قلمی شورہ، نمک، چاول، کپاس، گھی، خوردنی تیل، روغنی بیج، شارک مچھلی کا تیل، چمڑے کو رنگنے کی چھال، کاسٹک سوڈا، کپڑا، کھالیں، خشک مچھلی اور دیگر چیزیں شامل ہیں اور یہاں کی مارکیٹوں کے لیے باہر سے جو چیزیں درآمد کی جاتی ہیں ان میں گھوڑے، زعفران، صاف کیا ہوا چمڑا، مُشک، پھٹکری، نشہ آور دوائیں، کشمیری شالیں، خشک میوہ، ہیرے، لعلیں، فیروزے اور دوسرے قیمتی پتھر، گوند، لوہا، قلعی، تانبہ، عاج، چائے کی پتی، چینی، مصالحے اور دوسرا سامان باہر سے آتا ہے‘۔
پوٹنجر کے اس احوال کو اگر آپ گہری اور مشاہداتی نگاہ سے دیکھیں تو اس میں کراچی کے آنے والے خوبصورت دنوں کا عکس موجود ہے۔
10 جون کو یہ وفد کراچی سے نکلا، ملیر، لانڈھی، بھنبھور، گھارو سے ہوتا ہوا 16 جون کو صبح سویرے مکلی پہنچا۔
پوٹنجر ٹھٹہ سے متعلق تحریر کرتا ہے کہ ’مکلی پہاڑی کی اونچائی سے اگر آپ ٹھٹہ کے شہر کو دیکھیں تو ٹھٹہ ایک بڑے اور گنجان آباد شہر کی تصویر پیش کرتا ہے۔ مگر آپ جیسے جیسے اس منظرنامے کے قریب ہوتے جائیں گے آپ کے سامنے حقیقت عیاں ہوجائے گی۔ شہر کسی زمانے میں یقیناً بڑا رہا ہوگا، مگر اب لمبی اداس گلیوں کے دونوں اطراف ٹوٹے پھوٹے اور ویران گھر نظر آتے ہیں۔ راستے کے آخری 2 میلوں پر 7 سے 8 فٹ اونچا ایک پُل بنا ہوا ہے۔ بارش کے دنوں میں جب دریا کے بہاؤ میں زیادہ پانی آتا اور شہر کو پانی سے گھیر لیتا ہے تو یہ پل ٹھٹہ شہر اور مکلی کے بیچ میں رابطہ برقرار رکھتا ہے۔ مگر کچھ برسوں سے اتنی شدید بارشیں نہیں پڑی ہیں، جس کی وجہ سے پُل والا یہ شاندار راستہ بھی برباد ہوکر رہ گیا ہے‘۔
شہر کی گلیوں سے سفر کرکے وہ شہر میں بنے ہوئے ایسٹ انڈیا کے شاندار دفتر پہنچے اور وہاں پر ہی رہائش اختیار کی۔ میری نظر سے ٹھٹہ میں واقع کمپنی کے اس دفتر کے اسکیچ گزرے ہیں، انتہائی شاندار اور خوبصورت دفتر ننگر ٹھٹہ شہر کے بیچوں بیچ موجود تھا۔ البتہ 1845ء میں جب رچرڈ برٹن اس دفتر میں آیا تھا تب اس کی حالت اچھی نہیں تھی۔
بہرحال پوٹنجر اور ان کا وفد یہاں کم سے کم 15 سے 20 دن ضرور مقیم رہا ہوگا کیونکہ حالات کے مطالعے سے لگتا ہے کہ سندھ کے امیر اس وفد سے دلی طور پر ملنے کو تیار نہیں تھے۔ مگر سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے وہ ملنے پر مجبور تھے۔ اس وفد کا تالپور حاکموں سے مسلسل رابطہ رہا۔ پہلے حاکموں نے کہا کہ وہ اس وفد کے لیے کشتیاں بھیجتے ہیں۔ مگر پھر فقط ایک جھمپٹی بھیجی جس میں وفد کا اکٹھے جانا ممکن نہیں تھا۔ جون جولائی کی سخت تیز دھوپ اور مٹی کے طوفانوں کے دن تھے، ان حالات میں خشکی کے راستے سفر کرنا انتہائی مشکل اور کٹھن ہوتا ہے۔ مگر گورے کرتے بھی تو کیا؟ مجبوراً وفد کو 2 حصوں میں تقسیم کرنا پڑا۔ ایک حصہ کشتی پر حیدرآباد کی طرف روانہ ہوا اور دوسرا خشکی کے راستے نکل پڑا۔
جب یہ وفد حیدرآباد پہنچا تو اپنی چھاؤنی پھلیلی بہاؤ کے کنارے پر قائم کی جو حیدرآباد کے پکے قلعے سے ایک میل جنوب مشرق میں تھی۔ دوسرے دن امیروں کی طرف سے وفد بھیجا گیا، جس نے خیریت دریافت کی اور یہاں پہنچنے پر مبارکباد دی۔ پوٹنجر لکھتا ہے ’جو وفد ہماری خیریت پوچھنے کے لیے بھیجا گیا وہ سارے خدمت گار تھے اور ان میں سے کوئی بھی اعلیٰ عملدار نہیں تھا۔ یہ بھی ایک قسم کی تذلیل تھی۔ آئے ہوئے وفد نے عافیت جاننے کے ساتھ ہمیں مٹھائیوں سے بھرے تھال بھی دیے تھے، ہم نے بھی ان کو کچھ انعام دیے۔ میر صاحبان نے اس انعام دینے والے عمل کو اپنی تذلیل سمجھی اور اس کا سختی سے نوٹس لیا‘۔
