تن کا کپڑا اور منہ کا نوالہ
وہ 8 اگست 1879ء کو میکسیکو کی ریاست ماریلوز میں ایک کسان کے گھر پیدا ہوا۔ 10 بہن بھائیوں میں اس کا نمبر نواں تھا۔ اس کا باپ گھوڑوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کرتا اور بیچ ڈالتا۔ وہ صرف 17 سال کا تھا کہ اس کے والد کا انتقال ہوگیا اور بہن بھائیوں کی پرورش کی ذمہ داری اس کے کاندھوں پر آن پڑی۔
اسے کسانوں کے حقوق کے لیے احتجاج کرنے پر 1897ء میں گرفتار کیا گیا اور پھر رہا کردیا گیا۔ اس نے 6 ماہ کے لیے فوج میں بھی شمولیت اختیار کی پھر وہاں سے نکال دیا گیا۔
پہلے پہل اس نے اپنے والد کا کام سنبھالا، پھر 10 خچر خریدے اور کسانوں کی مکئی کھیتوں سے شہر تک ڈھونے کا کام شروع کردیا۔ جب اس کام میں اسے منافع حاصل ہوا تو اس نے اینٹیں اور چونا تعمیرات کی جگہ پر پہنچانے کا کام شروع کردیا۔ اسے اپنے اس کاروبار پر فخر تھا مگر بنیادی طور پر وہ کسان تھا۔ اس نے ایک جگہ کہا کہ 'اس کی زندگی کا سب سے خوشگوار دن وہ تھا جب اس نے اپنے ہاتھ سے بوئے ہوئے تربوز بیچ کر 500 یا 600 پیسوز (میکسیکن کرنسی) کمائے تھے'۔
ماریلوز میں رہنے والوں کے لیے سب اچھا چل رہا تھا مگر پھر میکسیکو سٹی اور ویراکوز نامی بندرگاہ کو جوڑنے والی ایک ریلوے لائن ان کے شہر سے بھی گزری جس کے سبب سفری لاگت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگئی۔ یاد رہے کہ اس وقت ماریلوز گنے کی پیداوار والا دنیا میں تیسرا بڑا شہر تھا۔ بڑے جاگیردار چاہتے تھے کہ ان کے پاس زیادہ سے زیادہ زمین آجائے تاکہ ان کے منافع میں اضافہ ہو۔ اس کے لیے بڑے زمینداروں نے چھوٹے کسانوں کی زمینیں ہتھیانا شروع کردیں۔ اس نے بچپن میں اپنے والد کو روتے ہوئے دیکھا تھا جب ایک زمیندار نے اس کے والد کے خاندانی باغیچے پر قبضہ جما لیا۔ پھر اس کے سامنے ایک غریب کسان کا گھر جلا دیا گیا۔ یہ مناظر اس کے دل و دماغ پر رقم ہوگئے۔
اس کی زندگی میں انقلاب تب آیا جب 1909ء میں گاؤں والوں نے صرف 30 سال کی عمر میں اسے اپنا سربراہ چُن لیا۔ اس کے بعد اس نے اپنی ذہنی وسعت میں اضافے کے لیے مطالعہ شروع کردیا۔ اسکول کے 2 اساتذہ جو بے روزگار تھے انہوں نے اس کی ذہنی بالیدگی میں کردار ادا کیا۔
پڑھیے: ’حکومت ہماری مدد کرے، ہم 20 ارب ڈالر کی برآمدات کی ضمانت دیتے ہیں‘
اس نے کسانوں کی وہ زمین جو زمینداروں نے زبردستی لے لی تھی، اس کی واپسی کے لیے قانونی کوششیں کیں۔ ناکامی کی صورت میں اس نے چند مسلح ساتھیوں کی مدد سے زمیندار سے کسانوں کی زمین واپس لے لی۔ یہ اس کی گوریلا فورس کارروائیوں کی ابتدا تھی۔
1910ء میں ایک اہم واقعہ ہوا جب میکسیکو کے آمر پروفریو ڈیاز کے خلاف الیکشن لڑنے اور ہارنے کے بعد ایک زمیندار فرانسسکو میڈیرو نے امریکا میں پناہ لے لی۔ وہاں میڈیرو نے خود ساختہ صدر ہونے کا اعلان کردیا اور دوبارہ میکسیکو آگیا۔
