پاکستان سپر لیگ سیزن 6 کے دوسرے دن کیا کچھ انہونا ہوا؟
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کامیابی سے اپنا سفر طے کرتے ہوئے چھٹے سال میں داخل ہوگئی ہے۔ سیزن 6 کے دوسرے دن 2 میچ کھیلے گئے، یعنی پہلا مقابلہ لاہور قلندرز اور پشاور زلمی کے مابین ہوا جبکہ دوسرے میچ میں اسلام آباد یونائیٹڈ اور ملتان سلطانز مد مقابل تھے۔ ان دونوں مقابلوں کا ایک جائزہ قارئین کی خدمت میں پیش خدمت ہے
پی ایس ایل کے سیزن 6 کے دوسرے میچ میں لاہور قلندرز کا مقابلہ پشاور زلمی سے تھا۔ اس میچ میں لاہور قلندرز نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا۔
پشاور زلمی کا ناقص آغاز
پشاور زلمی کی بیٹنگ کا آغاز نہایت خراب تھا اور صرف 46 رنز پر اس کے 4 کھلاڑی پویلین لوٹ گئے تھے۔ امام الحق تو میچ کی پہلی ہی گیند پر پویلین لوٹ گئے جبکہ دیگر کھلاڑی بشمول تجربہ کار شعیب ملک اور کامران اکمل بھی کوئی قابلِ ذکر کارکردگی پیش نہیں کرسکے۔
اس آغاز کے بعد کسی قابلِ ذکر اسکور تک پہنچنا مشکل تھا لیکن تجربہ کار روی بوپارہ اور شرفین روتھرفورڈ کے مابین ہونے والی 66 رنز کے شراکت نے زلمی کی اننگز کو سہارا دیا اور ان کو مقررہ 20 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 140 رنز تک پہنچنے میں مدد فراہم کی۔
شاہین آفریدی اور راشد خان کی شاندار باؤلنگ
پشاور زلمی کو 140 رنز کے کم اسکور تک محدود کرنے میں شاہین شاہ آفریدی اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار لیگ اسپنر راشد خان نے کلیدی کردار ادا کیا۔ شاہین شاہ آفریدی نے میچ کے پہلی ہی اوور میں امام الحق کو آؤٹ کرکے ابتدائی اوورز میں وکٹ لینے کی اپنی روایت کو برقرار رکھا۔
شاہین آفریدی نے اپنے مقررہ اوورز میں صرف 14 رنز دے کر 3 کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔ پاکستان سپر لیگ میں اپنا پہلا میچ کھیلنے والے راشد خان نے بھی شاہین آفریدی کا خوب ساتھ دیا اور اپنے 4 اوورز میں صرف 14 رنز دیے۔ راشد خان کے باؤلنگ اسپیل کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی باؤلنگ پر بننے والے سارے رنز صرف سنگل رنز کی شکل میں بنے۔ ان دونوں کھلاڑیوں نے مشترکہ طور پر جو 8 اوورز کروائے ان میں مخالف ٹیم صرف 28 رنز ہی بناسکی۔
ہدف کے تعاقب میں لاہور قلندرز لڑکھڑا گئی
لاہور قلندرز ایک آسان ہدف کے تعاقب میں لڑ کھڑا گئی۔ ان کے اوپنرز نے 29 رنز کا آغاز فراہم کیا لیکن پھر وقفے وقفے سے ان کی وکٹیں گرتی رہیں اور جب ثاقب محمود نے مسلسل 2 گیندوں پر سمیت پٹیل اور ڈیوڈ ویزے کو پویلین کی راہ دکھائی تو اس ٹورنامنٹ میں اپنی روایت کے مطابق ایک مرتبہ پھر لاہور اپنے پہلے میچ میں شکست کے قریب جاتا دکھائی دیا۔
راشد خان اور محمد حفیظ کی روایت شکن شراکت
جس وقت راشد خان کھیلنے آئے تو میچ ایک نازک موڑ پر تھا۔ ان کی ٹیم 5 وکٹیں کھو چکی تھی اور اس کو جیت کے لیے 27 گیندوں پر 31 رنز کی ضرورت تھی اور ثاقب محمود مسلسل 2 گیندوں پر 2 وکٹیں حاصل کرکے ہیٹ ترک پر تھے۔
