صحت

کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار مریضوں کی زندگیاں بچانے والی نئی دوا دریافت

یہ پہلی دوا ہے جو بہت زیادہ بیمار افراد کے جسم میں پیدا ہونے والے ورم کی روک تھام کی بجائے براہ راست وائرس کا مقابلہ کرتی ہے۔

طبی ماہرین نے ایک ایسی دوا کو دریافت کیا ہے جو کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار افراد میں موت کا خطرہ 20 فیصد تک کم کردیتی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریکوری ٹرائل کے دوران ہسپتال میں زیرعلاج کووڈ مریضوں کی صحتیابی میں مدد دینے والی تیسری دوا کو دریافت کیا گیا۔

درحقیقت یہ پہلی دوا ہے جو بہت زیادہ بیمار افراد کے جسم میں پیدا ہونے والے ورم کی روک تھام کی بجائے براہ راست وائرس کا مقابلہ کرتی ہے۔

اس دوا یا مونوکلونل اینٹی باڈی کا امتزاج ری جینیرون نے تیار کیا ہے اور ان مریضوں پر بھی کام کرتی ہے جن میں کورونا وائرس کی بیماری کے ردعمل میں اینٹی باڈیز نہیں بنتیں۔

ایسے مریضوں کا علاج نہ ہو تو 30 فیصد ہلاک ہوجاتے ہیں جبکہ یہ شرح ان مریضوں میں 15 فیصد ہے جس میں وائرس کے خلاف ایک اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے۔

آکسفورڈ کے ریکوری ٹرائل کے پروفیسر سر مارٹن لانڈرے نے بتایا 'یہ بہت اہم ہے، ہم نے جو دریافت کیا ہے، اسے ہم ایک اینٹی وائرل علاج کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں، اس طرح ہم ان مریضوں کی اموات کی شرح کم کرسکتے ہیں جن میں وائرس کے خلاف اینٹی باڈی ردعمل پیدا نہیں ہوتا اور ایسے ہر 3 میں سے ایک کی ہلاکت کا خطرہ ہوتا ہے، تاہم اس دوا سے یہ خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔

یہ دوا لیبارٹری میں تیار کیے جانے والے 2 مونوکلونل اینٹی باڈیز casirivimab اور imdevimab کے امتزاج پر مبنی ہے، جو کورونا وائرس کے 2 مختلف حصوں میں اسپائیک پروٹین کو جکڑ کر اسے خلیات میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔

اس سے قبل امریکا میں کچھ چھوٹے ٹرائلز میں لوگوں میں اس کی کچھ افادیت کو ثابت کیا گیا تھا اور بتایا گیا کہ بیماری کے آغاز میں اس کے استعمال سے لوگوں کی بیماری کو پھیلنے سے روک کر ہسپتال میں داخلے کا امکان کم کیا جاسکتا ہے۔

برطانوی ٹرائل میں 9 ہزار 785 کووڈ مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 30 فیصد میں وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز موجود نہیں تھیں، 50 فیصد میں اینٹی باڈیز تھیں جبکہ باقی مریضوں کے بارے کچھ واضح نہیں کیا گیا۔

ٹرائل میں اینٹی باڈیز سے محروم افراد میں اموات کی شرح 30 فیصد سے گھٹ کر 24 فیصد تک آگئی، یعنی ہر 100 مریضوں میں سے 6 کی زندگیاں بچالی گئیں۔

ان کا ہسپتال میں قیام بھی 4 دن کم ہوگیا اور وینٹی لیٹر پر جانے کا امکان بھی ہوا، تاہم اس دوا کا ان افراد پر کوئی اثر نہیں ہوا جن میں اینٹی باڈیز موجود تھیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج کو دیکھتے ہوئے ہسپتال میں داخلے پر کووڈ کے مریضوں کے اینٹی باڈی ٹیسٹ ہوسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں عام ہوجائیں، تاکہ اس کے مطابق اس نئی دوا کا استعمال کرایا جاسکے۔

اس سے قبل برطانوی ٹرائل میں اسٹرائیڈ ڈیکسامیتھاسون اور جوڑوں کے امراض کی دوا tocilizumab کو بھی دریافت کیا گیا تھا جو کووڈ 19 کے مریضوں کی زندگیاں بچانے میں مددگار ہیں۔

مگر ریکوری ٹرائل کے ایک اور پروفیسر سر پیٹر ہوربے نے کہا کہ یہ نئی دوا ممکنہ طور پر امیر ممالک میں ہی دستیاب ہوسکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اینٹی باڈی کاک ٹیل کینسر کے علاج کے لیے امیر ممالک میں استعمال ہورہے ہیں مگر یہ ترقی پذیر ممالک میں دستیاب نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ نئی اینٹی باڈی دوا ترقی پذیر ممالک میں دستیاب نہیں اور نہ ہی وہ فروخت کی جاتی ہے، مگر ٹرائل کے نتائج کے بعد توقع ہے کہ حالات میں تبدیلی آئے گی۔

کووڈ کو شکست دینے کے بعد لوگوں کو نئے طبی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، تحقیق

چین کی اہم ترین وائرلوجسٹ کی کورونا وائرس لیب سے لیک ہونے کے الزامات کی تردید

کورونا وائرس کی نئی قسم ڈیلٹا کی عام علامات بھی مختلف