سندھ کے امیر ایسا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے جس سے کمپنی کے وفد کو زیادہ سے زیادہ پریشان کیا جاسکے۔ ہفتہ 10 دن تک اس وفد کو ذہنی طور پر اتنے تناؤ میں رکھا کہ وفد بغیر ملاقات کے واپسی پر غور کرنے لگا تھا۔ ملاقات کا مسئلہ جن باتوں پر اٹکا، وہ کچھ اس قسم کی تھیں:
کمپنی کا وفد: ’ہم کل حاکموں سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔‘
امیروں کا نمائندہ: ’کل نہیں 2 دن کے بعد۔‘
کمپنی: ’ہم صبح کو ملنا چاہتے ہیں۔‘
امیر: ’نہیں شام کو۔‘
کمپنی: ’ہم جب امیروں کے دربار میں آئیں تو ہمیں تعظیم دے کر وہ اٹھ کھڑے ہوں۔‘
امیر: ’یہ نہیں ہوسکتا۔‘
کمپنی: ’ہمارے سفیر کو دربار میں کرسی دی جائے۔‘
امیر: ’ہم سفیر کو کبھی کرسی نہیں دیں گے۔‘
کمپنی: ’ہم دربار میں کھڑے رہیں گے۔‘
امیر: ’نہیں آپ کو بیٹھنا پڑے گا۔‘
کمپنی: ’ہم دربار میں آکر بیٹھ جائیں گے۔‘
امیر: ’نہیں آپ کو کھڑا ہونا پڑے گا۔‘
مطلب کے یہ تُو تُو، مَیں مَیں ایک ہفتے تک چلی اور آخر دونوں میں ملاقات کا طریقہ کار طے ہوا اور امیروں کی طرف سے آخوند محمد بقا اس وفد کو لینے کے لیے پہنچا۔ سفیر نے سلسلہ وار اپنے وفد میں شامل افسران کا ان سے تفصیلی تعارف کروایا۔ قلعے تک جانے کا احوال پوٹنجر سے سنتے ہیں۔
وہ لکھتا ہے کہ ’حیدرآباد کی پہاڑی کی وہ چوٹی جس پر حیدرآباد کا قلعہ تعمیر کیا گیا ہے، اس طرف جاتے ہوئے ہمیں دیکھنے کے لیے گھروں اور قلعے کی دیواریں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ پہلا دروازہ جس سے ہم قلعے میں داخل ہوئے (مشرق کی طرف سے) وہاں سے ایک کشادہ سیڑھی قلعے کی طرف جا رہی تھی۔ اس سیڑھی کے دونوں اطراف میروں کے سپاہی کھڑے تھے جن کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں، ہم جب دوسرے برج پر پہنچے جہاں ہمیں گھوڑوں سے اترنا تھا تو ہمارا استقبال سندھ کے امیروں کے خاص آدمی ولی محمد خان لغاری اور دوسرے اہم عہدہ رکھنے والے افسران نے کیا اور ہمیں اس طرف لے گئے جہاں اسٹیج نما جگہ پر انتہائی قیمتی ایرانی غالیچے بچھے ہوئے تھے جن پر امیر بیٹھے ہوئے تھے۔
'ہم نے اس اسٹیج پر چڑھنے سے پہلے اپنے بوٹ اتارے اور جیسے سفیر نے ان کی طرف بڑھنے کے لیے پہلا قدم اٹھایا تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب تک ایلچی اپنی اس نشست پر پہنچا جو اس کے لیے مخصوص کی گئی تھی، وہ نشست امیروں کی نشست سے الگ ظاہر کرنے کے لیے اس پر پھول پتیوں کے ڈیزائن کی ہاتھ سے بنائی ہوئی چادر بچھائی گئی تھی۔ ہمارے بیٹھنے کے بعد شہزادوں نے ایک ایک کرکے ہماری خیریت پوچھی، چونکہ یہ رسمی ملاقات تھی اس لیے گفتگو انتہائی مہذب طریقے سے ہوئی۔ ہمیں جب دربار میں بیٹھے ہوئے اندازاً آدھا گھنٹہ ہوا تھا تو بڑے میر نے ہمیں جانے کی اجازت دی۔ ہندوستان کے دوسری درباروں میں نشست کے اختتام پر، پان چھالیہ اور عطر یا گلاب کے پھولوں سے کشید کیا ہوا تیل لانے کا اشارہ کیا جاتا ہے، مگر یہاں ہمیں ایسی کوئی روایت نظر نہیں آئی اور نہ ہی یہاں ایران کی طرح کلیان (حقہ) اور قہوہ پیش کرنے کا رواج ہے۔‘
