بچپن سے پچپن: ریڈیو کالونی والا اسکول (پانچویں قسط)
اس سیریز کی بقیہ اقساط: پہلی قسط، دوسری قسط، تیسری قسط، چوتھی قسط، چھٹی قسط
ڈیجیٹل کیمروں کی آمد سے پہلے فوٹوگرافی ایک بے حد مہنگا شوق اور فوٹو کھنچوانا کسی عیاشی سے کم نہیں ہوتا تھا۔ تقریباً ہر علاقے میں ایک نہ ایک فوٹو اسٹوڈیو ضرور ہوتا تھا، جس میں کاؤنٹر کے پیچھے ایک وسیع اندھیرے ہال کی پچھلی دیوار پر آرٹسٹ کے ہاتھ سے بنی ایک خوبصورت سینری ہوا کرتی تھی۔ فوٹو کھنچوانے والے اس سینری کے سامنے کھڑے ہوکر یا بیٹھ کر کیمرے کی طرف منہ کرکے سانس روک لیتے تھے اور پھر آنکھیں پھاڑ کر اس وقت تک کیمرے کو دیکھتے رہتے تھے جب تک کیمرے کا فلیش نہ چمک جائے۔
فوٹو اسٹوڈیو کی دیوار پر بنی سینری جتنی زیادہ دلکش ہوتی، اتنے ہی زیادہ شائقین وہاں فوٹو کھنچوانے آتے تھے۔ یہ سینری تو رنگین ہوتی تھی البتہ تصویر عام طور سے بلیک اینڈ وائٹ ہی بنتی تھی۔ رنگین تصاویر ابھی عام نہیں ہوئی تھیں۔
ہر بچے کی پہلی ساگرہ پر اور خصوصاً رسمِ سنت سے پہلے اسے اسٹوڈیو لے جاکر بڑے اہتمام سے اس کی تصویر بنوائی جاتی تھی۔ عید کے مواقع پر بھی ان اسٹوڈیوز پر خاصا رش لگتا تھا اور لوگ عید کے نئے کپڑوں میں دوستوں کے ساتھ یادگار گروپ فوٹو بنواتے تھے۔ تصویریں کھنچوانے کے کئی کئی دن بعد وہ پرنٹ ہوکر ملا کرتی تھی۔ ہر تصویر کی ایک کالی کاپی (نیگیٹیو) بھی ہوا کرتی تھی جو عام طور سے فوٹو اسٹوڈیو والا اپنے پاس رکھ لیتا تھا اور ضرورت کے وقت اس سے پرنٹ نکال کر دیتا تھا۔
اس زمانے میں کراچی چڑیا گھر کے اندر گینڈے والے پنجرے کے سامنے ممتاز محل کے برابر میں بھی ایک فوٹو اسٹوڈیو ہوا کرتا تھا۔ 1973ء میں اس فوٹو اسٹوڈیو میں اپنے بڑے اور چھوٹے بھائی کے ساتھ بیٹھ کر میں نے جو تصویر کھنچوائی تھی وہ میری زندگی کی پہلی تصویر تھی۔ جبکہ میری پہلی اکیلی تصویر وہ ہے جو میں نے 1975ء میں قائدآباد کے حمید اسٹوڈیو میں کھڑے ہوکر بنوائی تھی۔
ارجنٹ فوٹو کھنچوانے کا ایک ذریعہ پولرائڈ (Polaroid) کیمرے بھی ہوا کرتے تھے۔ یہ ایسے کیمرے ہوتے تھے جن میں سے تصویر کھینچتے ہی فوٹو پرنٹ ہوکر باہر نکل آتی تھی۔ کراچی کے تفریحی مقامات پر اکثر چلتے پھرتے فوٹوگرافر ایسے پولرائڈ کیمرے لیے گاہکوں کی تلاش میں گھومتے پھرتے تھے۔ ایک دفعہ منوڑہ کے ساحل پر ہم نے بھی ایک ایسے ہی فوٹوگرافر سے اپنی تصویر بنوائی۔ کیمرے کا شٹر دباتے ہی اس کے اندر سے فوراً ہماری رنگین تصویر باہر نکل آئی جسے دیکھ کر ہم حیران رہ گئے۔
