طرز زندگی میں مستحکم تبدیلیاں، صحت بخش غذا اور ورزش کے مضبوط قوت ارادی کے علاوہ اس مسئلے سے نجات کے لیے سرجری اور ادویات ہی دستیاب 2 آپشنز ہیں۔
مگر سرجری سے مختلف پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھتا ہے، جہاں تک ادویات کی بات ہے تو وہ ہمیشہ کام نہیں کرتی اور ان کے بھی اپنے مضر اثرات ہوتے ہیں۔
تاہم اب ایک تجرباتی دوا کے ذریعے جسمانی وزن میں کمی لانے کا نیا دروازہ کھل گیا ہے۔
اس دوا کے ٹرائل کے دوران 16 مختلف ممالک کے 2 ہزار کے قریب موٹاپے کے شکار افراد کو شامل کیا گیا تھا۔
ان افراد کے 2 گروپس بنائے گئے اور ایک گروپ کو ہفتے میں ایک بار اس دوا سیماگلیوٹائڈ (semaglutide) کا استعمال کرایا گیا، یہ دوا ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریضوں کے علاج کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے۔
دوسرے گروپ کو پلیسبو تک محدود رکھا گیا، جبکہ دونوں گروپس سے جسمانی وزن میں کمی لانے میں مددگار طرز زندگی کی عادات پر بھی عمل کرایا گیا۔
ٹرائل کے اختتام پر پلیسبو گروپ کے جسمانی وزن میں معمولی کمی آئی مگر دوسرے گروپ میں یہ کمی بہت زیادہ نمایاں تھی۔
68 ہفتوں تک اس دوا کے استعمال سے لوگوں میں کھانے کی اشتہا دب گئی جبکہ ان کے مجموعی جسمانی وزن میں اوسطاً 14.9 فیصد کمی آئی، جبکہ 30 فیصد افراد کا جسمانی وزن 20 فیصد سے زیادہ کم ہوا۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس وقت جسمانی وزن میں کمی کے لیے دستیاب ادویات کے مقابلے میں یہ نئی دوا دوگنا زیادہ وزن کم کرتی ہے۔
لندن کالج یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل محقق راکیل بیٹرہام نے بتایا کہ کوئی اور دوا اتنا وزن کم نہیں کرپاتی، یہ حقیقی معنوں میں گیم چینجر دوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلی بار لوگ دوا کے ذریعے اتنا جسمانی وزن کم کرنے میں کامیاب ہوئے جتنا سرجری سے ہی ممکن ہوپاتا ہے۔
اگرچہ ٹرائل کے نتائج بہترین ہیں مگر اس دوا سے کچھ مضر اثرات بھی ہوتے ہیں۔ جیسے متلی اور ہیضہ، جو عارضی تھے، مگر ان کا سامنا لگ بھگ 60 فیصد افراد کو ہوا۔
اس دوا کا ہفتے میں ایک بار استعمال کرنے کی ضرورت ہوگی، تاہم ابھی یہ ڈیٹا سامنے نہیں آیا کہ ٹرائل کے بعد لوگوں پر اس دوا کے کیا اثرات مرتب ہوئے۔
طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ جسمانی سرگرمیاں اور صحت بخش غذائی عادات جسمانی وزن کو طویل المعیاد بنیادوں پر مستحکم رکھنے میں مددگار ہیں جبکہ ادویات سے بظاہر مختصر مدت میں وزن کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
اس دوا پر ابھی مزید ٹرائل ہوں گے اور اس کے بعد ہی موٹاپے کے شکار افراد کے لیے اس کو تجویز کیا جاسکے گا۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ہوئے۔