اس صورتحال میں راشد خان نے اپنے تجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے محمد حفیظ کے ساتھ 31 رنز کی شراکت قائم کرکے اپنی ٹیم کو فتح دلوادی۔ اس شراکت میں راشد خان نے صرف 15 گیندوں پر 27 رنز بنائے۔ پاکستان سپر لیگ میں اپنے پہلے ہی میچ میں راشد خان نے گیند اور بلے کے ساتھ اپنی ٹیم کی جیت میں اہم کردار ادا کرکے اپنی اہمیت اجاگر کرلی۔
لاہور قلندرز کی روایت شکن فتح
پاکستان سپر لیگ اپنے چھٹے سال میں داخل ہوگئی ہے۔ اس موجودہ ٹورنامنٹ سے پہلے جو 5 سیزنز کھیلے جاچکے ہیں ان تمام میں لاہور قلندرز نے شکست کے ساتھ آغاز کیا تھا۔
قلندرز کو ان کے اوّلین میچ میں 2016ء میں کراچی نے، 2017ء میں کوئٹہ نے، 2018ء اور 2020ء میں ملتان سلطانز نے جبکہ 2019 میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے شکست دی تھی۔ لیکن اس چھٹے ایڈیشن میں لاہور قلندرز نے بلآخر اپنا ابتدائی میچ ہارنے کی روایت توڑ کر ٹورنامنٹ کا مثبت آغاز کیا ہے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ اور ملتان سلطانز کے مابین اتوار کی شام کو کھیلے جانے والے اس میچ میں اسلام آباد نے ٹاس جیت کر پہلے باؤلنگ کا فیصلہ کیا۔ اس میچ کا احوال درج ذیل ہے
محمد رضوان کی فارم جاری ہے
ملتان سلطانز نے محمد رضوان کی موجودہ فارم کو دیکھتے ہوئے کپتان بنانے کا فیصلہ کیا اور رضوان نے بطور اوپنر ہی بیٹنگ کرنے کو ترجیح دی، جو بالکل ٹھیک ثابت ہوئی۔ ٹی20 کرکٹ میں اوپنر کی پوزیشن رضوان کے لیے بہت سودمند رہی ہے۔
اس میچ میں بھی انہوں نے شاندار بیٹنگ کی اور 71 رنز کی زبردست اننگز کھیلی۔ ویسے تو رضوان کی اننگ بہت شاندار تھی اور ان کی اس اننگ کے باعث ہی ملتان کو ایک شاندار آغاز ملا لیکن یہ بات تو شاید ہی کسی کو سمجھ آئی کہ جب رضوان وکٹ پر اچھی طرح سیٹ ہوگئے، تو پھر بعد میں سنبھل کر وہ کیوں کھیلنا شروع ہوئے؟
31 گیندوں پر نصف سنچری مکمل کرنے کے بعد اگلے 21 رنز بنانے کے لیے انہوں نے 22 گیندوں کا سہارا لیا۔ جب شاداب خان 15واں اوور کروانے آئے تو عام خیال یہی تھا کہ رضوان اس اوور سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے، مگر حیران کن طور پر اس اوور میں کوئی ایک بھی بڑا شاٹ نظر نہیں آیا۔
اننگ کا غیر تسلی بخش اختتام
پی ایس ایل کے چھٹے سیزن میں جو ابتدائی 2 میچ کھیلے گئے کھیلے گئے تھے، ان میں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیمیں تھوڑا سا پریشان نظر آئیں، اور شاید اسی پریشانی کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد نے ٹاس جیت کر ملتان کو بیٹنگ کی دعوت دی تھی۔
لیکن اسلام آباد کی امیدوں کے برخلاف ملتان نے شاندار آغاز لیا اور ابتدائی 11 اوورز میں 3 وکٹوں کے نقصان پر 92 رنز بنا لیے۔ اس موقع پر ایسا لگ رہا تھا کہ اب ملتان ایک بڑے اسکور تک رسائی حاصل کر لے گا لیکن ایسا نہیں ہوسکا کیونکہ آخری 9 اوورز میں صرف 58 رنز ہی بن سکے۔
امید سے کم ہونے والے اسکور میں کچھ ملتان کے غلط فیصلوں کا بھی کردار ہے۔ مثال کے طور پر جب آپ کے پاس کارلوس بریتھویٹ جیسا جارحانہ بلے باز موجود ہے تو ان سے پہلے صہیب مقصود اور خوشدل شاہ کا بیٹنگ کے لیے آنا کم از کم میرے نزدیک تو درست فیصلہ نہیں تھا۔
حسن علی کی کارکردگی
