نقطہ نظر

افغانستان سے امریکی انخلا اور خانہ جنگی کا ممکنہ خطرہ

امریکا مسائل حل کیے بغیر جہاں سے بھی فرار ہورہا ہے وہ خطے روس اور چین کے زیر اثر آرہے ہیں۔ یہی معاملہ افغانستان اور اس خطے کا ہے۔

افغانستان سے امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا طے شدہ شیڈول سے بھی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے۔ ساتھ ہی افغانستان میں دہشتگرد کارروائیاں بھی تیز ہوچکی ہیں۔ اگرچہ طالبان تازہ کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں اور افغان شہروں اور قصبوں پر کابل انتظامیہ کا کنٹرول ابھی برقرار ہے لیکن دیہی علاقوں میں طالبان کی گرفت بدستور مضبوط ہے۔


فوجی انخلا کے بعد کی منصوبہ بندی


سابق صدر بش جونیئر، سابق وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن، کنڈولیزا رائس، سابق ڈائریکٹر سی آئی اے ڈیوڈ پٹریاس سمیت امریکا کے اہم سیاستدان فوجی انخلا کے فیصلے اور اس کے بعد افغان فورسز کی صلاحیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

افغانستان میں ایک بار پھر خانہ جنگی اور ہمسایہ ملکوں میں مہاجرین کے نئے سیلاب کے خدشات منڈلانے لگے ہیں۔ کابل انتظامیہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے کے بجائے اسلام آباد اور کابل کے درمیان نئی تلخیاں جنم لے چکی ہیں اور خطے میں امریکا کے نئے فوجی اڈوں کے امکانات پر طالبان بھی کسی ملک کا نام لیے بغیر دھمکی آمیز بیانات جاری کر رہے ہیں۔ یہ ایسا منظرنامہ ہے جو عدم استحکام کو مزید گہرا کرسکتا ہے اور اس سے پورا خطہ متاثر ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیے: افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا پاکستان، دیگر ہمسایہ ممالک کے لیے ایک امتحان

افواج اور سازو سامان کی تیزی سے واپسی کے باوجود امریکا نے ابھی تک انخلا کے بعد کی حکمتِ عملی واضح نہیں کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پینٹاگون ابھی تک پالیسی تیار کرنے میں مصروف ہے اور جون کے وسط تک پالیسی صدر بائیڈن کی میز پر پہنچنے کے امکانات ہیں۔

امریکی سیکریٹری دفاع اور ریٹائرڈ جنرل لائڈ آسٹن نے کانگریس میں بیان کے دوران تیز فوجی انخلا کی تصدیق کی۔ امریکی کانگریس کی بجٹ کمیٹی میں جنرل لائڈ آسٹن نے پینٹاگون کے 715 ارب ڈالر میزانیہ کی معمولی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ پینٹاگون فوجی انخلا کے بعد بھی افغانستان کی فوجی امداد جاری رکھے گا اور دہشتگردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے کے لیے تعاون اور کارروائیاں بھی کرتا رہے گا۔

چونکہ فوجی انخلا کے بعد کی حکمتِ عملی پر ابھی کام جاری ہے اس لیے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا رہا، تاہم اس ضمن میں کچھ اشارے سامنے آ رہے ہیں۔ ایک اشارہ 24 مئی کو پینٹاگون ترجمان کی پریس بریفنگ میں اس وقت ملا جب ان سے خطے میں نئے فوجی اڈوں پر سوال ہوا اور ساتھ ہی پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے بیان کا حوالہ دیا گیا جس میں امریکا کو فوجی اڈے دینے کی اطلاعات کی تردید کی گئی۔ پینٹاگون ترجمان نے کہا کہ وہ کسی ملک کا نام نہیں لینا چاہتے تاہم سفارتی طور پر کام جاری ہے اور اس پر بات ہو رہی ہے۔


فوجی اڈوں کی ضرورت


پینٹاگون ترجمان کا جواب اشارہ کرتا ہے کہ امریکا کو خطے میں فوجی اڈوں کی واقعتاً تلاش ہے۔ پاکستان کے علاوہ ازبکستان، تاجکستان، قازقستان اور کرغزستان کے نام سامنے آرہے ہیں۔ امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ جنرل کینتھ میک کنزی اور قائم مقام اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ ڈیوڈ ہیلوے نے بھی کانگریس میں بیان دیتے ہوئے اڈوں کی تلاش کی تصدیق کی تھی۔

