پاکستان میں پانچ سال بعد پہلی پھانسی کی تیاری

پاکستانی حکام رواں ماہ چار قیدیوں کو پھانسی دے دیں گے۔

کراچی: پاکستانی حکام رواں ماہ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے قیدیوں کو پھانسی دینے کی پانچ سالہ پابندی کی روایت کو توڑتے ہوئے چار قیدیوں کو پھانسی دے دیں گے۔

انسپکٹر جنرل(آئی جی) جیل خانہ جات سندھ نصرت منگن نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ کالعدم لشکر جھنگوی کے دو مجرموں سمیت سزائے موت کے چار قیدیوں کو 20، 21 اور 22 اگست کو سکھر اور کراچی کی سینٹرل جیل میں تختہ دار پر لٹکایا جائے گا۔

منگن نے بتایا کہ چاروں قیدیوں نے انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزاؤں کیخلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل دائر نہیں کی اور اسی لیے ان سزا پر من و عن عمل کیا جائے گا، انہوں نے بتایا کہ ان میں سے ایک دہشت گرد کو چھ مقدمات جبکہ ایک اور کو چار مقدمات میں موت کی سزا سنائی گئی۔

یہ گزشتہ پانچ سال میں پاکستان میں پہلا موقع ہو گا کہ کسی قیدی کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جائے گا جبکہ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سکھر جیل میں گزشتہ گیارہ سالوں سے کسی بھی قیدی کو تختہ دار پر نہیں لٹکایا گیا۔

پیپلز پارٹی کی پانچ سالہ حکومت میں کسی بھی مجرم کو سزائے موت نہیں دی گئی جبکہ اس دوران 2008 میں حکام نے صرف ایک فوجی کا کورٹ مارشل کیا۔

یاد رہے کہ 2008 میں ایک صدارتی حکم نامہ جاری کیا گیا تھا جس کے تحت سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا تاہم 30 جون کو اس کی مدت ختم ہو گئی ہے اور گیارہ مئی کے عام انتخاب میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے والی مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس حکم نامے میں توسیع نہیں کی۔

حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے جولائی میں اعلان کیا تھا کہ پھانسی کی سزا کے منتظر افراد کیلیے کسی بھی قسم کی عام معافی نہیں ہو گی جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور سزائے موت مخالف دھڑوں نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے صدائے احتجاج بلند کیا تھا۔

برطانوی گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نئی حکومت کے اس فیصلے کو افسوسناک اور ایک قدم پیچھے ہٹنے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ہزاروں افراد کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔

تاہم حال ہی میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کی سربراہی میں کراچی کی قانونی برادری نے سزائے موت کے قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا تھا۔

تین جون کو چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ مشیرعالم نے کہا تھا کہ سزائے موت کے حامل قیدیوں کی سزا پر عمل نہیں ہوتا اس وقت تک امن و امان کی صورتحال درست نہیں ہو سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ سزاؤں پر عمل درآمد بیرونی دباؤ کے باعث نہیں کیا جاتا اور یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ جن ملزمان کو عدالت کی جانب سے موت کی سزا سنائی جا چکی ہے انہیں پھانسی دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدلیہ پر اعتماد کے لیے سزائے موت کے قیدیوں کی سزا پر عمل درآمد ضروری ہے۔

ایمنسٹی کے اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت سزائے موت کے کم از کم آٹھ ہزار سے زائد قیدی موجود ہیں اور ان میں سے بیشتر اپیل کے قانونی عمل کو استعمال کرتے ہوئے اس حق سے محروم ہو چکے ہیں۔

آئی جی جیل خانہ جات سندھ نصرت منگن نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ سندھ میں 350 سے زائد قیدیوں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے اور وہ اس پر عمل درآمد کے منتظر ہیں، جیل ذرائع کے مطابق 54 مقدمات کی اپیل اس وقت اعلیٰ عدلیہ میں زیر التوا ہے جبکہ اسی طرح 23 افراد کی رحم کی اپیل صدر کے پاس التوا کا شکار ہے اور صدر آصف علی زرداری نے ان 23 میں سے کسی بھی مقدمے کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا۔

زرداری 9 ستمبر کو آئینی مدت کی تکمیل کے بعد اس عہدے سے ہٹ جائیں گے جس کے بعد نو منتخب صدر ممنون حسین اس عہدے پر فائض ہوں گے۔

یاد رہے کہ 2012 تک دنیا کے کم از کم 140 ملکوں نے باقاعدہ طور پر اعلان یا سزائے موت پر عمل درآمد نہ کر کے قانونی یا عملی طور پر سزائے موت کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