نقطہ نظر

سانحہ پی کے 8303: ایک سال بعد بھی لواحقین کے دکھوں اور دہائیوں کا دھواں نہ چھٹا

جانی و مالی نقصان کے لیے صرف ایئر لائن یا پائلٹ ہی نہیں بلکہ ایئر ٹریفک کنٹرول، سول ایوی ایشن اور ضلعی انتظامیہ بھی جوابدہ ہیں۔

کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں پیش آئے افسوسناک طیارہ حادثے کو آج ایک سال مکمل ہوگیا ہے۔ یہ حادثہ گزشتہ 10 برسوں کے دوران ہونے والا چھٹا سویلین کریش ہے۔

اس سے قبل اسلام آباد کی فضائی حدود میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کا اے ٹی آر، ایئر بلو ایئر بس اور بھوجا ایئر کے جہاز کو حادثہ پیش آچکا ہے جبکہ کراچی میں روسی کارگو طیارہ اور چارٹر کمپنی کا طیارہ گِر کر تباہ ہوچکا ہے۔ ملتان میں پی آئی اے اور کوہاٹ میں ایئر فورس کا فوکر طیارہ پرواز کے فوری بعد گِر کر تباہ ہوا۔ ان تمام فضائی حادثات میں مجموعی طور پر 502 افراد جاں بحق ہوئے جن میں سے 5 افراد زمین پر حادثے کی زد میں آئے۔

پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 کے کریش کو ایک سال مکمل ہونے کے باوجود حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو نہ تو حادثے کی تحقیقات سے آگاہ کیا گیا ہے اور نہ ہی لواحقین کو انشورنس کی رقم یا جانی نقصان کے معاوضے کی ادائیگی ہوسکی ہے۔

اس حادثے نے متاثرین کو کس قدر صدمے سے دوچار کیا اور لواحقین کو اپنے پیاروں سے جدا ہونے کے بعد کن حالات کا سامنا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ہم نے چند متاثرہ خاندانوں کے افراد سے بات چیت کی ہے۔ اس کے علاوہ معاوضے یا انشورنس رقم کی ادائیگی اور تحقیقات سے متعلق متاثرین کے مطالبات کا جائزہ لیتے ہیں۔

نیلم برکت، ایک قابلِ فخر بیٹی

کورونا وبا کے پھیلاؤ کی وجہ سے ملکی فضائی آپریشن بند تھا۔ عید قریب تھی تو سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اندرون ملک فضائی آپریشن کو جزوی طور پر بحال کیا۔ ایسے میں طویل عرصے سے اپنے پیاروں سے دُور نیلم برکت علی نے پی آئی اے کی پرواز پی کے 8303 میں بکنگ کروائی اور کراچی میں اپنی والدہ اور بہن سے ملنے کے لیے رخت سفر باندھا۔

نیلم برکت علی کی والدہ الماس نے بتایا کہ ’27 سال قبل جب نیلم 3 سال کی تھی اس وقت ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا۔ گھر کی کفالت کے لیے انہوں نے بیوٹی پارلر میں کام کیا اور اپنی دونوں بیٹیوں کی پرورش کی‘۔ نیلم برکت علی نے اسکالر شپ پر نوٹنگھم یورنیورسٹی سے کلینیکل ایمریولوجی میں ایم فل کیا اور وہ پاکستان کی تیسرے نمبر کی ایمبریولوجسٹ قرار پائیں۔

الماس کا کہنا تھا کہ ’نیلم نے تعلیم کے بعد لندن میں رہنے کا فیصلہ کیا مگر انہوں نے اصرار کیا کہ اگر تعلیم یافتہ نوجوان ملک سے باہر رہیں گے تو یہاں کون کام کرے گا۔ والدہ کے اصرار پر نیلم نے وطن لوٹ کر لاہور کے ایک کلینک میں ملازمت شروع کردی۔