پوٹنجر میروں کی نشست، گفتار اور پہناوے سے متاثر نظر آتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’سندھ کے امیروں کی تلواروں اور خنجروں کی مونٹھوں (دستوں) پر لگے ہیرے جواہرات کے علاوہ، بے تحاشا جواہرات ان کے جسم پر تھے۔ ان کے کمربند پر بڑے زمرد اور یاقوت لگے ہوئے تھے، تینوں امیر اپنی عمروں کے حساب سے ترتیب سے بیٹھے ہوئے تھے۔ سب سے بڑا (میر غلام علی تالپور) بیچ میں، اور دونوں طرف ان کے بھائی، ایک طرف میر مراد علی (بڑا) اور دوسری طرف میر کرم علی (میر مراد سے چھوٹا)۔ یہ بھائی جس نشست پر بیٹھے ہوئے تھے وہاں بچھی ہوئی چادروں پر زری اور چاندی کی تاروں کے بنے ہوئے پھول پتیوں کا شاندار کام کیا ہوا تھا۔ گاؤ تکیوں پر بھی ہاتھ کے ہُنر کا شاندار کام کیا ہوا تھا۔ یہ سارے حقائق دربار کی ایک شاندار تصویر پیش کر رہے تھے۔ ساتھ میں حکومت کے عملداروں نے بھی شاندار لباس پہنا ہوا تھا۔ ہم سندھ کے دربار سے متعلق کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اتنی شاندار ہوگی۔ ان کے سر پر بندھی ہوئی پگڑٰیاں شفاف جالی دار کپڑے کی تھیں اور اتنی بڑی پگڑیاں اس سے پہلے میں نے کسی کو بندھی ہوئی نہیں دیکھی تھیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان پگڑیوں کا گھیرا 2 سے ڈھائی فٹ تک تو ضرور ہوگا، یہ پگڑیاں انتہائی نذاکت اور طریقے سے باندھی گئی تھیں جس کی وجہ سے نہ وہ وزن دار محسوس ہوتیں اور نہ بُری لگتی تھیں‘۔
پوٹنجر جس برس سندھ آیا تھا، اس سے 3 برس پہلے سے بارشیں نہیں ہوئی تھیں، بارشوں کا یہ پیٹرن ابھی تک جاری ہے کہ، زیریں سندھ میں 3 سے 4 برس بارشیں کم اور چوتھے یا 5ویں برس زیادہ ہوتی ہیں اور کبھی کبھی تو یہ برساتی سلسلوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ جس برس یعنی 1809ء میں جب پوٹنجر یہاں آٰیا تو بہت بارشیں ہوئی تھیں۔ اس بارش کی وجہ سے ان کی قائم کی گئی چھاؤنی میں پانی بھر گیا تھا، جس کو حکومتی کارندوں نے نکالا تھا۔ پہلی ملاقات کے بعد تالپوروں اور کمپنی بہادر کے وفد میں نوک جھونک ٹھنڈی پڑگئی تھی۔
یہ وفد جب دوسری بار غیر رسمی ملاقات کے لیے دربار پہنچا تو وہ راستے جہاں بندوق والے سپاہی کھڑے تھے وہاں کچھ نہیں تھا۔ نہ محلات میں اتنا رش تھا۔ پہلے کے مقابلے میں انتہائی پُرسکون ماحول تھا۔ تحفوں کی لین دین ہوئی۔ وہاں امیروں نے کچھ اعتراضات کیے مگر مسئلہ حل ہوگیا۔ امیروں نے بتایا کہ وہ ہر برس ایران اور ترکی میں اپنے آدمی بھیجتے ہیں کہ وہاں سے بہترین قسم کی تلواریں اور خنجر خرید کر لائیں اور خریداری میں پیسوں کی پرواہ مت کریں۔ پوٹنجر کے بقول یہ ان کی فضول خرچی تھی اور ان تلواروں کی خریداری اور ان کو ذخیرہ کرنے کا حرص پیسے جمع کرنے سے بھی بڑھ گیا تھا۔ اس شوق میں وہ اس مقابلے تک پہنچ گئے تھے کہ، کس بھائی کے پاس زیادہ شاندار خنجر اور تلواریں ہیں، جس میں ہر کوئی سبقت لینا چاہتا تھا۔
