نقطہ نظر

قحط الرجال کی انتہا

چند لوگ ہی ہیں جو گھوم پھر کر اس ملک کی معیشت کو چلانے کا ہنر سیکھ رہے ہیں یا یوں کہیے کہ ڈبونے کی کوششوں میں حصہ ڈال رہے ہیں۔

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں

سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

یہ 1556ء کے عام دنوں سا اک دن تھا، سورج ڈھل رہا تھا اور شام ہونے کو تھی، جب مغل بادشاہ ہمایوں سوچوں میں گم اپنے کتب خانے کی سیڑھیوں سے اتر رہا تھا اور اس دوران اس کا پاؤں پھسل گیا اور نیچے کی طرف لڑھکتا ہی چلا گیا، جس کے باعث اسے شدید چوٹیں آئیں جو جان لیوا ثابت ہوئیں۔ اس حادثے پر مشہور یورپی مؤرخ اسٹینلے لین پول نے کہا کہ ‘اس نے تمام عمر ٹھوکریں کھائیں اور بالآخر ٹھوکر کھاکر مرا’۔

وہ سلطنت جس کی خاطر ہمایوں نے بہت مشکلات کا سامنا کیا، وہ اس کی وفات کے بعد اک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوگئی۔

ہمایوں کا بیٹا 14 سال کی عمر میں اقتدار کی کرسی پر بیٹھا تو اسے دنیا کا زیادہ علم نہیں تھا، مگر اس کی قسمت اس پر مہرباں تھی کہ اس کا اتالیق بیرم خان جیسا زیرک شخص تھا جس نے ابتدا میں اس کی حکومت کو استحکام بخشا، مگر جب وہ 18 سال کا ہوا تو اس نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا تو دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے۔ ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔ اس نے بیرم خان کو اس کے عہدے سے ہٹادیا اور اسے کو مکہ چلے جانے کا مشورہ دیا۔

بیرم خان مکہ جارہا تھا کہ راستے میں ہی کسی نے اس کو قتل کردیا۔ یہ برِصغیر کی تاریخ کے ایک اہم کردار کا دردناک انجام تھا۔ وہ نوجوان اور ان پڑھ بادشاہ ضرور تھا مگر کم عقل ہرگز نہیں تھا۔ اس نے حکمرانی کا وہ نایاب اصول متعارف کروایا جس پر تاریخ آج بھی نازاں ہے۔ اس نے اپنے اردگرد ایسے نایاب لوگ جمع کیے جو اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے حامل تھے، جن کی تعداد 9 تھی، اور اسی وجہ سے وہ ‘نو رتن’ کہلائے۔ انہی کے بل پر اس نے ہندوستان پر تقریباً 50 سال حکومت کی اور تاریخ میں جلال الدین اکبر کے نام سے جانا گیا۔

آج سے تقریباً 450 سال پہلے اکبر نے اک اہل کابینہ کا تصور دیا جو اک کامیاب مملکت کی ضمانت ٹھہرا۔

‘رائٹ مین فار دی رائٹ جاب’ سے آدھا مسئلہ حل ہوجاتا ہے، مگر شومئی قسمت کہ پاکستان میں ڈھونڈ کر اس نگینے کو ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھا دیا جاتا ہے جس نے گاڑی پہلی بار ہی دیکھی ہوتی ہے اور امید کی جاتی ہے ‘اون دی جاب ٹریننگ’ سے سیکھ جائے گا۔

کچھ لوگ سیکھنے کے عمل سے بے بہرہ ہوتے ہیں، اسی لیے انہیں بار بار موقع دیا جاتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ شاید اب کی بار بہتری آجائے۔ وطنِ عزیز میں معدودے چند لوگ ہی ہیں جو گھوم پھر کر پچھلے 20 سالوں میں اس ملک کی معیشت کو چلانے کا ہنر سیکھ رہے ہیں یا یوں کہیے ڈبونے کی کوششوں میں حصہ ڈال رہے ہیں۔

اس صدی کی ابتدا میں ناجانے کہاں سے شوکت عزیز جیسا گوہر نایاب تلاش کرکے لایا گیا جس نے ہمیں دن رات ‘ٹرکل ڈاؤن ایفیکٹ’ کی تھیوری سمجھائی مگر کند ذہن قوم ان کی اعلیٰ دماغی کے پائے تک نا پہنچ پائی۔ مگر ان کو داد دیجیے کہ موصوف ہمیں اک ‘کامیاب’ بینکنگ نظام اور پراپرٹی ‘بوم‘ کا تحفہ دے کر بریف کیس بغل میں دبا کر پتلی گلی سے نکل گئے۔

آج لندن میں اپنے عالیشان فلیٹ میں سکون سے بیٹھے ‘کافی’ کی چسکیاں لیتے ہوئے کبھی اک پل شاید ہم محکوموں کو بھی یاد کرتے ہوں۔ 2000ء کے عشرے سے پاکستان میں بینکنگ کا نظام جو خوب پھل پھول رہا ہے یہ انہی کا ‘کریڈٹ‘ ہے۔ بنا کسی منصوبہ بندی کے کار لیزنگ اسکیمز کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ہر طرف ہاؤسنگ سوسائٹیز کی جو بھرمار ہے اور ہمارے شہروں میں جو سیمنٹ اور سریے کے ڈھیر ہیں، اس کی ابتدا انہی کے دور میں ہوئی۔