حادثے کے روز نیلم نے اپنی سہلیوں کو کہہ رکھا تھا کہ وہ انہیں ایئر پورٹ پر لینے آجائیں مگر الماس کا کہنا ہے کہ ان کا دل گھبرا رہا تھا۔ وہ تسبیح پڑھتی رہیں مگر دل کو چین نہ آیا۔ نیوز چینل لگایا تو حادثے کی خبر چل رہی تھی۔ اس کے بعد مصائب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ ان کی بیٹی علیشا اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ایک سے دوسرے ہسپتال کا چکر لگاتی رہی مگر کہیں سے بھی نیلم کے بارے میں کچھ پتا نہ چلا۔ بعدازاں الماس کے ڈی این اے کا نمونہ لیا گیا اور 9 دن بعد ڈی این اے کی مدد سے ان کا جسدِ خاکی جھلسی ہوئی حالت میں ملا۔ الماس کا کہنا ہے کہ جسم کا صرف 5 فیصد حصہ ہی قابلِ شناخت تھا۔

الماس بتاتی ہیں کہ ’جب وہ اپنی بیٹی کو غسل دینے کے لیے آئیں تو ایسا لگا کہ زمین پھٹ پڑی اور آسمان گِر پڑا ہے مگر خود کو سنبھال کر بیٹی کی لاش کو غسل دیا۔ لیکن برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے، اسی لیے اگلے ہی روز وہ کوما میں چلیں گئی۔ 3 دن تک بے ہوش رہنے کے بعد گھر واپسی ہوئی مگر بیٹی کی جدائی کا غم اب بھی ہرے زخم کی طرح تازہ ہے‘۔

الماس کو امید تھی کہ نیلم کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد ملازمت کرنے سے ان کی زندگی پُرسکون ہوجائے گی مگر ایسا نہ ہوا اور پی آئی اے 8303 کریش نے ایک مرتبہ پھر ان کے لیے زندگی ایک کڑی آزمائش بنادی ہے۔

نیلم کی والدہ اور بہن پی آئی اے کے رویے سے سخت نالاں ہیں۔ الماس کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک مکتوب پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو ارشد ملک کو تحریر کیا جس میں انہوں نے عارضی طور پر رہائش، بیٹی کی تعلیم اور گزر بسر کے لیے ماہانہ معاونت طلب کی تھی۔ وہ 3 ماہ تک ارشد ملک سے ملنے کے لیے وقت مانگتی رہیں، اور جب بارہا کوششوں کے بعد ملاقات ہوئی تو ان سے یہ سننے کو ملا کہ 'میرے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے کے پیسے نہیں ہیں تو پھر میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں‘۔

الماس نے عدالت سے ضروری دستاویزات بنوالی ہیں مگر پی آئی اے کا کہنا ہے کہ وہ آر ڈی اے پر دستخط کیے بغیر انشورنس کی رقم نہیں دیں گے (آر ڈی اے پر آگے تفصیل سے بات ہوگی)۔

نیلم کی بہن علیشا کا کہنا ہے کہ نیلم نے انہیں ماں بن کر پالا تھا اور وہ اپنے ہر فیصلے میں نیلم کی کمی محسوس کرتی ہیں۔ ہر قدم پر بہن کی یاد آتی ہے۔

علیشا بھی پی آئی اے کی انتظامیہ سے ناخوش ہیں اور وہ نہ صرف پی آئی اے کی چیف ایگزیکیٹو بلکہ پی آئی اے چیف لیگل ضیا کے رویے پر بھی کڑی تنقید کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’پی آئی اے انتظامیہ کا ان کے ساتھ رویہ نہایت تضحیک آمیز اور طنزیہ ہوتا ہے‘۔

