بجٹ 2022ء میں نوجوانوں کے لیے کیا ’خاص‘ ہے؟
کسی بھی ملک کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب انتہائی اہم اور کارآمد ہوتا ہے۔ ملکی معیشت اور سماجی بہتری میں کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی؟ اس بات کا اندازہ اس ملک میں نوجوانوں کی آبادی سے لگایا جاسکتا ہے۔
یورپ کے وہ مختلف ممالک جہاں آبادی کا بڑا حصہ عمر رسیدہ افراد پر مشتمل ہے، وہاں نوجوانوں کی آبادی میں اضافے کے لیے نہ صرف مختلف اسکیمیں لائی جا رہی ہیں بلکہ ایسے ممالک دیگر ملکوں کے باصلاحیت نوجوانوں کو اپنے ہاں بسنے کے لیے ترغیب بھی دے رہے ہیں۔
غرض یہ کہ نوجوان آبادی طاقت کا وہ سرچشمہ ہے جس کو بروئے کار لاکر کوئی بھی ملک ترقی کی منازل تیزی سے طے کرسکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے بہتر منصوبہ بندی اور نوجوانوں کی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکمتِ عملی کا تعین انتہائی ضروری ہے۔
پاکستان کی 64 فیصد آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ 15 سے 29 سال کے افراد آبادی کا 29 فیصد بنتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے پروگرام برائے ترقی (یو این ڈی پی) کی جاری کردہ رپورٹ (Unleashing the Potential of Young People In Pakistan 2018) کے مطابق پاکستان میں اس وقت نوجوانوں کی تعداد ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
لیکن اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 100 نوجوانوں میں صرف 29 خواندہ ہیں جبکہ 12ویں جماعت سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے والوں کا تناسب صرف 6 فیصد ہے۔ کچھ ایسا ہی حال روزگار اور سماجی مصروفیت کے معاملے میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ ہر 100 میں سے صرف 39 نوجوان برسرِ روزگار ہیں جبکہ حصولِ ملازمت کے لیے کوشاں نوجوانوں کی تعداد صرف 4 فیصد ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت پر انتہائی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نوجوانوں کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرے اور جامع حکمتِ علمی بنائے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی سیاسی جدوجہد میں نوجوانوں کو تو پیش پیش رکھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد اب تک جو معاشی منظرنامہ سامنے آیا ہے اس میں کچھ اسکیموں کے علاوہ نوجوانوں کے لیے جامع اقدامات نظر نہیں آتے۔ اگر مالی سال 21ء-2020ء کے بجٹ کی بات کی جائے تو پوری بجٹ دستاویز میں نوجوانوں کے لیے صرف ایک ارب روپے پرائم منسٹر یوتھ بزنس لون پروگرام کے تحت مختص کیے گئے تھے۔
ابتدائی طور پر کامیاب نوجوان پروگرام اور وزیرِاعظم اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ رواں مالی سال کا بجٹ ایسے وقت میں پیش کیا گیا ہے جب پاکستان دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح عالمی وبا سے نبردآزما ہے۔ تاہم اگر پہلے سال کے بجٹ کو بھی دیکھیں تو وہاں بھی نوجوانوں سے جڑے منصوبوں کے لیے بجٹ میں خاطر خواہ رقم مختص نہیں کی گئی تھی۔
موجودہ حکومت نے 'کامیاب جوان' کے نام سے ایک پروگرام متعارف کروایا جو 6 اسکیموں پر مشتمل ہے۔ ان 6 میں سے 3 اسکیمیں شروع ہوچکی ہیں جبکہ بقیہ 3 پر کام اختتامی مراحل میں ہے۔ وزیرِاعظم اسکل ڈیولپمنٹ اور پرائم منسٹر یوتھ بزنس لون جیسے پروگرام شروع کردیے گئے ہیں مگر ان کا کوئی خاطر خواہ پھل سامنے نہیں آرہا ہے۔ اقتصادی سروے کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ بے روزگاری کا سامنا 20 سے 24 سال کی عمر کے نوجوانوں کو ہے۔
