نقطہ نظر

جب ’کے 2‘ سرنگوں ہوا

جی ہاں، یہ انوکھا واقعہ موسمِ سرما میں ناقابلِ تسخیر سمجھی جانے والی چوٹی ’کے 2‘ کی کامیاب سرمائی مہم کے دوران پیش آیا۔

کٹھن اور مشکل ترین مراحل کے بعد جب منزل انتہائی قریب پہنچ چکی ہو، رب کائنات کا عطا کردہ انعام سامنے ہو اور خوابوں کی چوٹی سرنگوں ہونے کے لیے منتظر ہو، اور 200 کلو میٹر کی رفتار سے چلنے والی سرد ہوائیں اور منفی 50 درجہ حرارت جسم کو توڑنے کے لیے موقعے کی تلاش میں ہو تو سوچا جاسکتا ہے کہ وہ کیا منظر ہوگا۔

ان تمام تر مشکل حالات میں جب آپ کے پاس موقع ہو کہ سطح سمندر سے 8 ہزار 5 سو میٹر بلندی پر موجود چوٹی کو اکیلے سر کرکے ہیرو بن سکیں، لیکن آپ رُک جائیں اور وہ بھی صرف 10 میٹر دُوری پر، اور وہ بھی تقریباً 2 گھنٹے تک، صرف اس لیے کہ کوہ پیما ٹیم کے دیگر ساتھی جب پہنچ جائیں تو سب مل کر یہ تاریخ رقم کریں، تو یقیناً آپ کسی ہیرو سے کم نہیں ہوں گے۔

جی ہاں، یہ انوکھا واقعہ ہفتے کو موسمِ سرما میں ناقابلِ تسخیر سمجھی جانے والی پاکستان کی سب سے اونچی چوٹی ’کے 2‘ کی کامیاب سرمائی مہم کے دوران پیش آیا۔

نیپالی کوہ پیماؤں سمیت دنیا کے 19 ممالک سے آئے ہوئے 59 کوہ پیماؤں نے ’کے 2‘ سیون انٹرنیشنل سمٹ 2021ء کے نام سے پہاڑوں کا بادشاہ کہلانے والی دنیا کی دوسری اونچی چوٹی ’کے 2‘ کو موسمِ سرما میں زیر کرنے کی مہم میں شرکت کی۔

شریک نیپالی کوہ پیماؤں نے پرسوں بروز ہفتہ 16 جنوری 2021ء کو سہ پہر 5 پانچ بجے ’کے 2‘ کو موسمِ سرما میں پہلی دفعہ سر کرکے تاریخ رقم کردی۔

معاملہ کچھ یوں رہا کہ 10 نیپالی شرپاؤں کی ٹیم نے اکٹھے ’کے 2‘ کو سرنگوں کیا، اور نیپال کے مشہور شرپا Mingma G آکسیجن کے بغیر چوٹی کو سر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی طرح گزشتہ 7 ماہ میں 8 ہزار میٹر کی 14 چوٹیاں سر کرنے والے نرمل پرجا جو سمٹ کرنے والی ٹیم کے سربراہ بھی تھے، انہوں نے ’کے 2‘ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کیمپ تھری سے براہِ راست چوٹی تک رسائی حاصل کی اور پھر بخیریت واپس کیمپ تھری تک پہنچنے کا اعزاز حاصل کیا۔ یعنی اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔

مشہور کوہ نورد اور کوہ پیمائی پر کئی کتابوں کے مصنف محمد عبدہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’پہاڑ محبوب ہے اور کوہ پیما محب، پہاڑوں اور انسانوں کا تعلق اتنا ہی پرانا ہے جتنے یہ دونوں خود ہیں۔ پہاڑ دنیا کی تخلیق کے دوران ہی معرض وجود میں آئے جبکہ انسان کی دنیا میں آمد کافی بعد میں ہوئی۔ پہاڑ کی دوسری طرف کیا ہے؟ یہ سوال، یہ تجسس شاید ان دونوں کی پہلی ملاقات میں ہی پیدا ہوگیا ہوگا۔