زارا عابد، گھر کی واحد کفیل

اس بدقسمت طیارے پر ماڈل اور اداکارہ زارا عابد بھی سوار تھیں۔ زارا کی والدہ سے ملاقات ان کے چھوٹے سے کرائے کے فلیٹ میں ہوئی جہاں وہ اپنے 2 بیٹوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ زارا کے والد بھی چند سال قبل انتقال کرگئے تھے۔ زارا اپنے والدین کی پہلی اولاد تھی۔ وہ ماڈلنگ و اداکاری کے ذریعے پیسے کما کر گھر چلا رہی تھیں۔ زارا کو لکس ایوارڈ بھی مل چکا ہے اور وہ چوہدری اسلم پر بننے والی فلم میں بھی کردار ادا کررہی تھیں۔ فلم میں ان کے مناظر کی ریکارڈنگ مکمل ہوچکی تھی۔ زارا ان دنوں ایک فوٹو شوٹ کے لیے لاہور گئی ہوئی تھیں۔ زارا کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے دو بیٹے زیرِ تعلیم ہیں۔

زارا کے چھوٹے بھائی علی ایمان حادثے کے دن کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ ایئر پورٹ پر بہن کے منتظر تھے کہ اطلاع پھیل گئی کہ جہاز گِر کر تباہ ہوگیا ہے۔ وہ ایئر پورٹ سے نکل کر ایمبولینس کا پیچھا کرتے ہوئے جائے حادثہ تک پہنچے مگر وہاں تو افراتفری اور قیامت کا عالم تھا۔ جہاز بُری طرح جل رہا تھا اور فائر بریگیڈ موجود نہیں تھی۔ انہیں کسی نے بتایا کہ کچھ زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے، لہٰذا وہ کئی دنوں تک ہسپتالوں کے چکر لگاتے رہے مگر زارا مردہ خانے سے ہی ملیں۔

علی کے مطابق تدفین کے وقت پی آئی اے کے اعلیٰ افسران ان سے ملنے آئے اور انہوں نے قبر پر پھول رکھنے کے بعد وعدہ کیا کہ ان کی بھرپور کفالت کی جائے گی۔ پی آئی اے میں ملازمت اور رہائش بھی دی جائے گی مگر وہ رہائش کیا دیتے ابھی تک انشورنس کی ابتدائی رقم بھی ادا نہیں کی گئی کیونکہ پی آئی اے کی انتظامیہ آر ڈی اے پر دستخط چاہتی ہے جس پر لواحقین راضی نہیں ہیں۔

مذکورہ بالا دونوں متاثرہ خاندانوں نے اپنے پیاروں کے ساتھ ساتھ گھر کی کفالت کرنے والوں کو بھی کھو دیا اور اس وقت مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ مگر نہ تو ریاست، نہ سول ایوی ایشن اور نہ ہی پی آئی اے ان کی داد رسی کرنے کو تیار ہے۔

ریلیز اینڈ ڈسچارج ایگریمنٹ یا 'آر ڈی اے' کیا ہے؟

آر ڈی اے ایک حلف نامہ ہے جس میں مرنے والوں کے لواحقین اس بات کا اعتراف اور اقرار کرتے ہیں کہ وہ مجوزہ ایک کروڑ روپے کی رقم وصول کرنے کے بعد نہ صرف پی آئی اے بلکہ حکومتِ پاکستان، سول ایوی ایشن، ایئر پورٹ سیکیورٹی فورس کے ساتھ ساتھ حادثے کے شکار طیارے کو بنانے، ڈیزائن کرنے، انجن ساز و ڈیزائن بنانے والے، ایئربس، ای اے ڈی این، ایئر بس گروپ، لینڈنگ سسٹم، سیٹس، سیٹلائٹ، موصلاتی آلات، جنرل الیکٹرک کے علاوہ طیارے کی دیکھ بھال کرنے والے، طیارے کے مالک، لیز پر لینے والے، جناح ٹرمینل پر تعینات ایئر ٹریفک کنٹرول یا محکمہ موسمیات میں سے کسی کے بھی خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کرسکیں گے۔

گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اس حوالے سے 2 اجلاس گورنر ہاؤس میں منعقد کیے مگر وہ بھی بے سود ثابت ہوئے۔ وزارتِ قانون نے مؤقف دیا کہ پی آئی اے کو 50 لاکھ روپے فوری ادا کرنے چاہئیں جس پر عمران اسماعیل نے یہی موقف اختیار کیا کہ ان متاثرین کو ’50 لاکھ روپے فوری طور پر دیے جائیں‘، مگر پی آئی اے کی اتنطامیہ کہہ رہی ہے کہ وہ آر ڈی اے پر دستخط کے بغیر انشورنس کی رقم ادا نہیں کریں گے جبکہ لواحقین کا کہنا ہے کہ پشاور ہائی کورٹ آر ڈی اے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔

طیارہ حادثے کے لواحقین کا کہنا ہے کہ ’کیا حادثے میں مرنے والوں اور زندہ بچ جانے والوں کو ایک جیسا ہی انشورنس ادا کیا جائے گا؟‘ حادثے میں زندہ بچ جانے والے 2 افراد کو بھی ایک کروڑ روپے کی رقم ادا کی جارہی ہے جبکہ جاں بحق ہونے والے اپنے گھروں کے واحد کفیلوں کے لیے بھی ایک کروڑ روپے کی ادائیگی کی جارہی ہے۔

عظمت اللہ کے بڑے بھائی محمد مسرت یار خان اپنی بھتیجی اقرا شاہد کے ساتھ پی کے 8303 کریش میں جاں بحق ہوئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فضائی حادثے کی صورت میں انشورنس کی ابتدائی رقم کیا ہوگی، اس سے متعلق 3 دستاویزات ہیں۔ پہلا قانون جو کریئر بائی ایئر ایکٹ 2012ء کہلاتا ہے، جس میں ابتدائی معاوضہ 50 لاکھ روپے ہوگا جبکہ حتمی رپورٹ میں ذمہ داری کا تعین ہونے کے بعد ہر فرد کی انفرادی حیثیت کے مطابق انشورنس یا جانی نقصان کا معاوضہ مقرر کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ پی آئی اے نے نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ (این آئی سی ایل) اور مارش (لندن میں موجود ایک عالمی انشورنس کمپنی جو کاروباروں کو ناگہانی آفات کی صورت میں بیمہ کا تحفظ فراہم کرتی ہے)، کے مطابق ایک لاکھ 35 ہزار ایس ڈی آر (یہ دنیا کی بڑی کرنسیوں کی ایک باسکٹ ہے، جس میں ڈالر، برطانوی پاؤنڈ، یورو، ین اور یوان شامل ہیں۔ اس کو آئی ایم ایف قرضہ دینے کے لیے استعمال کرتا ہے) جس کی مالیت پاکستانی روپے میں 5 کروڑ بنتی ہے۔ اس کے علاوہ سول ایوی ایشن نے مسافروں کے حقوق کے حوالے سے ایک اعلامیہ ایئر پورٹس پر آویزاں کیا ہوا ہے، جس میں ڈیڑھ لاکھ ڈالر انشورنس کی رقم درج کی گئی ہے۔ تاہم پی آئی اے ابتدائی معاوضے کو ہی اصل اور حتمی معاوضہ قرار دے کر آر ڈی اے پر دستخط کروانا چاہتی ہے۔

جیند حامد نے سال 2012ء میں ایئر بلو کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے میں اپنے پیاروں کو کھویا تھا۔ اس حادثے کے بعد سے وہ پاکستان کے فضائی سفر میں بہتری لانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور انہوں نے 'ایئر بلو کریشن ایفکٹیز ایسوسی ایشن' کے نام سے ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کی ہے جو لواحقین کی عالمی تنظیم ایئر کریش وکٹمز فیملیز فیڈریشن انٹرنیشنل (اے سی وی ایف ایف آئی) کی بانی رکن بھی ہے۔ عالمی تنظیم کے 10رکن ممالک ہیں اور اسے انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن نے مبصر کا درجہ دیا ہے۔ یہ تنظیم عالمی سطح پر فضائی سفر اور حادثات کی صورت میں پالیسی سازی اور قانون سازی میں معاونت فراہم کرتی ہے۔