میڈیرو اس کے خیالات سے متفق تھا۔ دونوں کا خیال تھا کہ کسانوں کو ان کا حق دیا جانا چاہیے اور جاگیردار ان کا استحصال بند کریں، چنانچہ اس نے اپنے ساتھیوں سمیت میڈیرو کی حمایت کا فیصلہ کرلیا۔ مارچ 1911ء میں اس نے اپنی چھوٹی سی فوج کی مدد سے ایک اہم شہر کواوٹلا پر قبضہ کرلیا اور ایک سڑک بند کردی جو میکسیکو سٹی کو اس اہم شہر سے ملاتی تھی۔
ایک ہفتے بعد ہی آمر ڈیاز نے استعفیٰ دے دیا اور یورپ بھاگ گیا۔ جلد میڈیرو 1911ء میں اقتدار میں آگیا مگر انقلاب کا وعدہ وفا نہ کرسکا۔ میڈیرو نے اس سے کہا کہ ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال دے مگر اس نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا کیونکہ میڈیرو نے زرعی اصلاحات نافذ نہیں کیں اور حکومتی فوج نے اس کے ساتھیوں کو قتل کرنا شروع کردیا۔ یہ ایک افراتفری کا دور تھا۔ 1913ء میں ایک آمر وکٹرانیو ہیورٹا آیا جس نے میڈیرو کی حکومت کا تختہ الٹ کر اسے قتل کردیا۔ اگلے ہی سال 1914ء میں کارنزا نے میکسیکو کا اقتدار سنبھال لیا۔
پڑھیے: بھارتی کسانوں کا احتجاج آخر کیا رنگ لائے گا؟
مگر وہ اور اس کے ساتھی بدلتی حکومتوں کے باوجود سادہ سے نعرے 'زمین اور آزادی' کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے۔ کارنزا کو اپنی حکومت مستحکم کرنی تھی لیکن اس کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ وہی تھا۔ کارانز نے اس سے نمٹنے کے لیے اپنے معتمد خاص جنرل گونزیلس کو ٹاسک سونپا۔ جنرل نے اپنے نائب کرنل وخاردو Guajardo ( تلفظ کی غلطی ہو تو معاف کیجیےگا) کو یہ کام سونپا۔
کرنل وخاردو نے اس سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اپنے 800 ساتھیوں سمیت صدر کارنزا کی فوج کو چھوڑ کر اس کے ساتھ شامل ہونا چاہتا ہے۔ اسے اس بات پر شک گزرا، اس لیے اس نے وخاردو کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے کارنزا کے زیرِ تسلط ایک شہر پر قبضہ کرنے کے لیے کہا۔ کرنل وخاردو نے ایسا ہی کیا اور لڑائی میں جو قیدی بنے انہیں بے دردی سے قتل کردیا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی کیسے اپنے ہی حامی فوجیوں کو قتل کرسکتا ہے؟ اسے کرنل کی وفاداری پر یقین آگیا۔ اسے خبر بھی نا ہوئی کہ یہ سب ایک سوچے سمجھے پلاٹ کا اہم حصہ ہے۔
کرنل وخاردو نے اسے 2 نایاب گھوڑے تحفتاً بھیجے اور کھانے کی دعوت دی۔ اسے بچپن سے ہی گھوڑوں سے خاص لگاؤ تھا۔ وہ اس تحفے پر بہت خوش ہوا اور کرنل سے ملاقات کی ہامی بھرلی جو اس کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہوئی۔