ہمارا قائدآباد والا گھر ٹھٹہ روڈ پر ریڈیو پاکستان کالونی کے عین سامنے تھا۔ ریڈیو کالونی کے اندر ایک سرکاری پرائمری اسکول بھی تھا جس میں کالونی میں رہنے والے ریڈیو پاکستان کے ملازمین کے بچوں کے ساتھ ساتھ باہر سے آنے والے بچے بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ میں روزانہ کالونی کے مین گیٹ سے بے شمار بچوں کو اسکول آتے جاتے دیکھتا اور سوچتا کہ میں کب اسکول جاؤں گا۔ ایک کچی پکی کلاس خیرپور میں پڑھی اور دوسری کچی پکی لالوکھیت کے اسکول میں، لیکن اب میں پھر فارغ تھا۔ آخر ایک دن ابّا مجھے ریڈیو کالونی کے اسکول میں لے ہی گئے۔ وہاں میرا ٹیسٹ لیا گیا جس سے مطمئن ہوکر مجھے پکی پہلی جماعت میں داخل کردیا گیا۔ چند دن میں میرا یونیفارم بھی تیار ہوگیا۔ خاکی پینٹ، سفید قمیض اور کالے جوتے۔ پہلی بار وہ اسکول یونیفارم پہننے پر اس قدر خوشی ہوئی تھی کہ شاید اس کے بعد ویسی خوشی اس دن ہوئی جس دن میں نے دولہا کا لباس پہنا۔
اس طرح پہلی جماعت میں رہتے رہتے یہ میرا تیسرا اسکول تھا۔ چنانچہ میں پہلی کلاس کا ایک گرگ باراں دیدہ طالب علم ثابت ہوا اور اپنے ہم جماعتوں پر جلد ہی اپنی دھاک بٹھا دی۔ پہلی جماعت میں تو صرف پاس ہی آیا لیکن اگلی جماعتوں میں کلاس میں فرسٹ آنے کی جو ریت قائم کی اسے اسکول کے پورے دور میں برقرار رکھا۔ 5ویں جماعت میں پورے پرائمری اسکول میں پہلی پوزیشن، 8ویں جماعت میں پورے سیکنڈری اسکول میں پہلی پوزیشن اور میٹرک بورڈ میں اے گریڈ۔
اپنی تعلیم کے شروع میں ہی مجھے سب سے زیادہ دلچسپی اردو کے مضمون سے تھی۔ خصوصاً کہانیاں پڑھنے کا تو بہت شوق پیدا ہوگیا تھا۔ جس دن ہمیں اسکول کی طرف سے دوسری جماعت کی کتابیں فراہم کی گئیں تو ان میں اتفاق سے ’اردو کی دوسری کتاب‘ شامل نہیں تھی۔ ہمارے کلاس ٹیچر رحمت اللہ صاحب نے بتایا کہ اردو کی کتاب کچھ دن بعد ملے گی مگر میں تو اپنے کورس کا انتظار ہی اس لیے کر رہا تھا کہ کتابیں ملیں تو سب سے پہلے اردو کی کتاب پڑھوں۔ کتاب نہ دیکھ کر میرا منہ لٹک گیا۔ اسکول ہم سے پورے کورس کے پیسے لے چکا تھا، اس لیے میں نے استاد سے کہا کہ مجھے تو اردو کی کتاب فوراً چاہیے ورنہ مجھے اس کے پیسے واپس کیے جائیں تاکہ میں بازار سے جاکر خرید سکوں۔ رحمت اللہ سر نے غصے سے مجھے گھورا، جیب سے 3 روپے نکال کر مجھے دیے اور بولے:
’جاؤ جاکر لے آؤ بے صبرے بچے۔‘
میں چھٹی ہوتے ہی سیدھا قائد آباد اسٹاپ پر کتابوں کی معروف دوکان ’ہاشمی کتاب گھر‘ کی طرف بھاگا لیکن پتا چلا کہ کتاب تو ابھی وہاں بھی نہیں پہنچی۔ پھر تو میں نے قائدآباد سے داؤد چورنگی تک مارکیٹ میں موجود کتابوں کی ساری دوکانیں چھان ماریں لیکن سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی اردو کی دوسری کتاب کہیں بھی دستیاب نہیں تھی۔ ایک دوکان پر کسی نجی پبلشر کی ’اردو کی دوسری اضافی کتاب‘ مل رہی تھی، میں نے وہی خرید لی حالانکہ وہ ہمارے کورس میں شامل نہیں تھی اور فضول سی تھی۔ چند دن انتظار کے بعد بالآخر اصل کتاب بھی مارکیٹ اور اسکول میں ایک ساتھ پہنچ گئی، مگر مجھے وہ خریدنے کے لیے اضافی پیسے دینے پڑے۔ رحمت اللہ سر میری اس بے صبری پر کئی دن ناراض رہے۔
