نقطہ نظر

کیا ہمارے حکمرانوں کی ریٹائرمنٹ کا وقت نہیں آگیا؟

ایٹمی ریاست ہونے کے باوجود ہمارا طرزعمل کٹھ پتلیوں جیسا ہے۔ ہم چین، سعودی عرب اور عرب امارات سے آنے والی امداد پر ہی خوش رہتے ہیں

ریٹائرمنٹ ایک طرح سے موت کی تیاری ہی ہوتی ہے۔ بس اس دوران انسان کا خرچہ بڑھ جاتا ہے۔

پاکستان کی آبادی کم و بیش 22 کروڑ ہے جس میں سے 82 لاکھ افراد کی عمر 65 سال سے زیادہ ہے۔ لیکن ان میں سے کچھ لوگوں کو ہی (سرکاری ملازمین، فوجی اہلکاروں اور گولڈن پیراشوٹ لینے والوں کے علاوہ) پینشن اور اس کے ساتھ ساتھ صحت کی سہولیات حاصل ہیں جس کی اب انہیں ضرورت رہے گی۔ ان کا انحصار یا تو اپنی جمع پونجی پر ہوتا ہے یا پھر گھر والوں پر یا پھر صرف خدا پر۔

ان بزرگوں کی مشکلات میں ایک تازہ اضافہ یہ ہوا ہے کہ یہ لوگ اب سینوفارم (Sinopharm) کی کورونا ویکسین نہیں لگوا سکتے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ واحد ویکسین ہے جو یہ افراد خریدنے کی استطاعت رکھتے تھے، اور ایسا نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ عمر رسیدہ افراد پر اس ویکسین کے اثرات مکمل طور پر جانچے نہیں گئے ہیں۔

خوش قسمتی سے ہمارے حکمرانوں کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا نہیں اور نہ ہی انہیں پانی بجلی گیس کے بلوں کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی بڑھاپے میں ہونے والے عدم تحفظ کی۔ ان کے آخری سال تو لندن اور امریکا کے بہترین اسپتالوں میں گزرتے ہیں اور زندگی کا اختتام بس افسوس کے ساتھ ہوتا ہے۔

ہمارے 3 حکمران تو ویسے ہی پینشن کے اہل ہوچکے ہیں لیکن انہیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔ چوہدری پرویز الہیٰ 75 سال کے ہیں، نواز شریف 71 برس کے ہیں اور عمران خان کی عمر 68 برس ہے۔ یہ تمام ہی 66 سالہ جرمن چانسلر اینجلا مرکل سے زیادہ عمر کے ہیں۔ اینجلا مرکل کا ذکر یہاں اس لیے ہوا کہ وہ اب چانسلر شپ کی 4 سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد سیاست سے ریٹائر ہورہی ہیں۔

مرکل کی زندگی کوششوں اور کامیابیوں کا ایک نمونہ ہے۔ ان کی تربیت مشرقی جرمنی میں ہوئی ہے۔ مارگریٹ تھریچر کی طرح وہ بھی ایک کیمسٹ ہیں۔ لیکن مارگریٹ تھریچر کے برعکس انہوں نے کوئی طوفان برپا نہیں کیا۔ ان کے طویل دورِ اقتدار میں جاری رہنے والی جدت اور مفاہمت دیگر حکمرانوں کے لیے بھی مشعل راہ بننی چاہیے۔

صرف انہی جیسا کوئی شخص بریگزٹ جیسے سانحے کو برداشت کرسکتا تھا۔ ایک ایسی طاقت جس نے 2 مرتبہ (1918ء اور 1945ء میں) یورپ کو جرمنی سے آزاد کروایا ہو اب وہی ان جرمنوں کی اولادوں سے آزادی حاصل کررہے ہیں۔

یورپی یونین میں جرمنی کے اکیلے تسلط نے اسے ایک ایسی حیثیت دے دی ہے جو یورپی یونین کے 26 ممبر ممالک میں سے کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ ان کے مخالفین جرمنی میں رہنے والے ترکوں اور مہاجرین کے حوالے سے مرکل کی پالیسیوں پر تنقید تو کرتے ہیں لیکن کیا وہ خود بھی اس سے کچھ مختلف کرسکتے تھے؟