وہ کرنل سے ملاقات کے لیے مقررہ مقام پر صرف 10 محافظوں کے ساتھ گیا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو اسے گارڈ آف آنر دیا گیا اور اسی دوران اس کے سینے پر گولیوں کی بارش کردی گئی۔ 10 اپریل 1919ء کو صرف 40 سال کی عمر میں وہ اس دنیا سے چلا گیا۔ دنیا اسے 'ایمیلیانو زاپاٹا' کے نام سے جانتی ہے۔ وہ سادہ سا انسان تھا جس کا نعرہ 'زمین اور آزادی' بھی سادہ تھا، مگر وہ کسانوں کے حقوق کی خاطر چٹان کی طرح کھڑا رہا۔ اس کی ریاست موریلوز میں زرعی اصلاحات، اس کی وفات کے بعد ہوئیں۔ آج بھی میکسیکو میں اس کا نام ہیرو کے طور پر لیا جاتا ہے۔
(مندرجہ بالا تاریخی حقائق مختلف تاریخی حوالوں سے اخذ کیے گئے ہیں)
یورپ میں جب 18ویں اور 19ویں صدی میں زرعی و صنعتی انقلاب برپا ہوچکے تو 20ویں صدی میں کم لاگت سے زیادہ پیداوار کی طرف توجہ دی گئی۔ نئے بیج بنائے گئے اور کھادوں کا استعمال بھی بڑھا جس سے تمام فصلوں کی اوسط پیداوار دوگنا سے بھی زیادہ ہوگئی۔ ملکی ضروریات پوری کرنے کے بعد اجناس دوسرے ممالک بھیج کر زرِمبادلہ کمانا شروع کردیا گیا۔ اس موقعے پر ماہرینِ معاشیات نے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ یہ دیکھا جائے کہ کس ملک کی زمین کس فصل کے لیے زیادہ بار آور ہے اور اپنے ملک میں کس فصل کی کاشت سود مند رہے گی اور کون سی اجناس باہر سے منگوانا فائدے مند ہوں گی؟
یہ معیشت کا سادہ سا اصول 20ویں صدی سے رائج ہے مگر ہم شاید کوئی نئے اصول معاشیات ڈھونڈنے چلے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے وہ علاقے جہاں ہر سو کپاس کے کھیت لہلہاتے تھے یا گندم کے بالیاں ہوا میں محوِ رقص ہوتی تھیں، اب وہاں کماد کی فصل پہرہ دیتی معلوم ہوتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہالینڈ میں پھولوں کے پودے اُجاڑ کر گیہوں کے کھیت بسا دیے جائیں، یہ ذہن میں رہے کہ ہالینڈ ہر سال پھولوں کی برآمد سے اربوں ڈالر کماتا ہے۔
جس زمین پر ایک بار گنا بودیا جائے وہاں عموماً 2 سے 3 سال صرف گنا ہی اگایا جاتا ہے۔ ورنہ سال میں 2 فصلیں کپاس اور گندم بوئی جاتی ہیں۔ کرشنگ سیزن میں کسان شوگر ملوں میں گنا پھینکنے کے لیے پرمٹ کی غرض سے جس طرح ذلیل و رسوا ہوتے ہیں وہ ایک کسان جانتا ہے یا اس کا خدا۔ ہر ٹرالی پر 'کاٹ' کا کلہاڑا فیکٹری مالکان کی مرضی سے چل جاتا ہے۔
غریب کسان کو پہلے تو مناسب ریٹ نہیں ملتا، اگر ریٹ مل جائے تو پھر وقت پر ادائیگیاں نہیں ہوتیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس پر شکرانے کے نوافل ادا کرتا ہے کہ اس کی ٹرالی شوگر مل میں داخل تو ہوگئی۔
کپاس ہماری 'کیش کروپس' کی ملکہ گردانی جاتی تھی۔ کپاس چُننے والی 'چونیاں' روزانہ کی بنیاد پر کپاس کی چُنائی کرتیں اور شام کو کپاس بیچ کر اپنے گھر کے چولہے جلاتی ہیں۔ یہ محنت کش خواتین سارا سال کپاس کے سیزن کا انتظار کرتی ہیں تاکہ ان کو روزی میسر ہوسکے۔ دوسری طرف زمیندار کپاس کو مارکیٹ میں بیچ کر اسی دن پیسے لے لیتا ہے اور ان کو خرچ کرکے معیشت کا پہیہ چلاتا ہے۔
