نقطہ نظر

’سچن ٹنڈولکر اور میں‘

سچن کو دیکھ کر گلی کرکٹ کھیلنے والے ہر لڑکے کی امید بندھی کہ اگر ایک لڑکا اس سطح پر کرکٹ کھیل سکتا ہے تو پھر وہ بھی کھیل سکتے ہیں۔

یہ 1989ء کا سال تھا۔ ایک سال پہلے ہی 11 سالہ طویل آمرانہ دور ختم ہوا تھا، جس کے بعد بے نظیر بھٹو وزیرِاعظم بنی تھیں اور ملک جمہوریت کی بحالی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس دوران بھارت میں ایک اور جمہوری انتخابات کی تیاریاں ہورہی تھیں۔

یہ وہ وقت تھا جب دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کے تعلقات بہت بہتر تھے۔ پاکستان نے 1987ء میں بھارت کو اسی کی زمین پر ٹیسٹ سیریز میں شکست دی تھی اور پھر 1989ء میں بھارت میں ہونے والا 6 ملکی نہرو کپ بھی جیتا تھا۔

نہرو کپ میں زبردست فتح سمیٹ کر جب قومی ٹیم وطن واپس لوٹی تو کچھ ہی ہفتوں بعد نومبر میں بھارتی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ اگر موجودہ دور ہوتا تو بھارتی کپتان شاید اس سیریز کو ’بدلے‘ کی سیریز کہتے لیکن یہ وہ دور تھا جب کپتانوں کی لغت میں ایسا کوئی لفظ نہیں تھا۔ اس کے برعکس کرش سری کانت کی کپتانی میں آنے والی بھارتی ٹیم تو پاکستان میں نئے دوست بنانے میں دلچسپی رکھتی تھی۔

اس بھارتی ٹیم میں ایک ’بچے‘ کرکٹر کی موجودگی کی خبروں کے سبب ان کے سرحد پار کرنے سے پہلے ہی پاکستانی قوم کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہوگئی۔ اس بچے کا نام سچن رمیش ٹنڈولکر تھا جس کے فرسٹ کلاس کا کارنامے پہلے ہی دھوم مچا چکے تھے۔

ان کی بہترین بلے بازی کے باوجود سلیکشن کمیٹی کے 5 اراکین میں سے 2 انہیں ٹیم میں شامل کرنے اور وسیم اکرم اور وقار یونس کی تباہ کن باؤلنگ کے حوالے کرنے میں تذبذب کا شکار تھے۔ لیکن 3 اراکین کی منظوری سے سچن ٹیم میں شامل ہوگئے۔

جب سچن ٹنڈولکر اپنے پہلے ہی ٹیسٹ میں بیٹنگ کرنے میدان میں اترے تو کراچی میں کھیلے جانے والے اس میچ میں بھارتی ٹیم کے 4 کھلاڑی محض 41 رنز کے اسکور پر پویلین لوٹ چکے تھے۔ ایک ایسا لڑکا جس پر کرکٹ کا جنون سوار تھا، اسے میں بھی 20 انچ کے فلپس کے ٹی وی پر براہِ راست دیکھ رہا تھا۔ سچن کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ میری نسل کے کسی شخص نے نیشنل اسٹیڈیم کی پچ پر قدم جما لیے ہیں۔

ٹیسٹ میچ میں ان کی بچگانہ شخصیت غیر معمولی لگ رہی تھی۔ ایسا لگا رہا تھا کہ کوئی بچہ اسکول کے میدان میں بڑے لڑکوں کے گھیرے میں کھڑا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹی وی پر سچن کو دیکھ کر شام ڈھلے تک گلی میں بیٹنگ کرنے والا ہر نوجوان پاکستانی متاثر ہوا تھا۔

