یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
کووڈ 19 سے صحتیاب افراد میں اس بیماری کے خلاف مدافعت کتنے عرصے تک برقرار رہ سکتی ہے، یہ اب تک واضح نہیں۔
سائنسدانوں کا اب بھی ماننا ہے کہ ایک فرد کا 2 بار کووڈ 19 کا شکار ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے اور دوسری بار بیماری کی شدت زیادہ نہیں ہوتی، مگر حالیہ پیشرفت سے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
جنوبی افریقہ میں نووا واکس کی تجرباتی ویکسین کے ٹرائل کے دوران دریافت کیا گیا تھا کہ 2 فیصد افراد وہاں دریافت ہونے والی نئی قسم سے متاثر ہوئے ہیں جو اس سے قبل بھی وائرس کی پہلی قسم کا شکار ہوئے تھے۔
برازیل میں بھی نئی قسم سے دوسری بار بیمار ہونے کے متعدد کیسز کو دریافت کیا گیا ہے۔
امریکا کے ایشکن اسکول آف میڈیسین کی نئی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ 1 فیصد میرین ریکورٹس دوسری بار کووڈ 19 کا شکار ہوئے۔
اس تحقیق پر کام نئی اقسام کی دریافت سے پہلے مکمل کرلیا گیا تھا اور محققین کا کہنا تھا کہ پہلی بار بیماری کا مطلب یہ نہیں کہ اب آپ اس سے محفوظ ہوگئے ہیں، بلکہ ری انفیکشن کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
دوسری بار کووڈ 19 کے شکار افراد میں اس کی شدت معمولی ہو یا علامات ظاہر نہ ہوں، مگر وہ وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین کی جانب سے ویکسینیشن کو طویل المعیاد حل قرار دیا جارہا ہے جبکہ لوگوں پر فیس ماسک پہننے، سماجی دوری اختیار کرنے اور ہاتھوں کو اکثر دھونے پر زور دیا جارہا ہے۔
جنوبی افریقہ میں گزشتہ سال کے آخری ہفتوں میں ایسے علاقوں میں کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا، جہاں بلڈ ٹیسٹوں سے عندیہ ملا تھا کہ متعدد افراد پہلے ہی اس وائرس کو شکست دے چکے ہیں۔
وٹ واٹر سرانڈ یونیورسٹی کے پروفیسر شبیر مہدی نے بتایا کہ حال ہی میں ایسے اشارے ملے ہیں کہ پرانی بیماری سے کم از کم 9 ماہ تک تحفظ ملتا ہے تو دوسری لہر حیران کن نہیں۔
سائنسدانوں نے اس وائرس کی ایسی نئی قسم کو دریافت کیا جو زیادہ متعدی اور مخصوص طریقہ علاج کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت رکھتی ہے۔
اب جنوبی افریقہ میں 90 فیصد سے زیادہ نئے کیسز اسی قسم کا نتیجہ ہیں اور یہ امریکا سمیت 40 ممالک تک پھیل چکی ہے۔
پروفیسر شبیر مہدی نووا واکس کی ویکسین پر تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ تھے جو جنوبی افریقی قسم کے خلاف کم مؤثر ثابت ہوئی تھی۔
اس تحقیق میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ نئی قسم کے کیسز میں دوسری بار کووڈ 19 سے بیمار ہونے والوں کی تعداد اتنی ہی عام ہے جتنی پہلی بار اس بیماری کا شکار ہونے والوں کی۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے بنیادی طور پر یہ پتا چلتا ہے کہ بدقسمتی سے وائرس کی ابتدائی قسم سے ہونے والی بیماری سے نئی قسم سے تحفظ نہیں ملتا۔
امریکا میں ہونے والی تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع ہوئے، جس میں ری انفیکشن کے لیے نئی اقسام کو ذمہ دار قرار نہیں دیا گیا، کیونکہ اس پر کام ان کو دریافت ہونے سے قبل مکمل کرلیا گیا تھا۔
برازیل کے شہر میناوس میں جنوری میں کیسز کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا تھا اور انکشاف ہوا تھا کہ نئی قسم یادہ متعدی اور علاج کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