ہماری کلاس میں طرح طرح کے بچے پڑھتے تھے۔ مہاجر، پٹھان، پنجابی، بلوچ اور سندھی گھروں کے سیدھے سادھے ننھے منے بچے، جو چند ہی دنوں میں عمر بھر کے لیے گہرے دوست بن گئے۔ ہماری کلاس کا سب سے چھوٹا بچہ اختر تھا جسے ابھی پوری طرح بولنا بھی نہیں آتا تھا۔ اسے شاید گھر میں ہی سمجھایا گیا تھا کہ کلاس ٹیچر کو ’سر ماسٹر صاحب‘ کہنا ہے۔ ہم تو استاد کو صرف ’سر‘ ہی کہتے تھے مگر اختر پورے اہتمام کے ساتھ ’شَل ماشَب‘ کہتا تھا۔ اختر اتنا چھوٹا تھا کہ پڑھائی شروع کرتے وقت جب سارے بچے مل کر ’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘ پڑھتے تو وہ صرف ’بسم اللہ الرحیم‘ ہی کہہ پاتا تھا۔
پھر ایک بچہ وحید تھا جو 90 کے بعد والی گنتی اس طرح نہیں سنا پاتا تھا جس طرح باقی بچے سناتے تھے۔ وہ گنتی گنتا ہوا پچیاسی، چھیاسی، ستاسی ، اٹھاسی، نواسی اور نوے سے ہوتا ہوا جیسے ہی آگے بڑھتا بچے کھی کھی کھی کھی کرنا شروع کردیتے۔ وہ آگے گنتا، اکیاونے، بیاونے، تریاونے، چوراونے، پچیاونے، چھیاونے، ستاونے، اٹھاونے، ننیاونے، سو، لیکن اس کے سو تک پہنچنے سے پہلے ہی سارے بچے زور زور سے ہنسنا شروع ہوجاتے۔ البتہ وحید خود بالکل نہ ہنستا بلکہ ہم سب کو اچنبھے سے دیکھتا کہ یہ لوگ کیوں ہنس رہے ہیں؟
ہمارا اسکول ایک مختصر مگر بڑی خوبصورت عمارت میں قائم تھا جس کے اطراف نیم کے بڑے بڑے درخت تھے اور سامنے کھیل کا وسیع میدان۔ عمارت کے سامنے ایک چبوترہ بھی تھا جہاں صبح کے وقت اسمبلی ہوتی تھی۔ ہماری کلاس فیلو بچیاں ریحانہ، صوفیہ اور شگفتہ جب اپنی کھنکتی آواز میں ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ پڑھتیں تو ہم سب بھی جھومتے ہوئے لہک لہک کر اقبال کے اشعار دہراتے جاتے۔
دوپہر میں وقفہ ہوتا تو طرح طرح کے کھیل کھیلتے جن میں سب سے زیادہ مقبول ’جھاڑ بندر‘ ہوتا۔ یہ درخت کی شاخوں پر چڑھ کر ایک دوسرے کو پکڑنے کا دلچسپ اور ہیجان خیز کھیل ہوتا تھا جس میں کبھی کبھی بچے درخت کی شاخوں سے پکے ہوئے پھل کی طرح ٹپک بھی پڑتے تھے۔ اس کھیل کے لیے اسکول کے سامنے والا نیم کا درخت بڑا آئیڈیل تھا اور یہ درخت ہمیں بڑا محبوب تھا۔ ایک مرتبہ جب گرمیوں کی چھٹیوں کے باعث اسکول بند تھے اور ہم اپنے اپنے گھروں میں بور ہوتے ہوئے اسکول کھلنے کا انتظار کر رہے تھے، تو ایک دن چھوٹے بھائی حبیب اللہ نے اچانک مجھے کہا کہ چلیں اسکول چل کر جھاڑ بندر کھیلتے ہیں۔
’لیکن اسکول تو بند ہے‘، میں حیران ہو کر بولا۔
’اسکول بند ہے تو کیا ہوا، درخت تو بند نہیں‘، حبیب اللہ نے کہا۔
’ٹھیک ہے۔ چلو‘، میں بولا اور ہم دونوں اسکول پہنچ گئے۔
ہمارا محبوب نیم کا درخت باہیں پھیلائے ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ حبیب اللہ قریب پہنچتے ہی درخت کی طرف لپکا اور اس کی شاخوں سے بندر کی طرح چمٹتا ہوا خاصا اوپر پہنچ گیا اور بولا ’بھائی تم بھی آؤ‘۔
