بائیو این ٹیک کی چیف میڈیکل آفیسر ڈاکٹر اوزلم ٹورسی نے ایک بیان میں بتایا 'دنیا بھر میں اس ویکسین کا استعمال ہورہا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اگلے قدم کے طور پر دیگر خطرے سے دوچار طبقوں جیسے حاملہ خواتین پر اس کے اثرات کی جانچ پڑتال کی جائے، جس سے خواتین اور مستقبل کی نسل کو تحفظ مل سکے گا'۔
فائزر کے کلینیکل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ شعبے کے سنیئر نائب صدر ڈاکٹر ولیم گروبر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ اس ٹرائل کے نتائج 2021 کی چوتھی سہ ماہی تک جاری ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک کہ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ کووڈ 19 سے متاثر حاملہ خواتین میں بیماری کی شدت سنگین ہونے کا اممکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ حمل کی پیچیدگیوں کا خطرہ جیسے قبل از وقت پیدائش کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔
کمپنیوں یہ بھی بتایا کہ وہ آنے والے مہینوں میں بچوں پر بھی ویکسین کے ٹرائل شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں جبکہ کمزور مدافعتی نظام کے حامل افراد پر بھی ویکسین کی خوراکوں کی جانچ پڑتال کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
یہ اعلان اس وقت ہوا جب امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ آف ہیلتھ کی جانب سے کووڈ ویکسینز تیار کرنے والی کمپنیوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ حاملہ خواتین پر اس کے اثرات کے لیے تحقیق کے عمل کو تیز کریں، جن میں وائرس سے سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، جبکہ ان میں ویکسینیشن کے حوالے سے گائیڈلائنز واضح نہیں۔
خیال رہے کہ فائزز/بائیو این ٹیک نے ویکسین کی تیاری کے دوران ٹرائلز میں حاملہ خواتین کو شامل نہیں کیا تھا۔
دونوں کمپنیوں نے یہ بھی واضح کیا کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ویکسین کے استعمال سے بانجھ پن کا خطرہ نہیں ہوتا۔
اب تک ابتدائی تحقیق میں یہ معلوم ہوا ہے کہ ویکسینز کے استعمال سے حاملہ خواتین پر مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
تاہم حتمی نتائج سے ان کو ویکسینیشن گروپ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