ازبکستان اور کرغزستان میں نائن الیون کے بعد امریکی فوجی اڈے بنے تھے لیکن اب موجود نہیں ہیں۔ کرغزستان، قازقستان اور تاجکستان روس کی سربراہی میں قائم فوجی اتحاد کے رکن ہیں اور ان ملکوں میں روس اور چین دونوں کا اثر زیادہ ہے اس لیے وہاں امریکی فوجی اڈوں کے قیام کے لیے پہلے جیسے حالات نہیں ہیں۔ ازبکستان روس کے فوجی اتحاد کا حصہ نہیں لیکن اس کا آئین غیر ملکی فوجی اڈوں کی اجازت نہیں دیتا اس لیے وہاں روس اور چین کے دباؤ کے علاوہ آئینی مشکلات موجود ہیں۔ ازبکستان کے افغان طالبان کے ساتھ بھی براہِ راست اچھے سفارتی تعلقات ہیں اور اب ان کے لیے افغانستان سیکیورٹی خطرہ نہیں رہا۔ اس صورت میں انہیں فوجی اڈے دیتے ہوئے نیا خطرہ مول لینا پڑے گا۔ وسط ایشیائی ریاستیں واشنگٹن کو قابلِ اعتماد پارٹنر بھی تصور نہیں کرتیں اس لیے وہاں اڈوں کا حصول بہت مشکل ہوگا۔

تاجکستان میں روس کا سب سے بڑا بیرونِ ملک فوجی اڈہ قائم ہے جہاں 5 ہزار سے زائد روسی فوجی تعینات ہیں۔ کرغزستان میں روس کے پاس ایک ایئربیس موجود ہے اور اس ایئربیس کا استعمال روس 1940ء سے کر رہا ہے۔ چین کا بھی وسط ایشیا میں فوجی اثر و رسوخ بڑھ چکا ہے۔ تاجکستان میں چین کی فوجی تنصیبات موجود ہیں جبکہ باقی ملکوں کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں بھی معمول بن چکی ہیں۔

پاکستان میں ابھی تک اس معاملے پر بحث چل رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن اس مسئلے پر بات کرچکی ہے اور بلند آہنگ وزیرِ خارجہ بھرپور تردید بھی کرچکے ہیں لیکن اپوزیشن اس معاملہ پر مزید وضاحت چاہتی ہے۔ اس حوالے سے بند کمرہ اجلاس کی بھی تجویز ہے لیکن بند کمرہ اجلاس فیصلہ سازی نہیں کیا کرتے بلکہ پہلے سے کیے گئے کسی فیصلے کی توثیق کے لیے ربڑ اسٹیمپ کا کام کرتے ہیں۔

اس سے پہلے مشرف دور میں پاکستان امریکا کو ایک ایئربیس استعمال کرنے کی اجازت دے چکا ہے اور اس کے نتائج بھی بھگت چکا ہے۔ اب جبکہ افغان طالبان کی ناراضگی اور انتقامی کارروائیوں کا خطرہ موجود ہے اور کابل انتظامیہ کے ساتھ پہلے ہی بات چیت تقریباً بند گلی میں ہے اس طرح کا فیصلہ قومی سلامتی کے لیے خطرات بڑھا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکا کے ساتھ غیر معمولی فوجی تعاون کے فیصلے کرنے سے پہلے علاقائی سیکیورٹی اور اتحادوں کو بھی نظر میں رکھنا ہوگا۔


روس اور چین کا کردار


علاقائی سیکیورٹی اور اتحادوں کی بات چلی ہے تو روس اور چین کے اسٹرٹیجک اتحاد اور قربت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ چار فریقی غیر رسمی اتحاد جس میں امریکا، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت شامل ہیں، اس کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔ دونوں اتحاد دراصل امریکی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ امریکا نے روس اور چین کو دبانے کی جو پالیسی ٹرمپ دور میں اپنائی تھی اسے بائیڈن بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکا ٹرمپ دور میں اپنی اجارہ داری کو پہلے ہی نقصان پہنچا چکا ہے اور کئی خطوں میں امریکی اثر و رسوخ کمزور پڑا ہے۔