شاید پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا معاشی المیہ جنم لینے کو ہے۔ بدقسمتی سے امسال کپاس کی پیداوار میں تقریباً 35 فیصد کمی آئی ہے۔ پچھلے سال پیداوار 80 لاکھ سے زائد بیلز تھی جو کم ہوکر 55 لاکھ بیلز رہ گئی ہے۔ اگر کوئی اور ملک ہوتا تو زرعی ایمرجنسی کا نفاذ ہوجاتا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جس کی معیشت یا تو زراعت پر منحصر یا پھر ٹیکسٹائل کی صنعت پر۔ جب صنعتکاروں کو اپنے ملک سے نسبتاً سستی روئی یا دھاگہ نہیں ملے گا تو وہ کیسے فیکٹریاں چلائیں گے؟
اگر کپاس چین، بھارت یا کسی بھی دوسرے ملک سے منگوائی جائے گی تو اس کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا۔ بجلی کے نرخ پہلے ہی آسمان پر ہیں، اگر خام مال بھی پاکستان سے نہیں ملا تو ہماری ٹیکسٹائل صنعت بند ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجائے گا۔
ہمارے وہ معاشی 'ارسطو حضرات' جو جنوبی پنجاب میں کپاس اور گندم کی فصل کے لیے مخصوص رقبے پر 'اندھا دھند' گنے کی فصل کاشت کروا رہے ہیں، انہوں نے اتنی سادہ سی بات نہیں سوچی کہ کپاس اور گندم کی ملکی ضروریات کہاں سے پوری ہوں گی؟
کیا یہ دونوں باہر سے منگوانا پڑیں گی؟
عجب تماشا یہ ہے کہ سارا ملک 80 شوگر ملوں کی مشینوں کو گرم رکھنے کے لیے گنا پیدا کر رہا ہے۔ ہر سال ملکی ضرورت سے زیادہ چینی پیدا ہوتی ہے جو برآمد کردی جاتی ہے۔
سرمایہ کار اس پر سبسڈی لے لیتے ہیں اور پھر خبر آتی ہے کہ ملک میں چینی کی قلت پیدا ہوگئی ہے، اس لیے اب چینی درآمد کرلی جائے۔ یہ پاکستانی عوام کے ساتھ بھونڈا مذاق ہے۔ مجھے گلہ سیٹھوں سے نہیں، ان کا تو کام ہی پیسہ بنانا ہے، وہ تو نیند میں بھی پیسے گنتے ہیں، شکوہ اپنی حکومتوں سے ہے۔ اگر غریب عوام نے آخر میں روس کی چینی 100 روپے کلو ہی خریدنی ہے تو کیوں نہ ملکی ضرورت کی ایک وافر مقدار پہلے ہی برازیل، میکسیکو، روس یا اپنے یار چین، امریکا یا 'دشمن' بھارت سے منگوا لیں؟
کپاس اور گندم پہلے کی طرح بوئی جاتی رہیں بلکہ نئے بیج بنائے جائیں۔ پانی لگانے کے فرسودہ نظام کو ختم کرکے فوارے لگائے جائیں۔ نئی زرعی پالیسی لائیں تاکہ آنے والے دنوں میں ملک کو گندم اور کپاس کے بحران سے بچایا جاسکے۔ ورنہ وہ دن دُور نہیں جب غریب کے تن کا کپڑا اور منہ کا نوالہ بھی چھن جائے گا، پھر یہ بے چارہ نہ جانے کیا کر گزرے۔
سلمان احمد صوفی کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ انہوں نے شعبہ اردو میں ماسٹرز اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ایم فل کیا ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے لیکچرار ہیں۔ وہ شاعر بھی ہیں اور لکھنے اور کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