’ارے اتنا اوپر مت جاؤ، گر جاؤ گے‘، میں نیچے کھڑے کھڑے بولا مگر وہ اور اوپر جانے کے لیے آگے بڑھنے لگا۔ اگلی شاخ کچھ نازک تھی۔ شاخ ٹوٹنے کی آواز آئی اور حبیب اللہ دیگر شاخوں سے ٹکراتا ہوا سیدھا میرے سامنے زمین پر منہ کے بل آ گرا۔ میری تو جان ہی نکل گئی۔ وہ فوراً کپڑے جھاڑ کر کھڑا تو ہوگیا مگر زمین پر پڑے ایک پتھر نے اس کی ٹھوڑی کی کھال پر کٹ ڈال دیا تھا جس کی وجہ سے ٹھوڑی سے خون ٹپکنا شروع ہوگیا تھا۔ میں نے گھبرا کر وہیں سے مٹی اٹھائی اور اس کی ٹھوڑی پر چپکا دی۔ کچھ دیر میں خون آنا بند ہوگیا۔
’بھائی ابّا کو نہیں بتانا‘، حبیب اللہ کو چوٹ سے زیادہ گھر پر ڈانٹ پڑنے کا خوف تھا۔
’نہیں بتاؤں گا، چلو گھر چلو‘۔
ہم گھر پہنچے۔ امّاں نے اس کے زخم کو صاف کرکے دوائی لگا دی۔ ابّا کو پتا نہیں چلا اور حبیب کا زخم چند دن میں بھر گیا۔ اس بات کو پھر کئی سال گزر گئے۔ جب حبیب اللہ 18 سال کا ہوگیا تو اس نے اپنا شناختی کارڈ بنوایا جس میں شناختی علامت والے خانے میں لکھا تھا ’ٹھوڑی پر زخم کا نشان‘۔ حبیب کو اس دن نیم کی شاخوں سے گرتے وقت کیا معلوم تھا کہ وہ درخت اسے عمر بھر کے لیے نشانی دے رہا ہے۔ 2003ء میں ڈاکٹر حبیب کا اچانک ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوگیا تو وہ نشانی بھی دنیا سے معدوم ہوگئی۔
اس زمانے میں ہمارا سب سے محبوب کھیل فٹبال ہوتا تھا۔ کرکٹ کی لت ابھی عام نہیں ہوئی تھی۔ پاکستان کا قومی کھیل ہاکی تھا اس لیے اسے بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ ایک دن رحمت اللہ سر نے اسکول کے اسپورٹس روم سے ہاکیاں نکلوائیں اور ہماری کلاس کے بچوں کو میدان میں لے آئے۔ 2 ٹیمیں بناکر سب کو ایک ایک ہاکی پکڑا دی گئی اور کھیل اناڑی پن سے شروع ہوگیا۔ اس طرح ڈنڈا پکڑ کر گیند سے کھیلنا تو اکثر بچوں کو نہیں آتا تھا، ہاں محلے میں گلی ڈنڈا کھیلنے کے اکثر بچے ماہر تھے۔ چنانچہ ہاکی کو ڈنڈا اور گیند کو گلی جان کر سب گیند کی طرف لپکے۔ یامین نے اپنی ہاکی کو ڈنڈے کی طرح گیند پر مارنے کے لیے پوری طاقت سے سر کے اوپر سے گھمایا، مگر بدقسمتی سے ہاکی کا وہ وار گیند تک پہنچنے سے پہلے ہی پیچھے کھڑے جمال ناصر کے سر پر پڑا۔ جمال کی چیخ بلند ہوئی اور اس کی ناک سے خون بہنا شروع ہوگیا۔ کھیل ایک دم رک گیا۔ رحمت اللہ سر نے پہلے تو جمال کو سنبھالا، اس کی نکسیر پھوٹ گئی تھی۔ سر پر پانی ڈالا تو خون بہنا بند ہوگیا۔ سر نے یامین کو سخت سست کہا۔ ساری ہاکیاں لپیٹ کر دوبارہ اسپورٹس روم میں بند کردی گئیں اور اس کے بعد ہم نے دوبارہ کبھی ہاکی نہیں کھیلی۔
ہمارے ہیڈ ماسٹر عبدالمغنی صاحب تھے جو خود بھی شاعر تھے۔ انہوں نے بچوں کے لیے ایک دعائیہ نظم لکھی تھی جس کا ٹیپ کا مصرع تھا:
الٰہی التجا یہ ہے کہ ہم سب پاس ہوجائیں