ان حالات میں روس اور چین مل کر نیا علاقائی نظام بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ افغانستان سے فوجی انخلا کی صورت میں روس اور چین کو نئے علاقائی نظام کی تشکیل میں آسانی ہوئی ہے۔ روس اور چین کا بظاہر مؤقف یہی ہے کہ ان کے دوطرفہ تعاون کا ہدف کوئی تیسرا ملک نہیں اور امریکا کو چیلنج کرنا ان کے مقاصد کا حصہ نہیں تاہم بڑھتا ہوا امریکی دباؤ بیجنگ اور ماسکو کی قربتوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

مزید پڑھیے: پاکستان، امریکا، چین، روس کا افغانستان سے سرحد پار حملوں کے خاتمے پر زور

امریکی دباؤ کو بیجنگ اور ماسکو خاطر میں نہیں لارہے بلکہ واشنگٹن کو اس کی زبان میں جواب دے رہے ہیں۔ مارچ میں چین کے وزیرِ خارجہ نے الاسکا میں ہونے والے ٹو پلس ٹو مذاکرات میں امریکی ہم منصب انٹنی بلنکن اور امریکا کے قومی سلامتی مشیر جیک سولیوان کو بتا دیا تھا کہ امریکا چین کے ساتھ طاقت سے بات کرنے کا اہل نہیں ہے۔ روس کے صدارتی محل کے ترجمان نے بھی مارچ میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ روس امریکا یا کسی اور ملک کو طاقت کی زبان میں بات کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ایک جیسا پیغام دے کر بیجنگ اور ماسکو نے واضح کردیا کہ اب امریکا کی اجارہ داری برداشت نہیں کی جائے گی۔

امریکا جہاں کہیں سے بھی مسائل حل کیے بغیر فرار اختیار کر رہا ہے وہ خطے روس اور چین کے زیرِ اثر آرہے ہیں اور یہی معاملہ افغانستان اور اس خطے کا ہے۔ بیجنگ اور روس شنگھائی تعاون تنظیم کے تحت افغانستان میں نئے کردار کی تیاری کر رہے ہیں اور امریکی انخلا سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی کوشش کریں گے۔ امریکی قیادت میں بننے والے چار فریقی اتحاد کو بھی بیجنگ اور ماسکو سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔

مارچ میں ہی امریکا کی سربراہی میں بننے والے چار فریقی اتحاد کا اجلاس ہوا جس کے بعد ماسکو نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ امریکا چین مخالف گیم میں بھارت کو استعمال کر رہا ہے۔

16 جون کو بائیڈن اور پیوٹن جنیوا میں ملاقات کر رہے ہیں جس کا مقصد واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان کم از کم بات چیت کا راستہ کھلا رکھنا ہے۔ بائیڈن سے ملاقات کے بعد پیوٹن جولائی میں بیجنگ کا دورہ کرکے صدر شی کو اعتماد میں لیں گے۔ جون اور جولائی کی ملاقاتیں اور اقدامات مستقبل کے رجحانات کا پتا دیں گے۔

چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ، جس کا ایک چھوٹا سا حصہ سی پیک ہے، افغانستان کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ امریکی انخلا کے بعد چین پاکستان اور ایران میں بڑی سرمایہ کاری کی حفاظت کے لیے افغانستان میں استحکام کی کوشش کرے گا اور ایک امکان یہ بھی ہے کہ خانہ جنگی کی صورت میں چین امن فورس تعینات کرے تاکہ افغانستان کے ساتھ ملحق سنکیانگ صوبے کو بھی ممکنہ بدامنی سے بچایا جاسکے۔

ایران کے ساتھ معاہدے کے تحت چین پہلے ہی وہاں 5 ہزار فوجی تعینات کرنے کی اجازت لے چکا ہے۔ افغانستان سے امریکیوں کی روانگی کے بعد چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو تیز رفتاری سے بڑھا سکتا ہے۔ امریکا جو اربوں ڈالر جنگ پر لگا کر خطے سے نکلنے پر مجبور ہوا ہے وہ بیجنگ کو راستہ دے رہا ہے اور ڈریگن کو راستہ ملنے کا مطلب ہے کہ اب خطے پر ایک اور طاقت سافٹ پاور کے ساتھ اجارہ داری قائم کرنے کو ہے۔ اگر چین افغانستان میں فعال ہوا تو یورپی طاقتوں کے علاوہ بھارت بھی افغانستان سے باہر ہوجائے گا۔