جب محبتیں اور قربتیں بڑھیں تو انسانی جبلت کے عین مطابق ہر وصل ایک قدم آگے بڑھتا گیا اور ہر وصل میں کچھ پوشیدگیاں بے باکیوں کے ہاتھوں عیاں ہوتی گئیں۔ محبت کا یہ سفر محبوب کو مکمل تسخیر کر لینے اور مکمل حاصل کر لینے کی چاہ میں کوہ پیمائی کی شکل میں واضح ہوتا گیا۔ انسان ہوس پرست ہے اور جب کسی پہاڑ سے عشق کرتا ہے تو اس کی چوٹی تک پہنچ جاتا ہے اور طلب پوری ہونے پر بے وفا ہرجائی کی طرح لوٹ آتا ہے، مگر پہاڑ ہرجائی نہیں ہوتے وہ بے وفائی برداشت نہیں کرتے۔ پہاڑ ابدی وصل چاہتے ہیں، پہاڑ جس انسان سے عشق کرتا ہے اسے لوٹ کر نہیں جانے دیتا بلکہ ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیتا ہے۔ محبوب طاقتور ہوتا ہے اس لیے اپنی محبت زورِ بازو سے حاصل کرتا ہے اور کوہ پیما کو ہمیشہ کی لیے خود پر جمی برف میں دفن کرلیتا ہے۔ٔ

پاکستان کی مشہور چوٹیوں ’کے 2‘ اور ’نانگا پربت‘ کی تاریخ بھی دنیا بھر کے کوہ پیماؤں اور پہاڑوں سے محبت کرنے والوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ کہیں پر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کہانی تو کہیں پر کسی برف کی گہری کھائی میں گرنے کی وجہ سے کوہ پیما کے زخموں سے چور جسم کی کہانی۔ کہیں پر کسی کو بروقت آکسیجن فراہم نہ ہونے اور کبھی کسی کو بروقت ریسکیو نہ کرنے پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی کہانی۔

نانگا پربت پر جنوری 2018ء میں مشہور کوہ پیما پولش ٹام میکسوچ کی ہلاکت کی دردناک داستان ہو یا ’کے 2‘ کی موجودہ سرمائی مہم کے دوران فرانس کے مایاناز کوہ پیما Sergi Mingote کی کیمپ ون اور بیس کیمپ کے درمیان گرنے اور پھر بیس کیمپ میں جاں بحق ہونے کا دلخراش واقعہ ہو، یا انہی پہاڑوں پر خود غرضی اور نام کمانے کے چکر میں شمال کے پورٹرز کے ساتھ دھوکا دہی کے واقعات ہوں، یہ سب واقعات پہاڑوں نے اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہیں۔

ایسی ہی ایک کہانی قراقرم کے انتہائی شمالی کنارے پر پاکستان اور چین کے سرحدی مقام پر واقع ’کے 2‘ سے بھی وابستہ ہے، جس کو مقامی ناموں چھغوری، چھو گوری، چوغوری یا شاہ گوری اور بین الاقوامی طور پر King of Mountains یعنی پہاڑوں کے بادشاہ اور گوڈون آسٹن پہاڑ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

یہ 61ء-1860ء کی بات ہے، جب برطانوی حکومت نے کیپٹن ہنری ہاروشم گوڈون آسٹن کو یہ ٹاسک دیا کہ وہ اس روٹ کو جاکر دیکھیں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا دفاعی نقطہ نظر اس روٹ کو اختیار کیا جاسکتا ہے۔ بس اسی سروے کے دوران کیپٹن ہینری کی نظر ’کے 2‘ پر پڑی اور انہوں نے ہی اس کو ’قرارم 2‘ یعنی ’کے 2‘ نام دیا تھا۔ مگر یہ یاد رہے کہ انہوں نے صرف ’کے 2‘ کو دریافت کیا تھا، سر نہیں.