بے روگاری کے خاتمے کے لیے حکومت نے کامیاب جوان کی ذیلی یوتھ انٹرپرینیورشپ اسکیم متعارف کروائی ہے جس کے تحت 5 سال میں چھوٹے کاروبار شروع کرنے کے لیے 100 ارب روپے کے قرضے دیے جانے ہیں۔ یہ اسکیم اکتوبر 2019ء میں شروع کی گئی تھی تاہم گزشتہ سال جون میں جب بجٹ پیش کیا گیا تو اس اسکیم کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔ البتہ رواں سال اس پروگرام کے لیے 2 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں، جس میں کسان پروگرام کے تحت بھی رقم کا اجرا شامل ہے۔
11 جون کو پیش کیے جانے والے بجٹ میں بھی کامیاب جوان اور کسان پروگرام کے لیے مجموعی طور پر 10 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جبکہ بجٹ دستاویز میں وزیرِاعظم یوتھ بزنس لون پروگرام اور دیگر اسکیموں کے لیے 60 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز کی گئی ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ قرضے کمرشل بینکوں کے ذریعے دیے جاتے ہیں جہاں کی دستاویزی کارروائی کو پورا کرنا نوجوانوں کے لیے قدرے مشکل ثابت ہوتا ہے۔ اس اسکیم میں 21 کمرشل بینک ایگزیکیوٹنگ ایجنسی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
نوجوانوں کے لیے قرض پروگرام پر بات کرتے ہوئے ماہرِ معیشت، سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کے سربراہ اور وزیرِاعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن عابد سلہری صاحب کا کہنا تھا کہ ’حکومت کی جانب سے نوجوانوں کے لیے قرضوں کی فراہمی ایک اچھا قدم ہے۔ تاہم یہ قرضے کمرشل بینکوں سے جاری ہوتے ہیں جن کی دستاویزی کارروائی پوری کرنے میں ایک نوجوان کو خاصی مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ چنانچہ اسٹیٹ بینک کو ایس ایم ای سیکٹر کے طرز پر نوجوانوں کے لیے بھی آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے‘۔
موجودہ حکومت نے نوجوانوں کو تکنیکی تعلیم فراہم کرنے کے مقصد سے ہنرمند پاکستان کے نام سے بھی ایک اسکیم کا آغاز کیا۔ اس اسکیم کا آغاز جنوری 2020ء میں 10 ارب روپے کی سیڈ منی یا بنیادی رقم سے کیا گیا۔ وزیرِاعظم کے مشیر برائے امور نوجوانان عثمان ڈار کے مطابق اس اسکیم کے تحت ایک نوجوان کو ہنرمند بنانے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے تک خرچ کیے جارہے ہیں۔ اس اسکیم سے اب تک 37 ہزار نوجوان اپنا تربیتی کورس مکمل کرچکے ہیں جبکہ 55 ہزار ابھی زیرِ تربیت ہیں۔
مالی سال 22ء-2021ء کے بجٹ میں نیشنل انٹرن شپ پروگرام کے لیے کوئی رقم مختص نہیں کی گئی ہے۔ اگر نوجوانوں کے لیے خصوصی اقدامات کے علاوہ بات کی جائے تو حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے لیے مختص رقم میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ ایچ ای سی کے لیے رقم کا حجم بڑھا کر 42 ارب 45 کروڑ روپے کیا گیا ہے۔ یہ قدم بھی نوجوانوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول آسان بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
وزیرِ خزانہ شوکت ترین کہتے ہیں کہ ’ہر سال جاب مارکیٹ میں آنے والے نئے افراد کے لیے ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی غرض سے پاکستانی معیشت کو 7 فیصد کی رفتار سے ترقی کرنا ضروری ہے‘۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اس وقت جاب مارکیٹ میں نئے آنے والوں کے ساتھ ساتھ کورونا کی عالمی وبا کے باعث بے روزگار ہونے والے اور اس دوران ملازمت کے حصول میں ناکام رہنے والوں کا بھی اضافی بوجھ موجود ہے۔ وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ ’صحت کی سہولیات کی فراہمی کے بعد روزگار کے مواقع پیدا کرنا پاکستان کا دوسرا بڑا چیلنج ہے۔ تاہم اس چیلنج کا حل ہی پاکستان کے بیشتر مسائل کو حل کرنے کا باعث بنے گا‘۔
نوجوان افرادی قوت کے احسن استعمال سے ہی پاکستانی معشیت کی شرحِ نمو کو بہتر اور پائیدار بنایا جاسکتا ہے۔
لکھاری مختلف میڈیا اداروں میں بحیثیت پروڈیوسر بزنس ڈیسک کام کرچکی ہیں۔ اس وقت ایک ڈیٹا اینڈ مینجمنٹ کنسلٹنسی فرم سے وابستہ ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