کابل انتظامیہ کا رویہ اور بھارت کا کردار


کابل انتظامیہ میں پاکستان کے دشمنوں کی بڑی تعداد بیٹھی ہے جن میں ایک اشرف غنی کے قومی سلامتی مشیر حمداللہ محب بھی ہیں۔ پچھلے دنوں حمد اللہ محب نے پاکستان سے متعلق ایک گھٹیا تبصرہ کیا اور پاکستان نے افغان حکومت کے ساتھ اس پر نہ صرف احتجاج کیا بلکہ ایک اطلاع یہ ہے کہ پاکستان نے افغان قومی سلامتی مشیر کے ساتھ رابطوں اور کام کرنے سے بھی معذرت کرلی ہے۔ اس کے علاوہ امراللہ صالح اور اس جیسے کئی عہدے دار ہیں جو اپنی ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالتے رہتے ہیں۔

دراصل یہ بھارت نواز سیاستدان اور سیکیورٹی عہدے دار ہیں۔ بھارت کابل انتظامیہ کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے تاکہ پاکستان اپنی پوری توجہ اور فوجی صلاحیت افغان بارڈر پر لگائے رکھے۔ بدلتی ہوئی صورتحال میں نئے اتحادوں میں پاکستان کو اپنی جگہ بنانی اور مضبوط کرنی چاہیے تاکہ علاقائی سیکیورٹی کا جو نیا نظام تشکیل پا رہا ہے اس میں نہ صرف پاکستان شراکت دار ہو بلکہ اپنے مفادات کا بہتر تحفظ بھی کرسکے۔

امریکا افغانستان سے انخلا کے بعد جاپان اور بھارت کو افغانستان میں اثر و رسوخ کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ ان دونوں ملکوں کی ماضی میں افغانستان کے ساتھ کوئی مخالفت یا دشمنی نہیں رہی، کابل کی موجودہ انتظامیہ کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے بیرونی مالی اور فوجی مدد پر انحصار کرنا پڑے گا اور امریکا خطے میں نئے چار فریقی اتحاد کو اس مقصد کے لیے استعمال کرے گا۔

بھارت پہلے بھی کابل انتظامیہ کو مالی مدد دے چکا ہے۔ ایران کے ساتھ بھی دوبارہ جوہری معاہدے کی کوشش خطے میں واشنگٹن کے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔ امریکا ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد چار فریقی اتحاد کے رکن ملکوں کو ایران کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے استثنا دے سکتا ہے اور اس معاشی فائدے کو افغانستان میں اثر و رسوخ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ امریکی سربراہی میں قائم چار رکنی غیر رسمی اتحاد افغانستان میں معدنیات کی تلاش کے بہانے سیکیورٹی اور جاسوسی کے لیے امریکا کو مدد بھی فراہم کرسکتا ہے۔ یہ چار فریقی اتحاد چین کے اثر و رسوخ کا توڑ کرنے میں بھی امریکا کا مددگار ہوگا۔


خانہ جنگی کا خطرہ


افغانستان میں سب سے خوفناک منظرنامہ خانہ جنگی کا ہے، بظاہر لگتا ہے کہ امریکا خود بھی خانہ جنگی چاہتا تھا یا پھر اسے فرار کی اس قدر جلدی تھی کہ اس نے کئی پہلوؤں پر غور ہی نہیں کیا۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان سے انخلا کی تاریخ ایسے وقت پر دی جب افغان فریقوں کے درمیان استنبول میں مذاکرات ہونے والے تھے۔ اس کانفرنس میں عبوری حکومت کے قیام پر بات ہونا تھی اور امن کے لیے یہی سب سے اہم نکتہ تھا لیکن بائیڈن انتظامیہ کے اعلان کے بعد افغان طالبان نے استنبول نہ جانے کا اعلان کیا۔

مزید پڑھیے: امریکا فوجی انخلا میں ناکام ہوا تو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، طالبان

بائیڈن کے غیر مشروط انخلا کے اعلان کے بعد طالبان قیادت نے فیصلہ کیا کہ مکمل فوجی انخلا تک کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ دراصل اس فیصلے کے پس پردہ یہ سوچ کارفرما ہے کہ غیر ملکی افواج کے نکلنے کے بعد کابل پر قبضہ مشکل نہیں ہوگا۔ بائیڈن انتظامیہ کے بغیر سوچے سمجھے اعلان نے خانہ جنگی کا امکان بڑھا دیا ہے جس سے پاکستان ایک بار پھر مہاجرین کی صورت میں معاشی بوجھ تلے دب سکتا ہے اور نئے مسائل سر اٹھا سکتے ہیں۔