اس دوسری ملاقات میں امیرانِ سندھ اور کمپنی بہادر کے سفیر کے درمیان اکیلے میں ایک لمبی نشست ہوئی۔ سفیر نے امیروں کو وہ سب سمجھایا جو کمپنی بہادر چاہتی تھی۔ اس وفد کا سندھ میں آنے کا مقصد ’حملے اور بچاؤ کے اتحاد‘ کے لیے گزشتہ برس میروں سے کیے گئے عہدنامے کی منسوخی، فرانسیسی ایجنٹوں کا سندھ میں داخلہ روکنا اور سندھ کے حوالے سے نئے عہدنامہ کی تیاری پر بات چیت تھا۔
سندھ کے امیر نئے عہدنامے کی تیاری پر بات چیت کے لیے راضی ہوگئے اور ایک وفد تشکیل دیا گیا جس میں ولی محمد لغاری، آخوند بقا خان اور مشتاق رام نامی ایک ہندو شامل تھا۔ سندھ کے امیروں کا ان پر مکمل اعتماد تھا۔ فیصلہ ہوا کہ یہ وفد تب تک چھاؤنی میں آتا رہے گا جب تک تمام نکات پر تفصیلی گفتگو کے بعد دونوں فریقین مطمئن نہیں ہوجاتے اور عہدنامے کو آخری شکل نہیں دے دی جاتی۔ جب یہ طے ہوگیا تو سندھ حکومت کی طرف سے، گورنر جنرل سے ملنے کے لیے ایک سفیر مقرر کیا گیا جو اس وفد کے ساتھ جائے گا اور عہدنامے کی حتمی اور تصدیق شدہ نقل لے کر سندھ لوٹ آئے گا۔
حیدرآباد سے متعلق پوٹنجر ہمیں بتاتا ہے کہ ’یہاں توڑے دار بندوقیں (Matchlock Rifle) انتہائی شاندار اور خوبصورت بنتی ہیں۔ اس کے علاوہ بھالے، تلواریں، خنجر بھی اچھے بنتے ہیں اور کپڑوں پر کشیدہ کاری کا بھی عمدہ کام ہوتا ہے۔ یہاں اچھے روزگار کے دیگر ذرائع بھی موجود ہیں جن سے عام آدمی کی اچھی آمدنی ہوتی ہے۔ یہاں بننے والے ہتھیاروں کا معیار اعلیٰ ہے حتیٰ کہ یہ یورپ کا مقابلہ کرسکتے ہیں‘۔
حیدرآباد کے قلعے سے متعلق وہ لکھتا ہے کہ ’قلعے کی دیواروں پر 70 توپیں نصب ہیں البتہ مرکزی دروازے کی بالائی سطح پر تعمیر کیے گئے مورچے کی کوٹھڑی میں جو 8 سے 10 توپیں نصب ہیں وہ بھاری دھات کی بنی ہوئی شاندار توپیں ہیں۔ شہر کی آبادی قلعے کے شمال میں ہے، جس کی تعداد 3 ہزار گھروں تک یقیناً ہوگی، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آبادی ضرور 10 ہزار نفوس پر مشتمل ہوگی‘۔
24 اگست بروز بدھ انگریزوں کے وفد نے سندھ کے امیروں سے الوداعی ملاقات کی اور اگلے دن یعنی 25 اگست، 1809ء کو صبح سویرے سندھ حکومت سے ملنے والی 3 جھمپٹی کشتیوں پر روانہ ہوگیا جبکہ ان کا سامان، کراچی سے منگوائی گئی کشتیوں میں رکھا گیا۔
واپسی کے سفر سے متعلق پوٹنجر رقم طراز ہے کہ، 'ہم صبح جلدی اٹھے اور حیدرآباد سے جنوب مشرق میں ’پُھلیلی بہاؤ‘ سے اپنا سفر شروع کیا۔ تیسرے دن ہم کڈھن نامی ایک گاؤں (اب یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے) پہنچے۔ حیدرآباد اور کڈھن کے درمیاں سارا علاقہ نہایت خوبصورت اور فصلوں سے بھرا ہے۔ یہاں ہم کچھ دن رُکے اور خوب جی بھر کر شکار کیا۔ بعدازاں ہم 7 ستمبر کو لکھپت بندر پہنچے اور اکتوبر کے آخر میں ایک مشکل اور پریشان کردینے والے مگر کامیاب سفر کے بعد بمبئی پہنچے‘۔
حوالہ جات:
’تاریخ کے مسافر‘، ابوبکر شیخ، 2020، سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
Travels in Balochistan and Sinde. Henry Pottinger. London 1816
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ ان موضوعات پر ان کی 5 کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور تحقیقی مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا ای میل ایڈریس abubakersager@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