حسن علی فٹنس مسائل سے نمٹنے کے بعد ایک مرتبہ پھر کرکٹ میں واپس آچکے ہیں، بلکہ ان کی واپسی کافی اچھے انداز میں ہوئی ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں حسن علی نے ڈومیسٹک اور بین الاقوامی کرکٹ میں مسلسل متاثرکن کارکردگی پیش کی ہے۔
پی ایس ایل کے ابتدائی 5 ایڈیشنز میں وہ پشاور زلمی کا حصہ تھے لیکن اس مرتبہ وہ اسلام آباد یونائیٹڈ کا حصہ ہیں۔ حسن نے اپنے مقررہ اوورز میں صرف 16 رنز دے کر ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔ انہوں نے اپنے اوورز میں صرف ایک چوکا کھایا۔ شاید انہی کی اس کارکردگی کی وجہ سے سلطانز اس ہدف تک نہیں پہنچ سکے جس کی وہ امید رکھتے تھے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کا غیر تسلی بخش آغاز
اسلام آباد یونائیٹڈ نے جیت کے لیے درکار 151 رنز کا تعاقب شروع کیا تو ان کی بیٹنگ اس ہدف کے تعاقب میں لڑ کھڑا گئی۔ یونائیٹڈ کا بیٹنگ آرڈر بھی تھوڑا عجیب ہے جس میں 3 غیر مستقل مزاج کھلاڑی حسین طلعت، آصف علی اور افتخار احمد ایک دوسرے کے بعد کھیلنے آتے ہیں اور ایک ایک کرکے پویلین لوٹ جاتے ہیں۔
ایک نسبتاً کم اسکور کا تعاقب کرتے ہوئے اسلام آباد کے 6 کھلاڑی صرف 74 رنز پر ہمت ہار گئے تھے اور اس موقع پر شکست یقینی نظر آ رہی تھیکے اسکور پر آؤٹ ہو گئے تھے اور شکست کے اثار نظر آ رہے تھے لیکن 7ویں نمبر پر بیٹنگ کرنے کے لیے آنے والے لیوس گریگری نے مشکل حالات کے باوجود اپنے ذہن اور جذبات پر قابو رکھا۔
ان کو پہلے فہیم اشرف اور پھر ظفر گوہر کا ساتھ میسر آیا۔ گریگری نے صرف 31 گیندوں پر 49 رنز بناکر اپنی ٹیم کو ایک غیر یقینی فتح سے ہمکنار کروا دیا۔
اننگز کا 19واں اوور تجربہ کار سہیل تنویر نے کر وایا لیکن وہ گریکری کے سامنے بے بس نظر آئے اور انہوں نے 19 رنز دے کر شاہد آفریدی کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ گریگری کو آل راؤنڈ کارکردگی پیش کرنے اور اپنی ٹیم کی جیت میں کلیدی کردار نبھانے پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا گیا۔
شاہد آفریدی کا جادو
شاہد آفریدی اس میچ میں بیٹنگ میں تو کچھ نہیں کرسکے لیکن باؤلنگ اور فیلڈنگ سے انہوں نے اپنی ٹیم کو جیت کی راہ پر گامزن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انہوں نے اپنے پہلے ہی اوور میں ایلکس ہیلز کی وکٹ حاصل کی جبکہ اگلے اوور میں آصف علی کو بھی پویلین واپس بھیج دیا اور پھر جس برق رفتاری سے 40 سال کے اس کھلاڑی نے ڈائرکٹ ہٹ کی بدولت افتخار کو رن آؤٹ کیا وہ کمال کا منظر تھا۔
ٹاس کا کردار
اب تک کھیلے جانے والے تینوں میچوں میں ٹاس کا کردار اہم رہا ہے۔ یعنی ان تمام میچوں میں ٹاس جیتنے والی ٹیم نے مخالف ٹیم کو بیٹنگ کی دعوت دی اور کم اسکور پر محدود کرکے میچ جیت لیے۔
کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہدف کا دفاع ہمیشہ سے ہی مشکل رہا ہے اور شاید اس اسٹیڈیم میں کھیلے جانے والے میچوں میں win the toss win the match کی روایت برقرار رہے گی۔
خرم ضیاء خان مطالعے کا شوق رکھنے کے ساتھ ساتھ کھیلوں کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: KhurramZiaKhan@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