جب امتحانات کے دن قریب آتے تو ہم مارننگ اسمبلی میں علامہ اقبال کی نظم ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ کی بجائے عبدالمغنی صاحب کی نظم ’الٰہی التجا یہ ہے کہ ہم سب پاس ہوجائیں‘ پڑھنے لگتے۔ اور اس دعا کی برکت سے اکثر بچے پاس ہوجاتے۔ لیکن ہماری کلاس میں ایک بلوچ بچہ تھا نبی بخش ’نبل‘۔ نبل بے چارہ اکثر فیل ہوجاتا تھا۔ ایک دن اس نے سب دوستوں سے شکوہ کیا کہ جب بھی ہم یہ نظم ’الٰہی التجا یہ ہے کہ ہم سب پاس ہوجائیں‘ پڑھتے ہیں تو وہ فیل ہو جاتا ہے۔ یعنی اس کے ساتھ الٹا ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اس نے یہ تجویز رکھی کہ آئندہ وہ سب کے ساتھ یہ نظم پڑھتے ہوئے ’پاس‘ کہنے کی بجائے آہستہ سے ’فیل‘ کہے گا، تاکہ الٹا ہوجائے اور وہ پاس ہوجائے۔ چنانچہ اگلے دن سے اس نے نہ صرف اسمبلی میں ’پاس‘ کی جگہ ’فیل‘ والا لفظ گانا شروع کیا، بلکہ وہ صبح اسمبلی سے پہلے اسکول پہنچ جاتا اور نیم کے درخت کے نیچے بیٹھ کر لہک لہک کر صرف یہ مصرعہ گاتا:
الٰہی التجا یہ ہے کہ ہم سب ’فیل‘ ہوجائیں
اس کا یہ گانا جاری رہا۔ امتحان ہوئے، اور وہ حیرت انگیز طور پر پاس ہوگیا۔
نبی بخش نبل آج بھی قائد آباد میں ہی رہتا ہے۔ میں نے اپنی کتاب ’کراچی جو اک شہر تھا‘ میں بھی ریڈیو کالونی اسکول کا ذکر کیا ہے۔ جب وہ کتاب شائع ہوئی تو کسی طرح اسے بھی پتا چل گیا۔ اس نے میرا نمبر حاصل کیا اور مجھے اسلام آباد فون کیا۔
’ہیلو۔ ۔ ۔ عبید اللہ۔ ۔ ۔ میں نبی بخش بول رہا ہوں‘۔
’نبل؟‘، میں حیران رہ گیا۔
’واہ ڑے عبیداللہ‘ اس نے قہقہہ لگایا۔ ’تم شاید واحد آدمی ہے جو میرا نام نبل جانتے ہو۔ ورنہ آج تو سب مجھے نبی بخش بلوچ کہتے ہیں۔‘
’اور سناؤ کیا حال ہیں؟ کیا ہو رہا ہے؟ کتنے بچے ہیں؟‘، میں اشتیاق سے بولا۔
اس نے پھر ایک بلند قہقہہ لگایا۔ ’بچے؟ ایک منٹ، گننے دو‘
وہ واقعی کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بولا۔ ’11‘
اب قہقہہ لگانے کی باری میری تھی۔
پھر مجھے بھی اپنے پرائمری اسکول کی یاد نے ستایا۔ جب میں 4 عشرے بعد اپنا اسکول دیکھنے ریڈیو پاکستان کالونی گیا تو مجھے یوں لگا جیسے میں ایک ٹائم مشین میں سفر کر آیا ہوں۔ وہی عمارت، وہی رنگت، وہی اطمینان، وہی خاموشی۔ نیم کے وہی درخت میرے سامنے اپنی نصف صدی قبل کی ویسی ہی مہربان شاخیں پھیلائے کھڑے تھے کہ جن سے لٹک لٹک کر ہم نے اپنے قد لمبے کیے۔
تعطیلات کی وجہ سے اسکول تو بند تھا، لیکن مجھے اس کے بند کلاس رومز میں سے اٹھتا بچوں کا بے تکلفانہ شور اور اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ صاف سنائی دے رہی تھی۔ اسکول کے سامنے والے چبوترے پر ریحانہ، صوفیہ اور شگفتہ اپنی کھنکتی آواز میں ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘ پڑھ رہی تھیں اور مجھے بھی اسی طرح جھومنے اور لہکنے پر مجبور کر رہی تھیں۔ اسکول کو عین اسی حالت میں دیکھ کر جہاں خوشی ہو رہی تھی، وہیں یہ سوچ کر حیرت بھی ہوتی تھی کہ ان 4 عشروں میں اس اسکول کے لیے کیا حکومت کی طرف سے کوئی ایسا فنڈ نہیں آیا کہ جو اس عمارت کو بوسیدگی سے بچاتا؟
عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