جنید حامد کا کہنا ہے کہ ایئر بلو کریش کے بعد ان کی جدوجہد سے کریئر بائی ایئر ایکٹ 2012ء پارلیمنٹ سے منظور ہوا۔ سال 2018ء میں لواحقین کو عدالت نے 50 لاکھ روپے کی رقم دلوائی جبکہ ایئر بلو حادثے کا مقدمہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے جس میں حتمی ذمہ داران کے تعین کے بعد حقیقی اور اصل خون بہا کا فیصلہ ہوگا۔

جنید حامد کی تنظیم پی آئی اے طیارہ حادثے کے لواحقین کی بھی معاونت کررہی ہے۔ وہ پی کے 8303 طیارہ حادثے کے متاثرین کے ساتھ مل کر ان کا حق دلوانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ پی آئی اے آر ڈی اے دستخط کرائے بغیر 50 لاکھ روپے فوری ادا کرے اور حتمی رپورٹ کے بعد ذمہ داران کا تعین ہونے پر جانی نقصان کا حقیقی معاوضہ ادا کیا جائے۔

شکیل آفتاب کشمیر والا کا نام شہری ہوا بازی میں ایک مستند نام ہے۔ وہ ایتھوپیا کے اعزازی قونصل جنرل بھی ہیں اور بطور چیف ایگزیکیٹو ایتھوپیا ایئر لائن کی تنظیم نو کی جو اس وقت ایتھوپیا ایئر افریقا کی صفِ اول کی ایئر لائن مانی جاتی ہے۔ شکیل آفتاب کا کہنا ہے کہ ’فضائی حادثے کی صورت میں اگر جانی و مالی نقصان ہو تو اس کے لیے مونٹریال کنونشن 99 موجود ہے، جس میں مرنے یا زخمی ہونے پر معاوضے کا تعین کا طریقہ کار دستیاب ہے‘۔

مرنے کی صورت میں ابتدائی معاوضہ دینے کے بعد ایئر لائن مرنے والے کی سماجی و معاشی حیثیت، تعلیم، ازدواجی حیثیت، زیرِ کفالت افراد، عمر، کرنسی کی ڈی ویلیو ایشن کا تعین کرکے حتمی معاوضہ طے کرتی ہے۔ دنیا بھر میں جب ایئر لائنز اپنی انشورنس کرانے جاتی ہیں تو طیارے اور اس کے پے لوڈ، بشمول مسافر اور گارگو کی انشورنس کی جاتی ہے۔

مونٹریال کنونشن کے مطابق معاوضے کی ادائیگی کے باوجود اگر لواحقین مطمئن نہ ہوں تو انہیں عدالتی چارہ جوئی کا اختیار دیا جاتا ہے اس لیے پی آئی اے کا آر ڈی اے پر دستخط کرانے کا مطالبہ قانونی اور انسانی حقوق کی بنیاد پر درست نہیں ہے۔

اگر شکیل آفتاب کے بیان کردہ قانون کا اطلاق درست طور پر کیا جائے تو پی کے 8303 کے لواحقین ایک کروڑ روپے سے کہیں زیادہ بڑی معاوضے کی رقم کے مستحق ہیں۔ پاکستان کی مایہ ناز ایمبریولوجسٹ نیلم برکت کی تو سالانہ تنخواہ اور زارا کی سالانہ آمدنی ایک کروڑ روپے سے زائد ہی بنتی ہوگی۔

زرقا چوہدری، جنہوں نے اپنے والد کو اس حادثے میں کھویا ہے، وہ کہتی ہیں کہ ان کا مقصد پیسے کا حصول نہیں ہے بلکہ وہ فضائی سفر میں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہیں تاکہ ان کی طرح کسی دوسرے کو اپنے پیاروں کا غم نہ منانا پڑے۔