آج تک کسی نے سوال نہیں کیا کہ ایک مڈل کلاس آدمی کو لون لے کر گاڑی لینے کی راہ کس نے دکھائی؟ اس کا پوری معیشت پر کیا اثر ہوا؟ بے ہنگم ٹریفک اور فیول امپورٹ میں اضافے کا کس کو فائدہ ہوا؟ سی این جی کو جس بے دردی سے استعمال نہیں بلکہ پامال کیا گیا اس پر ہمارے دانشوروں نے آج تک سوالات اٹھانے گوارا نہیں کیے۔

روم ایک دن میں نہیں بنا تھا تو پاکستان بھی ایک دن میں برباد نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی دور میں عبد الحفیظ شیخ اور شوکت ترین نے جو فیصلے کیے اور قومی خزانے کو جس نہج پر پہنچایا اس کا رونا پاکستان مسلم لیگ (ن) والے پورے 5 سال روتے رہے۔

نواز شریف کی حکومت آئی تو اسحٰق ڈار وزیرِ خزانہ کم اور وزیرِاعظم زیادہ تھے۔ وہ شاید حالیہ تاریخ کے طاقتور ترین وزیرِ خزانہ تھے، جو درجنوں کمیٹیوں کے سربراہ بھی تھے۔ انہوں نے پچھلے ادوار کی طرح اس دور میں بھی ‘رج‘ کر نان پروڈکٹو اخراجات پر زور دیا۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) اور اسٹیل مل کو بھاری پتھر سمجھ کے چوما اور سائیڈ پر رکھ دیا۔

انڈسٹریلائزیشن کو تو سوتیلی اولاد سمجھا جاتا ہے، جو صنعتی انقلاب یورپ میں 18ویں اور 19ویں صدی میں آگیا اور ہم آج بھی اس کی راہ تک رہے ہیں۔ تمام جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کے اپنے کارخانے تو دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرتے ہیں مگر ملک میں بیمار صنعتوں میں کمی کبھی نہیں آئی۔ دوسری طرف سمدھی صاحب حکومت جانے کے بعد اب یوٹیوب پر جلوہ افروز ہوکر پاکستان کی مردہ معیشت میں جان ڈالنے کی تراکیب بتاتے ہیں اور اپنی کارکردگی کے گن گاتے ہیں۔

تبدیلی سرکار آئی تو اوپننگ بیٹسمین اسد عمر مہنگائی اور شوگر مافیا کی تیز ترین باؤلنگ کے سامنے چند ماہ ہی ٹک پائے اور پھر کلین بولڈ ہوگئے اور منہ لٹکا کر پویلین میں لوٹ گئے۔

ان کی جگہ تجربہ کار آئی ایم ایف کے سند یافتہ عبد الحفیظ شیخ کو ایک بار پھر معیشت کی پچ پر کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ اس بار وہ بہت مطمئن تھے کہ وہ حکومت کے جانے تک وزیر ہی رہیں گے کیونکہ ان کا ‘کلہ’ مضبوط ہے مگر ستیاناس ہو اس کورونا کا جس کی وجہ سے عمران خان نے تنہائی میں بیٹھے بٹھائے فیصلہ فرما دیا۔

ان کے بعد وزارتِ خزانہ کا قرعہ فال حماد اظہر کے نام نکلا جنہیں خوشی منانے کا موقع بھی نہیں دیا گیا اور ہمارے سینئر صحافی رؤف کلاسرا صاحب نے اندر کی خبر بریک کردی کہ حماد اظہر بس ‘سیٹ وارمر’ ہیں اصل وزیرِ خزانہ تو شوکت ترین ہوں گے جو پیپلز پارٹی دور میں بھی اسی عہدے پر کام کرچکے ہیں۔

مزید پڑھیے: اسد عمر سے حماد اظہر تک: غلطی در غلطی

پھر خبر ملی کہ اک اکنامک ایڈوائزری کونسل بنے گی جس کے کنوینئر شوکت ترین صاحب ہوں گے۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے، مگر آزمائے ہوؤں کو آزمانے کی روش سمجھ سے بالاتر ہے۔ کیا پورے ملک میں ایسا قحط الرجال پڑ گیا ہے کہ ہمیں اک ڈھنگ کا بندہ نہیں مل رہا جو وزیرِ خزانہ بن سکے؟ پاکستانی قوم حکومت سے ابوالفضل فیضی نہیں مانگتی جو ان کے تمام مسائل کو حل کرنے کے طریقے بتائے، یہ بے چاری پسی ہوئی، مفلسی کی ماری ہوئی رعایا اپنے حاکم وقت سے صرف جینے کا حق مانگتی ہے۔ ان کو بس سستا آٹا، گھی، دال اور چینی چاہیے تاکہ پیٹ کی آگ بجھا سکیں ان سے اپنے بچوں کے بھوک سے ستے ہوئے چہرے نہیں دیکھے جاتے، یہ تو صرف اور صرف دو وقت کی روٹی چاہتے ہیں۔

سلمان احمد صوفی

سلمان احمد صوفی کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ انہوں نے شعبہ اردو میں ماسٹرز اور بزنس ایڈمنسٹریشن میں ایم فل کیا ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے لیکچرار ہیں۔ وہ شاعر بھی ہیں اور لکھنے اور کتابیں پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