پھر تقریباً 100 سال بعد یعنی یہ جولائی 1954ء کا واقعہ ہے، جب اٹلی کے مشہور محقق اور کوہ پیما پروفیسر آرڈینو ڈیزیو کی سربراہی میں 12 رکنی کوہ پیماؤں کی ٹیم نے اس پہاڑی کو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔

21 جون کو کیمپ 2 میں اس ٹیم میں شامل 30 سالہ کوہ پیما Mario Puchoz پھپھڑوں میں پانی جمع ہوجانے کے باعث زندگی کی بازی ہار گیا۔ پھر کچھ دن مہم معطل ہونے کے بعد 8 جولائی کو مہم دوبارہ شروع کی گئی۔ جلد ہی کیمپ 7 اور 8 لگا دیے گئے۔ یہ 30 جولائی اور جمعے کا دن تھا جب اس مشن میں شامل 2 اطالوی کوہ پیما 29 سالہ لینو لیسڈ لی (Laino Lacedlli) اور 40 سالہ اچلیے کومگنونی (Achelle Comagnoni) نے اپنے ساتھی ابھرتے ہوئے کوہ پیما الٹر بوناتی اور اس وقت کے مشہور پاکستانی پہاڑٰی قلی (پورٹر) امیر مہدی کو کہا کہ چوٹی کے قریب پہنچنے والے 2 ساتھیوں کے لیے آکسیجن سلنڈر لے کر 8 ہزار میٹر کی بلندی پر پہنچیں۔

اس مہم میں کئی سو پاکستانی قلیوں کے ساتھ امیر مہدی بھی شامل تھے، جو اس وقت ریاست ہنزہ کے حکمران میر جمال خان کے حکم پر شامل ہوئے تھے۔ مہدی اور بوناتی سلنڈر لینے کے لیے واپس روانہ ہوئے اور جب شام کو واپس بلندی پر موجود طے شدہ مقام پر پہنچے تو وہاں انہیں اطالوی کوہ پیماؤں کا کوئی پڑاو نظر نہیں آیا۔ دونوں نے جب اپنے ساتھیوں کو آوازیں دیں تو دُور سے صرف ایک آواز آئی کہ آکسیجن سلنڈر یہی رکھو اور واپس نیچے چلے جاؤ اور پھر ان کا ایک دوسرے سے رابطہ نہ ہوسکا۔

اس وقت تک رات ہوچکی تھی اور منفی 50 درجہ حرارت میں برف کی سل پر بغیر کسی خیمے کے مہدی اور بوناتی رات گزارنے پر مجبور ہوئے۔ اگلی صبح سورج کی پہلی کرن نکلتے ہی مہدی اور بوناتی نے آکسیجن سلنڈر وہی چھوڑے اور نیچے کا سفر شروع کیا۔ جبکہ دوسری طرف لینو لیسڈ لی اور کومگنونی اپنے خیمے سے باہر نکلے اور وہاں چھوڑے گئے سلنڈروں کو اٹھا کر ان کی مدد سے چند گھنٹوں میں ’کے 2‘ کی چوٹی پر قدم جماکر اٹلی کے لیے یہ اعزاز حاصل کرکے ہیرو قرار پائے۔

دھوکا دہی سے حاصل کیے گئے اس اعزاز کو حاصل کرنے کی کہانی کئی دہائیوں بعد دنیا کے سامنے آئی کہ چوٹی کے قریب موجود ان دونوں اطالوی کوہ پیماؤں نے جان بوجھ کر اپنا خیمہ طے شدہ مقام سے بدل کر اوپر ایسی مشکل جگہ پر لگا دیا تھا جہاں نیچے سے آنے والے ساتھی نہ پہنچ سکیں۔ مقصد تھا کہ مہدی اور بوناتی چوٹی سر کرنے سے دُور رہیں اور وہ 2 ہی اس تاریخی اعزاز کو حاصل کرسکیں۔ کومگنونی کو خاص کر یہ خدشہ تھا کہ اگر بوناتی کو چوٹی سر کرنے کا موقع ملتا تو وہ نسبتاً کم عمر اور بہتر صحت کی وجہ سے میدان مار لیتے۔

اطالوی کوہ پیما کے فریب اور مناسب لباس اور جوتے نہ ہونے کی وجہ سے اس کامیاب مشن میں سب سے زیادہ نقصان مہدی کو اٹھانا پڑا۔ برفیلی چٹان پر پوری رات گزارنے کے بعد اس کے ہاتھ اور پاؤں بُری طرح متاثر ہوئے اور اسکردو تک پہنچنے تک پوری طرح سڑ چکے تھے۔ صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ تھا اور اس سے بچنے کے لیے ڈاکٹروں نے مہدی کے پیروں کی انگلیاں کاٹ ڈالیں اور پھر وہ کبھی پہاڑ چڑھنے کے قابل نہ رہے۔

