نقطہ نظر

پی ڈی ایم کا مستقبل اب کیا ہوگا؟

اگر میاں صاحب واپس نہیں آتے، زرداری صاحب الگ ہوجاتے ہیں اور مولانا بھی ناراض رہتے ہیں تو مریم نواز یہ جنگ تنہا نہیں لڑ سکتیں۔

منگل 16 مارچ کو ہونے والا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا 6 گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس کا اختتام بڑا ڈرامائی تھا۔

اجلاس کے اندر سے مسلسل خبریں لیک ہوتی رہیں جیسے حضرت مولانا فضل الرحمٰن انتہائی برہم ہیں۔ ویڈیو لنک کے ذریعے آصف علی زرداری صاحب اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک اور لانگ مارچ لندن میں بیٹھے میاں نواز شریف کی واپسی سے مشروط ہے۔ اُدھر مریم بی بی اپنے والد کی زندگی کے حوالے سے جذباتی ہوگئی ہیں، اور پھر رات کے دوسرے پہر میں مولانا فضل الرحمٰن ڈھیروں کیمروں کے سامنے آتے ہیں، دائیں بائیں ان کے مریم نواز اور یوسف رضا گیلانی ہوتے ہیں۔

اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری کی غیر موجودگی یہ پیغام دے رہی تھی کہ کچھ انہونی ہونے جارہی ہے، اور پھر حضرت مولانا جو اپنے حسِ مزاح کو کڑے سے کڑے اور سخت سے سخت وقت میں بھی قائم رکھتے ہیں، وہ آئے اور صرف یہ کہہ کر چلے گئے کہ ’لانگ مارچ ملتوی‘۔

مولانا سے صدمے اور غصّے کے سبب مزید کچھ کہا نہیں جا رہا تھا اور یہ کہہ کر انہوں نے مائک چھوڑ دیا۔ لیکن میری ذاتی رائے یہ ہے کہ فوری طور پر اتنا سخت فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔

مریم بی بی، گیلانی صاحب، نورانی میاں سب نے انہیں روکنے کی بہت کوشش کی لیکن مولانا غیر معمولی تیز رفتاری سے پریس کانفرنس سے باہر چلے گئے۔ لیکن بڑی خبر آچکی تھی۔ مریم بی بی اور گیلانی صاحب کا بیان کوئی بریکنگ نیوز نہیں تھا کیونکہ اس سے قبل اسکرینوں پر محترم زرداری صاحب اور مریم بی بی کے درمیان جو مکالمہ اسکرینوں پر آرہا تھا وہ کسی سنسنی خیز ڈرامے سے کم نہیں تھا۔

آصف زرداری صاحب نے کہا کہ ہم استعفے دینے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم اسے نواز شریف اور اسحٰق ڈار کی واپسی سے مشروط کریں گے، جس پر مریم بی بی نے کہا کہ میاں صاحب کی زندگی کی ضمانت کون دے گا؟ حکومت انہیں قتل کرنے کے درپے ہے۔ پھر آصف زرداری نے کہا کہ لڑنا ہے تو جیل جانا ہوگا۔ مریم بی بی کا جواب تھا کہ آپ کی باتوں سے مجھے دکھ ہوا۔ زرداری صاحب نے کہا کہ میرا مقصد دل دکھانا نہیں تھا، جس پر مریم بی بی نے کہا کہ بختاور اور بلاول سمجھ کر گلہ کیا تھا۔

لیکن بہرحال اس اہم ترین اجلاس کے خاتمے کے بعد اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم کا مستقبل کیا ہوگا؟ لانگ مارچ ملتوی ہوگیا ہے اور ساتھ ہی رمضان کی آمد آمد ہے، یوں مارچ اپریل اور اس کے بعد مئی میں کچھ خاص ہونے کا امکان نہیں اور 3 مہینے ایک لمبی مدت ہوتے ہیں۔ جس کے سبب یقیناً خان صاحب کی حکومت کو بڑا ریلیف ملا ہے۔

حکومت کی طرف سے شادیانے بھی بجائے جا رہے ہیں کہ پی ڈی ایم بنی ہی وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی پارٹی کے مشیروں اور وزیروں کے لن ترانیوں، زباں درازیوں اور پھر ان کی کارکردگی اور کارگزاریوں کے ردِعمل میں، اور ہوسکتا ہے کہ حکومت کو 3 ماہ تک ریلیف مل جائے۔

ممکن ہے کہ وقتی طور پر لانگ مارچ ملتوی ہوکر اس پر لٹکتی تلوار ہٹ جائے، مگر یہ سب کچھ وقتی ہوگا اور وہ اس لیے کہ بہرحال پی ڈی ایم کی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگر انہوں نے متحد ہوکر 2023ء کے انتخابات نہیں لڑے تو اس کے نتائج 2018ء جیسے نکلیں گے۔

پیپلز پارٹی کے جہاں دیدہ سیاستدان آصف زرداری نے آخر لانگ مارچ کی مخالفت کیوں کی؟ اسمبلیوں سے مستعفی کیوں نہیں ہوئے؟ اس کا جواب کسی حد تک مجھے اعتزاز احسن نے میرے پروگرام میں دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اقتدار میں رہتے ہوئے ہمارے لیے اتنے نقصان دہ نہیں ہیں، لیکن اگر انہیں مدت سے پہلے ہٹا دیا گیا اور وہ پھر میدان میں آگئے اور اسی حالت میں انتخابات میں حصہ لیا تو وہ زیادہ طاقتور ہوجائیں گے۔ اسی لیے پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان کو مدت پوری کرنی دی جائے۔

لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے، بلکہ اٹھنا بھی چاہیے کہ اب نواز شریف اور ان کی پارٹی کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا؟ کیا میاں صاحب واپس آئیں گے، جو بالکل نہیں لگتا۔ لیکن اگر وہ نہیں آتے تو ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر زرداری صاحب الگ ہوجاتے ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن بھی ناراض رہتے ہیں تو مریم نواز پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمٰن کے بغیر یہ جنگ تنہا نہیں لڑ سکتیں۔

پیپلز پارٹی نے حالیہ مہینوں میں خاص طور پر سینیٹ الیکشن میں بڑی مہارت سے اپنے کارڈ کھیلے ہیں۔ اب فرنٹ سیٹ پر پنجاب میں بھی مریم بی بی نہیں، زرداری بیٹھے ہیں جن کی نظریں اب تختِ لاہور پر ہیں۔ اس لیے یہاں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ تحریک انصاف کے لیے وقتی طور پر تو خطرہ ٹل گیا، لیکن یہ مستقل بنیادوں پر نہیں۔

مجاہد بریلوی

مجاہد بریلوی ’جالب جالب‘، ’فسانہ رقم کریں‘ اور ’بلوچستان مسئلہ کیا ہے‘ کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں پاکستان کے پہلے نجی چینل پر مجاہد آن لائن نامی پروگرام کی میزبانی کی اور پھر 8 سال تک سی این بی سی پر پروگرام ’دوسرا پہلو‘ کی میزبانی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ ڈان نیوز ٹی وی پر ’سوال سے آگے‘ کی میزبانی بھی وہ کرچکے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