نقطہ نظر

دفاعی چیمپیئن کراچی کنگز کا شایانِ شان آغاز

اگر آئندہ مقابلوں میں نوجوان باؤلرز محمد عامر کا اچھی طرح ساتھ دیتے ہیں تو کراچی ٹائٹل کے لیے مضبوط امیدوار ثابت ہو سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں نا کہ 'پہلا تاثر دیرپا ہوتا ہے'، اسی لیے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے چھٹے سیزن کے افتتاحی مقابلے کی اہمیت کافی تھی۔ لیکن 'ورچوئل' افتتاحی تقریب اور اس کے بعد اسٹیڈیم میں شاندار آتش بازی کے مظاہرے کے بعد جو مقابلہ دیکھنے کو ملا، اسے مکمل طور پر یکطرفہ بھی کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔

دفاعی چیمپیئن کراچی کنگز اور گزشتہ سال آخری نمبر پر آنے والے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مابین اس میچ میں ایسا لگا جیسے گزشتہ سیزن میں سلسلہ جہاں سے ٹوٹا تھا، بالکل وہیں سے جڑا ہے۔

کنگز بہت ہی خطرناک موڈ میں نظر آئے اور کھیل کے ہر شعبے میں اور ہر پہلو سے جامع ترین کارکردگی پیش کی۔ باؤلرز خوب چلے، وہ بھی چلے جن سے کم توقعات تھیں، بلے بازوں نے دھواں دار بیٹنگ کی اور فیلڈرز نے بھی خوب پھرتی دکھائی، یہاں تک کہ اس طرح کامیابی حاصل کرلی کہ ابھی اننگز میں 37 گیندیں باقی تھیں۔

اس کے برعکس کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے مسائل جوں کے توں نظر آئے۔ پہلے ہی اوور میں 'ڈائمنڈ پِک' ٹام بینٹن وکٹ دے گئے اور اس کے بعد کرس گیل کی تمام تر کوششوں کے باوجود اننگز سنبھل نہیں پائی۔ شاید بہت زیادہ تجربات کرنا کوئٹہ کو مہنگا پڑ گیا، جن کی کم از کم سیزن کے پہلے مقابلے میں ضرورت نہیں تھی۔

مثلاً ٹام بینٹن کے ساتھ کپتان سرفراز احمد کو اوپننگ کے لیے بھیجنا، جبکہ کرس گیل ٹیم میں موجود تھے۔ پھر وکٹوں کے درمیان رننگ تو انتہائی بھیانک تھی۔ کئی مرتبہ کھلاڑی رن آؤٹ ہوتے ہوتے بچے بلکہ محمد نواز تو جس طرح رن آؤٹ ہوئے، وہ بہت مایوس کن تھا اور یہیں کسی قابلِ ذکر اسکور تک پہنچنے کے امکانات معدوم ہوئے۔

میچ میں کراچی پہلے اوور سے ہی چھایا ہوا دکھائی دیا اور 'مین ان بِلوز' کی طرف سے باؤلنگ کا بہت عمدہ مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ 8ویں اوور میں جب 55 رنز بن چکے تھے اور کرس گیل کریز پر موجود تھے تو حالات کوئٹہ کے قابو میں تھے لیکن مسلسل 2 اوورز میں صائم ایوب اور پھر کرس گیل کی وکٹیں حاصل کرنے کے بعد کراچی نے میچ پر اپنی گرفت مضبوط کرنا شروع کردی اور کوئٹہ کو حواس باختہ کردیا۔

کنگز کے ایمرجنگ کھلاڑی ارشد اقبال نے بہت عمدہ باؤلنگ کی اور ثابت کیا کہ ان کو ٹیم میں برقرار رکھ کر کنگز نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ ارشد نے اعظم خان اور بین کٹنگ کی قیمتی وکٹیں حاصل کرکے کوئٹہ کے کسی اچھے اسکور تک پہنچنے کے تمام امکانات ختم کیے۔ ارشد نے اپنے 4 اوورز میں ایک میڈن بھی کروایا اور 16 رنز دے کر 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ اس کارکردگی پر انہیں مین آف دی میچ ایوارڈ ملنا بنتا تھا۔

بلے بازی میں دیکھیں تو کراچی کا آغاز بھی اتنا اچھا نہیں تھا۔ محمد حسنین کی طوفانی باؤلنگ کے سامنے کراچی کی بیٹنگ شروع میں لڑکھڑائی۔ شرجیل خان کے ایل بی ڈبلیو اور ایک بہت ہی خوبصورت گیند پر بابر اعظم کے وکٹوں کے پیچھے آؤٹ ہونے کے بعد لگتا تھا میچ بہت دلچسپ مرحلے میں داخل ہوجائے گا، لیکن بدقسمتی سے کوئی اور باؤلر اس طرح حسنین کا ساتھ نہیں دے پایا۔

محمد رضوان کی جگہ کراچی کنگز کا حصہ بننے والے جو کلارک نے آتے ہی اپنا بھرپور اثر دکھایا۔ ان کی صرف 23 گیندوں پر 46 رنز کی دھواں دار اننگز نے میچ کا پانسہ مکمل طور پر کراچی کے حق میں پلٹ دیا اور کوئٹہ کی موہوم سی امیدیں بھی ختم کردیں۔ نسیم شاہ کے ایک اوور میں 19 اور پھر افغان باؤلر قیس احمد کے پہلے اوور میں 27 رنز لوٹ کر کلارک نے کراچی کی کامیابی پر مہر ثبت کردی تھی۔