اگر مرکل کو کوئی چیز ناپسند ہے کہ تو وہ روسی صدر ولادی میر پیوٹن ہیں۔ پیوٹن کو یہ بات معلوم تھی کہ مرکل کو کتوں سے ڈر لگتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ ایک ملاقات میں اپنے کتے کو ساتھ لے آئے۔ مرکل نے اسے صرف رعب ظاہر کرنے کی کوشش سمجھا۔ پیوٹن تو کے جی بی کے تربیت یافتہ ہیں اور ہوسکتا ہے کہ مرکل کی تربیت جرمن اسٹازی نے کی ہو، وہ دونوں ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔

تاہم 15 سالہ طویل اور بعض اوقات کشیدہ تعلقات کے دوران دونوں نے کبھی بھی اپنی ذاتی دشمنی کو دونوں ممالک کے مابین تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ اس وقت جرمنی کا مکمل انحصار روسی تیل اور گیس پر ہے۔ مثال کے طور پر نوڈ اسٹریم 2 نامی زیرِ سمندر پائپ لائن روس سے جرمنی کو قدرتی گیس فراہم کرتی ہے (اور یہاں ہم ابھی تک آئی پی آئی اور تاپی کے انتظار میں ہیں)۔

مرکل نے 3 امریکی صدور یعنی جارج بش، باراک اوباما اور ڈونلڈ ٹرمپ کے دور دیکھے ہیں۔ جس دوران ٹرمپ بحیرہ اوقیانوس کے پار دیوار بنانے کی بات کر رہے تھے انہوں نے تب بھی جرمنی اور امریکا کے تعلقات متوازن رکھے۔ اور جب صدر بائیڈن نے اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ چین کے خلاف ’اتحاد کی سرد جنگ‘ میں شامل ہونے کی بات کی تو مرکل نے اس پر بھی بھرپور ردِعمل کا مظاہرہ کیا۔

ڈیوس میں بات کرتے ہوئے چینی صدر کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا حوالے دیتے ہوئے انہوں نے بین الاقومی تسلط کو ختم کرنے اور دنیا میں کثیر الجہتی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر امریکا پر ظلم و بربریت کا الزام عائد کیا۔

رواں صدی کے وسط تک چین اور روس اقوامِ عالم میں نمایاں ہوں گے اور ڈیوس اجلاس کے بعد امریکا، جرمنی، فرانس، برطانیہ اور جاپان کو رہنماؤں کی تصویر میں جگہ بنانے کے لیے محنت کرنی ہوگی۔

برازیل، میکسیکو اور ارجنٹینا جیسے جنوبی امریکا کے ممالک کو ابھی معاشی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اگر افریقی معیشتوں کو 2050ء تک ’اوسط آمدن‘ کی سطح تک پہنچنا ہے تو انہیں ابھی مزید کام کرنا ہوگا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہم آبادی کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر ہیں۔ ہم ایک ایٹمی ریاست ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارا طرزِ عمل کٹھ پتلیوں جیسا ہے۔ ہم چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آنے والی امداد پر ہی خوش رہتے ہیں۔

شاید ہمارے معمر حکمرانوں کو بھی اینجلا مرکل کی طرح سیاست سے علیحدہ ہوجانا چاہیے۔ وی آئی پی ہونے کی وجہ سے انہیں ترجیح ملنے کی عادت ہوچکی ہے، اسی وجہ سے سینوفارم کی ویکسین بھی پہلے انہیں لگانی چاہیے۔ ویسے بھی یہ ملک ایک بیمار سیاست کے نقصانات برداشت کر رہا ہے۔


یہ مضمون 11 فروری 2021ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ایف ایس اعجازالدین

ایف ایس اعجاز الدین ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بہت عمدہ لکھتے ہیں،آپ عرصہ دراز سے ڈان سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