ٹنڈولکر کو دیکھ کر گلی میں کرکٹ کھیلنے والے ہر لڑکے کی امید بندھی کہ اگر ایک ’لڑکا‘ اس سطح پر کرکٹ کھیل سکتا ہے تو پھر وہ بھی کھیل سکتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ پاکستان کے مشتاق محمد نے 15 سال کی عمر میں ڈیبیو کیا تھا لیکن وہ 1959ء کا سال تھا اور اس وقت ٹی وی نہیں آیا تھا، جس وجہ سے اس کا اثر مختلف تھا۔ اور پھر ’میری نسل‘ تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ میں نے ٹنڈولکر کو وقار یونس کی بال پر آن ڈرائیو پر چوکا لگاتے ہوئے دیکھا تو کس قدر حیرت ہوئی تھی۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی پہلی باؤنڈری تھی۔ لیکن میری حیرانی بہت مختصر وقت کے لیے تھی کیونکہ وقار یونس نے جلد ہی سچن کو بولڈ کردیا تھا۔ اگرچہ انہوں نے صرف 15 رنز ہی بنائے لیکن میرے مطابق ان کی اننگ کسی طور پر بھی ناکام اننگ نہیں تھی۔

ٹنڈولکر نے کل 24 گیندوں کا سامنا کیا اور وقار یونس کی بال پر 2 چوکے بھی لگائے۔ وہ وقار یونس کا بھی ٹیسٹ ڈیبیو تھا۔ وقار یونس کی گھنی مونچھیں تھیں اور وہ اپنی ’ظاہر کردہ‘ 18 کی عمر سے کچھ بڑے دکھائی دے رہے تھے۔

دوسرا ٹیسٹ اقبال اسٹیڈیم فیصل آباد میں کھیلا گیا۔ اس میچ کی دوسری اننگ میں سچن نے ٹیسٹ کرکٹ کا اپنا پہلا سنگ میل عبور کرتے ہوئے نصف سنچری اسکور کی۔ انہوں نے سنجے منجریکر کے ساتھ 149 رنز کی شراکت قائم کی اور خود 59 رنز بنائے۔ اس کے بعد وہ عمران کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ وہ اس اننگ میں واضح طور پر مطمئن نظر آرہے تھے۔ لاہور میں ہونے والی تیسرے ٹیسٹ میں انہوں نے 90 گیندوں پر 41 رنز بنائے۔

میں ایک پڑھاکو بچہ تھا لیکن ریاضی کے مضمون سے مجھے دلچسپی نہیں تھی۔ اسی وجہ سے ریاضی کی کلاس کے دوران میں اپنے بیگ سے ’ایئر اے ایم ریڈیو‘ نکالتا اور اسے اپنے کان سے لگا کر ہاتھ سے چھپا لیتا۔ یوں دیکھنے میں ایسا لگتا کہ میں بہت غور سے اپنے استاد کی باتیں سن رہا ہوں لیکن دراصل میں پاکستان اور بھارت کے مابین کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ کی کمنٹری سن رہا ہوتا تھا۔

اس وقت تک میں اس ٹیسٹ سیریز میں اس حد تک غرق ہوچکا تھا کے میرے لیے ان ذرائع سے میچ اور خاص طور پر سچن کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ آخر سچن ’ہم میں سے جو تھا‘۔

شاید یہ یوں میچ سننا اس وقت تک کا میرا سب سے بڑا ایڈونچر تھا لیکن یہ اس 16 سالہ کھلاڑی کے ایڈونچر کے سامنے کچھ نہیں تھا جو سیالکوٹ میں چوتھا اور آخری ٹیسٹ کھیل رہا تھا۔

اس میچ میں 38 رنز پر ہی بھارت کی 4 وکٹیں گر گئی تھیں لیکن پھر ٹنڈولکر نے اننگ کو سنبھالنا شروع کیا۔ پچ پر کافی گھاس تھی اور وقار یونس کی ایک باؤنسر سچن کی ناک پر بھی لگی جس سے ناک سے خون بہنے لگا۔