شرجیل خان اور جو کلارک کی وکٹ گرنے کے باوجود کراچی کنگز حریف کے لیے کہیں زیادہ طاقتور ثابت ہوئے۔ آنے والے کسی بیٹسمین نے وہ غلطیاں نہیں کیں، جو کچھ دیر پہلے کوئٹہ کے بلے باز کر گئے تھے۔ بابر اعظم نے 24 رنز بنائے، کولن انگرام جم کر آخر تک کھیلے اور کاری وار محمد نبی نے لگائے کہ جنہوں نے صرف 14 گیندوں پر ناقابلِ شکست 30 رنز اسکور کیے اور 14ویں اوور میں بین کٹنگ کو 3 چھکے لگا کر میچ کا فیصلہ کردیا۔

کراچی کی اس کامیابی کا خاص پہلو ان کا اننگ ختم ہونے سے 37 گیندیں پہلے ہی جیت جانا ہے۔ اس سے ان کے نیٹ رن ریٹ کو بہت فائدہ حاصل ہوا ہے، جو آخری مرحلے میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس کامیابی سے کراچی کے حوصلے بہت بڑھے ہوں گے جبکہ ان کے پاس ابھی کئی آپشن باقی بھی ہیں۔ جیسا کہ خود پریس کانفرنس میں کپتان عماد وسیم نے کہا کہ باؤلنگ میں بہت آپشن تھے، محمد نبی سے تو ہم نے ایک گیند تک نہیں کروائی۔

کراچی کے کھلاڑی تینوں ہی شعبوں میں حریف پر چھائے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اگر آئندہ مقابلوں میں نوجوان باؤلرز محمد عامر کا اچھی طرح ساتھ دیتے ہیں تو کراچی ٹائٹل کے لیے مضبوط امیدوار ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ کراچی کی واحد کمزوری باؤلنگ کا شعبہ ہے۔ ارشد اقبال کی کارکردگی کی اہمیت بھی اسی لیے ہے کیونکہ ان کی بدولت کراچی نے اپنی سب سے بڑی کمزوری پر قابو پایا اور مقابلے میں کامیابی حاصل کی۔

اس کے برعکس کوئٹہ کو اب پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوں گے۔ پچھلے سال تو ان کا آغاز بھی بُرا نہیں تھا اور ابتدائی 4 میں سے 3 میچ جیتے تھے لیکن اس کے بعد مسلسل 4 شکستوں نے ان کی مہم کو سخت دھچکا پہنچایا اور پھر ملتان سلطانز کے خلاف اہم میچ کا بارش کی نذر ہوجانا، جس کے بعد آخری میچ میں کراچی کنگز کے خلاف شاندار کامیابی بھی کوئٹہ کو بچا نہیں پائی۔ اس لیے گلیڈی ایٹرز کو ان غلطیوں کو سمجھنا ہوگا جو پچھلے سیزن میں ہوئیں۔

کوئٹہ کے لیے خوش آئند بات یہ ہے کہ کرس گیل نے پہلے مقابلے میں بہت عمدہ کارکردگی دکھائی ہے۔ لیکن بُری خبر یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ سری لنکا کے خلاف ٹی20 سیریز کے لیے گیل کو ویسٹ انڈین اسکواڈ میں طلب کیا جائے۔ اس صورت میں وہ اپنی قومی ذمہ داریاں نبھانے چلے جائیں گے۔ اعلان تو یہی کیا گیا کہ ان کی جگہ جنوبی افریقہ کے سابق کپتان فاف ڈوپلیسی لیں گے۔ دوسری مثبت چیز محمد حسنین کی عمدہ باؤلنگ تھی، جس طرح انہوں نے 2 اچھے بیٹسمین شرجیل خان اور بابر اعظم کو آؤٹ کیا، وہ دیکھنے کے قابل تھا۔

کوئٹہ کی باؤلنگ محمد حسنین اور نسیم شاہ جیسے نوجوان باصلاحیت باؤلرز کے ساتھ عثمان شنواری، بین کٹنگ اور محمد نواز کی موجودگی میں خاصی مضبوط نظر آتی ہے جبکہ افغان قیس احمد پہلے مقابلے میں چل نہیں پائے تاہم وہ بھی بہت اچھے باؤلر ہیں۔ اس کے علاوہ انور علی بینچ پر ہیں اور ڈیل اسٹین کی آمد بھی متوقع ہے۔ یوں باؤلنگ میں کوئٹہ کے لیے خاص پریشانی نہیں، ان کا درد سر بیٹنگ ہوگی۔ خاص طور پر آئندہ مقابلوں میں کپتان سرفراز احمد اور اعظم خان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوگی۔

سرفراز احمد ایک فائٹر ہیں، ان کا ماضی ثابت کرتا ہے کہ مشکل صورتحال سے نکلنے کا حوصلہ اور دم رکھتے ہیں۔ کوچ معین خان بھی ایسے ہی ہیں جو بدترین حالات میں گھبرانے والے نہیں ہیں، اس لیے امید ہے کہ کوئٹہ آئندہ مقابلوں میں بہتر کارکردگی دکھائے گا۔

کراچی اب اپنا اگلا مقابلہ 24 فروری کو 2 مرتبہ کے چیمپیئن اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف کھیلے گا جبکہ کوئٹہ پیر کو لاہور قلندرز کے مدمقابل ہوگا۔ یہ دونوں میچ رواں سیزن میں قدم جمانے کے لیے بہت اہم ہوں گے۔

فہد کیہر

فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