’کے 2‘ کی اس سرمائی مہم کی تفصیل میں جانے سے پہلے ’کے 2‘ کے حوالے محمد عبدہ کے کچھ اعداد و شمار جان لیتے ہیں۔ ’کے 2‘ کی چوٹی کو سر کرنے کے لیے 2014ء تک کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 345 کوہ پیما ’کے 2‘ سر کرچکے ہیں جن میں 18 خواتین بھی شامل ہیں اور تقریباً 86 کوہ پیما اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ ’کے 2‘ کو سر کرنے والے ہر 4 میں سے ایک کوہ پیما واپس اترتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے جو کسی بھی پہاڑ پر سب سے زیادہ جان دینے کا ریکارڈ ہے۔

2012ء وہ سال تھا جب کسی ایک سال میں سب سے زیادہ 30 کوہ پیماؤں نے ’کے 2‘ کو سر کیا۔

کے 2 سر کرنے کے لیے زیادہ مشہور کیمپ کی ترتیب کچھ اس طرح سے ہے۔

بیس کیمپ (5 ہزار ایک سو میٹر)

یہاں کنکورڈیا سے 5-6 گھنٹے میں باآسانی پہنچ جاتے ہیں۔ بیس کیمپ بالکل ’کے 2‘ کے نیچے ہے اور بہت محفوظ جگہ پر ہے جہاں پہاڑی تودے یا پتھر گرنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔

کیمپ ون (6 ہزار 50 میٹر)

کیمپ ون کھلی مگر قدرے محفوظ جگہ پر ہے جہاں ایوالانچ بالکل نہیں آتے۔ کبھی کبھار دُور کسی ایوالانچ کی برف کیمپ ون کے قریب تک آجاتی ہے مگر اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

کیمپ ٹو (6 ہزار 7 سو میٹر)

کیمپ ٹو ایک بڑی چٹان کے سائے میں ہے جہاں بہت تیز ہوا چلتی رہتی ہے اور شدید سردی ہوجاتی ہے۔ کیمپ ون سے ٹو کے راستے میں 50 میٹر کا ایک ایسا سیدھا راستہ آتا ہے جسے House’s Chimney کہا جاتا ہے جہاں پرانی رسیوں کا جال بچھا ہوا ہے۔

کیمپ تھری (7 ہزار 2 سو میٹر)

کیمپ ٹو سے تھری کا راستہ سب سے ٹیکنیکل کہا جاتا ہے یہاں 400 میٹر کی بالکل سیدھی چڑھائی ہے جو پتھروں اور برف سے بھری ہوئی ہے۔ اس حصے کو Black Pyramid کہتے ہیں اور اس کے اوپر ایک 30 ڈگری کا شولڈر ہے جو ہر وقت تیز ہوا میں گھرا رہتا ہے، اور یہاں پہاڑی تودے گرنے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ بعض دفعہ کوہ پیماؤں کو واپس نیچے جانا پڑجاتا ہے کیونکہ ایوالانچ کی وجہ سے کیمپ تھری میں کیمپ لگانا ممکن نہیں ہوتا، کیمپ تھری کیمپ سائٹ کو فکسڈ رسی سے باندھنا پڑتا ہے پھر بھی پہاڑی تودوں کی صورت میں نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔

کیمپ فور (7 ہزار 4 سو میٹر)

کیمپ فور کی کوئی مخصوص جگہ نہیں ہے، یعنی 7 ہزار 6 سو سے 7 ہزار 9 سو کے درمیان کوئی بھی مناسب جگہ دیکھ کر کیمپ کر لیا جاتا ہے۔ کوہ پیما کہتے ہیں کہ کیمپ فور لگانے میں زیادہ محنت کرکے اپنے آپ کو تھکانا اور طاقت ضائع نہیں کرنا چاہیے جہاں جگہ ملے کیمپ لگا لیں کیونکہ یہاں سونے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہوتا بس کچھ دیر آرام کرکے آگے بڑھ جانا ہوتا ہے۔

سمٹ (8 ہزار 6 سو 11 میٹر)

