عشروں پر محیط پاکستان سعودی عرب تعلقات کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ایسا دھچکا لگا کہ اب وزیرِاعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کو دنیا بھر کے میڈیا میں غیر معمولی اہمیت دی گئی اور اس دورے کو تعلقات میں بحالی یا بہتری کی کوشش سے تعبیر کیا گیا۔
تحریک انصاف کی حکومت بھی اس دورے کو ملکی سیاسی مقاصد کے لیے غیر ضروری طور پر اچھال رہی ہے، حالانکہ یہ دورہ کن حالات میں ہوا سب کے علم میں ہے اور اس دورے سے وابستہ امیدیں کس حد تک پوری ہوئیں وہ بھی حکمران جماعت سے ڈھکا چھپا نہیں۔
یہ دورہ ایسے حالات میں ہوا ہے کہ جب تیل پر انحصار کرنے والا سعودی عرب اپنی معیشت کو متنوع بنانے کے لیے جنوبی ایشیا کی دیگر قوموں کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا ہے اور پاکستان اپنے پرانے دوست کی ناراضگی دُور کرنے کی تگ و دو کر رہا ہے۔
وزیرِاعظم عمران خان کے ریاض پہنچنے سے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ان کے دورے کے لیے حالات سازگار بنانے میں لگے ہوئے تھے۔ تعلقات میں بگاڑ اس قدر تھا کہ کچھ غیر ملکی صحافیوں نے اسے تعلقات کے نئے آغاز سے بھی تعبیر کیا۔
اسلام آباد اور ریاض کئی عشروں سے اسٹریٹیجک پارٹنر ہیں اور ریاض نے ہمیشہ بُرے وقت میں توقعات سے بڑھ کر پاکستان کی مالی مدد کی ہے۔ 1960ء کے عشرے سے پاکستان کو جس قدر مالی مدد ریاض سے ملی اتنی مدد کبھی کسی دوسرے ملک نے نہیں کی۔
پاکستان کو قرض میں دی گئی رقوم بھی امداد میں تبدیل کی جاتی رہیں اور اسلام آباد نے کبھی ریاض سے لیے گئے قرضے واپس نہیں کیے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں سیکیورٹی تعاون سب سے بڑا عنصر رہا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں یہ نوبت بھی آئی کہ پاکستان کے زرِمبادلہ ذخائر کو سہارا دینے کے لیے دیے گئے 3 ارب ڈالر ریاض نے واپس طلب کیے، جس کی واپسی کے لیے اسلام آباد نے 2 ارب ڈالر چین سے لیے اور پھر تجدید تعلقات کی بات چلی تو ریاض نے ایک ارب ڈالر کی آخری قسط واپس لینے سے گریز کیا۔ اس 3 ارب ڈالر نقد کے ساتھ 3 ارب ڈالر مالیت کے ادھار تیل کا بھی وعدہ تھا لیکن تعلقات میں بگاڑ آنے پر اس معاہدے کی بھی تجدید نہ ہو پائی۔
پاک سعودی تعلقات میں بگاڑ کی ابتدا 6 سال پہلے سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے دور میں ہوئی تھی جب یمن جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان سے فوجی مدد طلب کی تھی لیکن پاکستان نے اپنی جغرافیائی مجبوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس جنگ میں کودنے سے انکار کیا۔ سعودی عرب، جس کے ساتھ تعلقات کی بنیاد ہی سیکیورٹی تعاون پر تھی، وہ اس انکار پر برافروختہ ہوا اور تعلقات کو شدید دھچکا لگا۔
اسی دوران سعودی عرب نے جنوبی ایشیا کی دیگر اقوام کے ساتھ تعلقات بڑھانے شروع کیے جن میں پاکستان کا روایتی حریف بھارت بھی شامل ہے۔ اپریل 2016ء میں بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی نے ریاض کے دورے کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کے نئے دور کی بنیاد رکھی۔ نئی دہلی اور ریاض کی قربتوں نے اسلام آباد کو پریشان کیا اور پاکستان نے ریاض کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے سیکیورٹی سے ہٹ کر نئی راہیں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر سعودی سرمایہ کاروں کو ترغیب دینے کے لیے پُرکشش پیشکش تیار کی گئی۔ تعلقات کی بنیاد چونکہ سیکیورٹی تعاون ہی تھا اور بگاڑ بھی اسی وجہ سے آیا تھا، اس بنا پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے آخری چند ماہ میں اہم اقدامات کیے۔ یمن جنگ میں شرکت تو ممکن نہ تھی لیکن پاکستان نے سعودی اتحاد کی میز پر اپنا جھنڈا رکھ دیا اور سعودی افواج کی تربیت کے بہانے دستے بھجوا دیے۔
تعلقات کو سیکیورٹی تعاون تک محدود رکھنے کے بجائے متنوع بنانے کی خاطر سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے وسیع تعاون کی بنیاد ڈالی۔ سعودی عرب کے ساتھ اقتصادی اور ثقافتی پیکج پر مذاکرات کیے، اور دونوں ملکوں کے درمیان سماجی اور ثقافتی تبادلوں کو بڑھانے کا معاہدہ کیا. پاکستانی مزدوروں کے لیے سعودی عرب کی ورک فورس میں کوٹہ بھی بڑھایا گیا اور سعودی عرب کے ساتھ آئل ریفائنری لگانے اور ایل این جی پلانٹس کی تنصیب کے معاہدے ہوئے۔
تعلقات میں بہتری اور توسیع کے لیے ماحول مکمل سازگار تھا لیکن پھر پاکستان میں انتخابات کے نتیجے میں حکومت بدل گئی۔ عمران خان وزیرِاعظم بنے اور پہلا غیر ملکی دورہ بھی سعودی عرب کا کیا لیکن بغیر کسی تیاری اور خارجہ امور کی تفہیم سے عاری اس دورے نے پاکستان کی کوئی مدد نہ کی۔
معاشی مشکلات سے پریشان وزیرِاعظم عمران خان نے ترکی، ایران اور ملائیشیا کی جانب دیکھنا شروع کیا اور کوالالمپور سربراہ کانفرنس کو اسلامی کانفرنس کے متبادل پلیٹ فارم کے طور پر پراجیکٹ کیا گیا۔ دسمبر 2019ء میں ہونے والی یہ 5 ملکی سربراہ کانفرنس پاک سعودی تعلقات میں نیا موڑ لائی۔ پاکستان کو سعودی دباؤ کی وجہ سے پیچھے ہٹنا پڑا اور سعودی عرب سے تعلقات پھر کشیدہ ہوگئے۔
ایک بار پھر سعودی عرب کو پاکستان کی ضرورت آن پڑی کیونکہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد امریکا اور یورپی ممالک سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ناراض تھے اور انہوں نے ڈیووس کی طرز پر بلائی گئی سرمایہ کاری کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ محمد بن سلمان نے ان حالات میں پرانے اتحادی پاکستان کی طرف دیکھا اور یہی موقع تھا جس کی اسلام آباد کو تلاش تھی۔
ریاض نے اسلام آباد کو 6 ارب 20 کروڑ ڈالر کا پیکج دے دیا۔ اس مالی مدد سے پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکلنے میں مدد ملی، فروری 2019ء میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اسلام آباد پہنچے اور اس دورے کے دوران شاہد خاقان عباسی حکومت کے ساتھ طے پانے والے اقتصادی اور ثقافتی پیکج پر دستخط کیے۔