بعد میں خبروں میں یہ بات آئی کہ پاکستانی کپتان عمران خان نے اس وقت سچن کو آرام کرنے اور بعد میں اننگ دوبارہ شروع کرنے کا مشورہ دیا لیکن سچن نے میدان سے باہر نہ جانے کا فیصلہ کیا۔ شاید یہی وہ وقت تھا جب وہ ایک 16 سالہ لڑکے سے ایک مرد بن گئے تھے۔

کانٹے کے مقابلے کے بعد ٹیسٹ سیریز ڈرا ہوئی تو دونوں ٹیموں نے شمال کا رخ کیا جہاں انہیں شمال مغربی سرحدی صوبے (آج کے خیبر پختونخوا) کے شہر پشاور میں پہلا ایک روزہ میچ کھیلنا تھا۔

تیز بارش اور گیلی آؤٹ فیلڈ کی وجہ سے امپائروں نے فیصلہ کیا کہ میدان بین الاقوامی ایک روزہ میچ کے لیے موزوں نہیں ہے لیکن تماشائیوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے انہوں نے نمائشی میچ کی اجازت دے دی۔ میچ کی حیثیت تبدیل ہونے سے سچن سمیت سبھی کے کندھوں پر سے بوجھ ہٹ گیا۔

شاید خدا نے سچن کی کامیابی لکھ رکھی تھی۔ پہلے ناک پر لگنے والی چوٹ نے انہیں مزید مضبوط کیا اور پھر پشاور میں ہونے والے میچ میں انہوں نے بغیر کسی دباؤ کے مکمل اعتماد اور اطمینان کے ساتھ بیٹنگ کی۔ مجھے یاد ہے کہ وہ کس طرح مشتاق احمد اور عبد القادر کی گیندوں پر چھکے لگا رہے تھے۔ مجھے مرحوم عبدالقادر کے چہرے کی وہ مسکراہٹ نہیں بھولتی جیسے وہ بتا رہے ہوں کہ لٹل ماسٹر آچکا ہے۔

میری بڑی بہن بی بی سی ریڈیو کے پروگرام ’ملٹی ٹریک‘ پر موسیقی سنا کرتی تھیں۔ وہ اسے ایک شارٹ ویو ریڈیو پر ٹیون کرتی تھیں۔ انہیں دیکھ کر مجھے یہ خیال آیا کہ اگر ریڈیو پر موسیقی دستیاب ہے تو پھر کرکٹ کمنٹری بھی ہوگی۔

8 ماہ بعد جب سچن مانچسٹر کے اولڈ ٹریفرڈ میں اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری بنا رہے تھے تو خوش قسمتی سے میں پاکستان میں اپنے کمرے میں بیٹھا بی بی سی ٹیسٹ میچ اسپیشل پر کمنٹیٹروں کو ان لمحات کو بیان کرتے ہوئے سن رہا تھا۔ اس وقت یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ جس لڑکے نے کچھ ماہ قبل پاکستان میں ٹیسٹ ڈیبیو کیا تھا وہ اب مرد بن چکا ہے جو کسی بھی باؤلر کا سامنا کرسکتا ہے، اور اس نے ایسا ہی کیا۔

1990ء کی دہائی میں بھارت نے عالمی سطح کے کئی بلے باز پیدا کیے، ان میں راہول ڈریوڈ اور سارو گنگولی جیسے کھلاڑی بھی شامل تھے لیکن سچن ٹنڈولکر کی الگ ہی بات تھی۔ دنیا شاید انہیں بس ایک عظیم بھارتی بلے باز کے طور پر یاد رکھے لیکن ٹنڈولکر مجھ سمیت ان تمام پاکستانی نوجوانوں کے دلوں میں ایک خاص جگہ رکھتے ہیں جنہوں نے سچن کو کراچی کے ٹیسٹ میں ڈیبیو کرتے ہوئے دیکھا۔

کیونکہ اس وقت وہ ’ہم میں سے تھے‘۔ وہ لڑکا ہماری نسل کا تھا۔


یہ مضمون 16 مئی 2021ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

ایس ایم حسین
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