کیمپ فور سے ٹاپ تک تقریباً 16 سے 22 گھنٹے لگتے ہیں اس لیے کیمپ فور میں کچھ دیر آرام کرکے زیادہ تر کوہ پیما رات 10 سے 1 بجے کے درمیان ’کے 2‘ سر کرنے نکل جاتے ہیں۔ 8 ہزار 300 میٹر پر 80 ڈگری کا 100 میٹر لمبا Bottleneck کا راستہ آتا ہے جسے ’کے 2‘ کا سب سے مشکل حصہ کہا جاتا ہے۔ ’کے 2‘ سر کرنے والے تقریباً 20 کوہ پیما اسی حصے میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔

’کے 2‘ پر چڑھنے کے چند مشہور راستے یہ ہیں۔

جنوب مشرقی روٹ - The Abruzzi Spur

پہلی بار 1954ء میں ’کے 2‘ اسی راستے سے سر ہوا تھا۔ یہ سب سے مشکل اور خطرناک راستہ سمجھا جاتا ہے۔

شمال مشرقی روٹ

پہلی بار 1978ء میں اس روٹ سے 4 امریکیوں نے ’کے 2‘ سر کیا تھا۔ یہ برف کے ایک لمبے پسلی نما راستے پر مشتمل ہے اور یہیں سے ایک راستہ مشرقی روٹ کی لیے بھی نکلتا ہے۔

جنوب - جنوب مشرقی روٹ

یہ راستہ پہلی بار 1994ء میں اسپین باسک کے کوہ پیماؤں نے استعمال کیا تھا۔ اس ٹیم میں Tomas, Pablo اور Inurrategi جیسے عظیم کوہ پیما شامل تھے۔ اس راستے کو سب سے آسان راستہ کہا جاتا ہے۔

جنوب مغربی روٹ (Magic Line)

میجک لائن خودکشی کے نام سے مشہور ہے۔ یہ انتہائی بلندی پر برف اور پتھروں سے بھرا ہوا عمودی راستہ ہے جس میں سے گزرنا خودکشی کرنے جیسا ہی ہے۔ میسنر نے 1979ء میں اس روٹ کو استعمال کیا مگر پھر اسے ترک کرکے آبروزی روٹ پر چلا گیا۔ 1986ء میں دنیا کے عظیم ترین اور میرے پسندیدہ کوہ پیما جرزی ککوزکا نے پہلی بار میجک لائن کو عبور کرنے کا کارنامہ سر انجام دیا تھا۔

جنوبی راستہ پولش روٹ

یہ راستہ ہر وقت ایوالانچ کی زد میں رہتا ہے اور عام کوہ پیماؤں کی لیے نہیں ہے۔

مغربی روٹ

بیس کیمپ سے Negrotto گلیشیئر پر مشتمل یہ روٹ کافی مشکل ہے اس میں اصل چیلنج پتھروں میں سے راستہ تلاش کرنا ہے۔

’کے 2‘ کا چینی راستہ (شمالی راستہ)

اس پر صرف 2 روٹ ہیں جہاں سے بہت کم ٹیمیں جاتی ہیں۔ شمالی راستے سے کافی کوششیں ہوئی ہیں مگر کوئی ٹیم کامیاب نہیں ہوسکی۔

شمالی مغربی روٹ

یہ روٹ 1990ء میں جاپانی ٹیم نے سر کیا تھا۔

’کے 2‘ سیون انٹرنیشنل 2021 سرمائی مہم کی تفصیل

گزشتہ سال کے 21 دسمبر سے شروع ہونی والی اس سرمائی مہم کی خاص بات یہ ہے کہ اس مہم میں کل 4 ٹیمیں بیس کیمپ پر پہنچ چکی تھیں جن میں نیپال کے مشہور کوہ پیما نرمل پرجا کی قیادت میں نیپالی شرپاؤ کی 10 رکنی 2 ٹیمیں، پاکستانی کوہ پیما محمد علی صدپارہ اور ان کا بیٹا جون سنوری کی ٹیم میں، سیون سمٹ ٹریکس (SST) کی ٹیم میں 43 کوہ پیماؤں اور شرپاؤ پر مشتمل ٹیم شامل ہے۔