خانہ جنگی خطے کے مفاد میں نہیں اس کے لیے علاقائی طاقتیں اور پاکستان مل کر سفارتی کوششیں کرسکتے ہیں اور افغان فریقین کو میز پر لاسکتے ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ واشنگٹن افغانستان میں نئی خانہ جنگی کا خواہاں ہو کیونکہ اس خانہ جنگی سے روس اور چین کو نئے محاذ پر توجہ دینا پڑے گی اور امریکا خطے میں اپنے عزائم کو پروان چڑھانے اور چین کی فوجی و اقتصادی ترقی روکنے کے لیے نئی منصوبہ بندی کے قابل ہوجائے گا۔

ایک اور منظرنامہ یہ ہے کہ کابل ایئرپورٹ طالبان کے قبضے میں جانے کی صورت میں افغانستان میں تمام سفارتی مشن خطرے میں پڑ سکتے ہیں، آسٹریلیا پہلے ہی سفارت خانہ عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان کرچکا ہے جبکہ امریکا سمیت تمام اہم ملکوں کے سفارتی عملے میں کمی کی جاچکی ہے۔ اگر سفارتی مشن بند ہوگئے تو افغان مسئلے کے حل کی کوششوں کو ناقابلِ تلافی دھچکا لگے گا۔

کابل ایئرپورٹ یا کابل شہر پر طالبان کے قبضے کے خدشات کی وجہ افغان فورسز کی کمزور دفاعی صلاحیت کے علاوہ فورسز کے مورال میں کمی اور کرپشن بھی ہے۔ افغان فورسز کو اب تک امریکی افواج کی فضائی مدد حاصل تھی جو طالبان کو پیش قدمی سے روکے ہوئے تھی۔ 11 ستمبر کو جب انخلا مکمل ہوجائے گا تو یہ مدد بھی ختم ہوجائے گی جبکہ افغان فضائیہ کا امریکی اور نیٹو مددگاروں کے بغیر قابل پرواز رہنا بھی محال نظر آتا ہے۔

ایسی صورتحال میں افغان فوجیوں کا وفاداری بدلنا اور جنگی سرداروں یا طالبان کی اطاعت قبول کرنا ممکنہ منظرناموں میں شامل ہے۔ افغان فوج میں کرپشن اس قدر ہے کہ فوجیوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہو رہیں، اسلحہ تو درکنار افغان فوجیوں کے پاس بوٹ بھی نہیں ہوتے کیونکہ انہیں مہیا کیے جانے والے بوٹ اس قدر ناقص ہیں کہ چند ہفتوں بعد ہی قابلِ استعمال نہیں رہتے۔ اس کے علاوہ ہتھیار بھی دورانِ لڑائی جام ہوجاتے ہیں۔

امریکا نے 2024ء تک افغان فوج کو 4 ارب ڈالر سالانہ مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ وعدہ افغان فورسز کے لیے کچھ حوصلے کا باعث ہے لیکن یہ لیڈر شپ اور عہدے داروں پر منحصر ہے کہ اس امداد کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اور کرپشن کو روک پاتے ہیں یا نہیں۔ اگر افغان فورسز کو یونہی بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا تو خانہ جنگی یقینی ہے کیونکہ لڑائی صرف کابل انتظامیہ اور افغان طالبان کے درمیان نہیں ہوگی بلکہ نسلی بنیادوں پر سرداران بھی اقتدار کی جنگ میں گتھم گتھا ہوں گے۔

پاکستان کو نئی صورتحال میں نہ صرف علاقائی سیکیورٹی نظام پر توجہ دینا ہوگی بلکہ امریکا کو بھی مکمل لاتعلقی سے باز رکھنے کی کوششیں کرنا پڑیں گی ورنہ افغانستان میں بھی بالکل ویسے ہی صورتحال دیکھنے کو مل سکتی ہے جیسی سوویت یونین کے فوجی انخلا کے بعد دیکھی گئی تھی اور پاکستان کے سیکیورٹی اور معاشی مسائل کا حل ناممکن ہوجائے گا یوں پاکستان ایک اور جنگ میں دھکیل دیا جائے گا۔

آصف شاہد

دو دہائیوں سے زائد عرصہ سے صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات بالخصوص مشرق وسطیٰ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