حادثے میں جاں بحق ولید بیگ کی بہن کنول ارسلان کہتی ہیں کہ ایئر ٹریفک کنٹرول نے طیارے کو گو اراؤنڈ کا کہا مگر ایسا نہیں کیا گیا، ایئر ٹریفک کنٹرول نے پائلٹ کو نہیں بتایا کہ اس کے لینڈنگ گیئر کھلے ہوئے نہیں ہیں۔

جب انجن رن وے سے ٹکرا گئے تھے تو ایئر ٹریفک کنٹرول نے دوبارہ اڑان بھرنے کی اجازت کیوں دی اور طیارے کو ایک لمبا چکر کاٹ کر آنے کا کیوں کہا، ان تمام سوالات کے جوابات درکار ہیں۔ جب طیارہ گِر گیا تو آگ بجھانے میں تاخیر ہوئی جس سے لوگ یا تو زندہ جل گئے یا لاشیں جلتی رہیں۔ فائر برگیڈ کے پاس نہ تو پانی تھا نہ آگ بجھانے کا کیمیکل، اس لیے وہ مطالبات کی فہرست پیش کرتی ہیں۔

اس پورے معاملے پر پی آئی اے اور سول ایو ایشن کا مؤقف لینے کی کوشش کی گئی مگر سول ایوی ایشن کے ترجمان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا جبکہ پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ ایچ خان کا کہنا ہے کہ طیارہ حادثے میں جاں بحق افراد کے 32 لواحقین کو انشورنس کی رقم ادا کردی گئی ہے۔

آر ڈی اے سے متعلق عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’پی آئی اے کا اس پر کوئی اصرار نہیں ہے، نہ انشورنس کمپنی کی دستاویز ہے۔ انشورنس کمپنی کی طرف سے مکمل ادائیگی کی رقم ایک کروڑ 11 لاکھ روپے فی مسافر ہے جبکہ لواحقین اس کو ابتدائی ادائیگی گردانتے ہیں۔ یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے‘۔

جائے حادثہ کی تصاویر بشکریہ ایجنسیز

پی آئی اے کے نظام میں بہتری کے حوالے سے عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’حتمی رپورٹ میں کی جانے والی سفارشات کی روشنی میں اقدامات اٹھائے جائیں گے مگر ابتدائی طور پر فلائٹ سیفٹی شعبے کو مضبوط کیا گیا ہے۔ سیفٹی منیجمنٹ سسٹم اور فلائٹ ڈیٹا مانیٹرنگ کے نظام کو ایئر بس اور بوئنگ کے تعاون سے فعال کیا گیا ہے‘۔

پی آئی اے کے طیارہ حادثے کو ایک سال مکمل ہونے کے باوجود ادارے اور لواحقین کے درمیان تنازع حل نہیں ہوسکا ہے۔ یہ واضح رہے کہ جہاز سے اترنے تک مسافر کی ذمہ داری ایئر لائن اور اس ایئر لائن کو لائسنس دینے والی اتھارٹی کے سر ہوتی ہے۔ مگر جیسا کہ لواحقین کی باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ طیارہ حادثے کے بعد پی آئی اے کی جانب سے انہیں کوئی خاطر خواہ معلومات فراہم نہیں کی گئی اور حادثے کے بعد کوئی کمانڈ اور کنٹرول دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

اس فضائی حادثے کے متاثرین کی باتوں سے یہ بات بھی آشکار ہوئی ہے کہ جانی و مالی نقصان کے لیے صرف ایئر لائن یا پائلٹ ہی نہیں بلکہ ایئر ٹریفک کنٹرول، سول ایوی ایشن اور ضلعی انتظامیہ بھی جوابدہ ہیں۔ لواحقین کی جانب سے طیارے کی آگ بروقت نہ بجھانے کی شکایت کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے اس حوالے سے بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔


راجہ کامران شعبہ صحافت سے 2000ء سے وابستہ ہیں۔ اس وقت نیو ٹی وی میں بطور سینئر رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