اس مہم کے دوران ’کے 2‘ کو سر کرنے کے لیے نیپالی کوہ پیماؤں نے کافی مشکل حالات کا سامنا کیا ہے۔ اس ساری مہم کی عملاً نیپالی کوہ پیماؤں نے ہی قیادت کی مگر یہ مہم کبھی بھی آسان نہیں تھی۔

جنوری کے پہلے ہفتے میں کئی بار موسم خراب ہونے کی بنا پر ان کوہ پیماؤں کو اپنا سفر شروع کرنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ نیپالی کوہ پیماؤں کا کیمپ ٹو برفانی تودے اور تیز ہواؤں کی وجہ سے تباہ ہوچکا تھا بلکہ ان کا زیادہ تر سامان بھی غائب ہوگیا تھا لیکن نیپالی پہاڑی شیروں نے ہمت نہیں ہاری اور ’کے 2‘ کو زیر کرنے کی مہم کو آگے بڑھایا۔

مشکلات سے بھرے اس سفر کے بارے میں خوش آئند بات 14 اور 15 جنوری کو اس وقت سامنے آئی جب نیپالی کوہ پیماؤں کی 4 رکنی ٹیم کو 7 ہزار فٹ بلندی پر عارضی کیمپ قائم کرنے میں کامیابی ملی اور یہی وہ کامیابی تھی جو اس سے پہلے موسمِ سرما میں کسی کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔

اس کامیابی سے پوری دنیا کے ماہرین کوہ پیمائی کو امید پیدا ہوگئی کہ اب ناقابلِ تسخیر ’کے 2‘ سرنگوں ہوجائے گا۔ اس موقع پر ٹیم کے لیڈر نرمل پرجا نے اپنے فیس بک پیج کے ذریعے اعلان کیا کہ ’ہمارا اگلے 48 گھنٹے کا سفر انتہائی مشکل ہوگا کیونکہ گروپ کے ہر ممبر کو 35 کلو سے زیادہ وزن اٹھانا پڑ رہا ہے۔ آج 7 ہزار 3 سو 50 میٹر کی بلندی پر ہم اپنا کیمپ قائم کریں گے جبکہ ہمیں 7 ہزار 600 میٹر تک رسیاں لگانے میں کامیابی مل گئی ہے'۔ بس یہی وہ لمحہ تھا جب ساری دنیا کی نظریں ’کے 2‘ کی چوٹی پر جم گئیں‘۔

31 جولائی 1954ء، ہفتے کے دن موسمِ گرما میں خود غرضی سے بھرپور 2 اطالوی کوہ پیماؤں نے جب ’کے 2‘ کی چوٹی پر قدم رکھے، اس کے 66 سال بعد ہفتے کے ہی دن 16 جنوری کو نیپالی شرپاؤ کی 10 رکنی ٹیم نے ٹیم ورک کی بہترین مثال قائم کرکے اکٹھے ’کے 2‘ کی چوٹی کو ناصرف سر کیا بلکہ پاکستان سمیت پوری دنیا کی محبتیں سمیٹنے میں کامیاب ہوئے۔

اس مہم میں ٹیم ورک سے انہوں نے ثابت کیا ہے کہ خود عرضی اور دوسروں پر سبقت لے کر اکیلے دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنا اعزاز نہیں، بلکہ اعزاز تو یہ ہے کہ کامیابی کو اکٹھے حاصل کرکے دنیا کے لیے اخوت، برداشت اور ٹیم ورک کی مثال قائم کرکے فخر اور عزت حاصل کی جائے۔

’کے 2‘ کی تسخیر کی سرمائی مہم ابھی اختتام کو نہیں پہنچی، بلکہ کیمپ ٹو میں پاکستانی کوہ پیما محمد علی سدپارہ اور ان کی ٹیم موجود ہے۔ وہ ایک یا 2 دن میں نیپالی کوہ پیماؤں کی لگائی گئی رسیوں کے ذریعے ’کے 2‘ کو سر کرنے کے لیے قسمت آزمائی کریں گے، جبکہ سیون سمٹ کے زیادہ تر کوہ پیما یا تو واپس آچکے ہیں یا بیس کیمپ میں موجود ہیں۔

عظمت اکبر

عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