نقطہ نظر

کیا پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری واقعی ترقی کر رہی ہے؟

شور ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر مکمل صلاحیت پر کام کررہا ہے لیکن اس کا کیا مطلب ہے؟ انڈسٹری کتنے فیصد کام کرے تو اسے مکمل صلاحیت کہتےہیں؟

ٹیکسٹائل کا شعبہ پاکستان کا سب سے زیادہ برآمدات کرنے والا شعبہ ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل برآمدات کا 60 فیصد ٹیکسٹائل سے وابستہ ہے۔ لیکن پچھلے 15 سالوں میں حکومتی عدم توجہی کی بدولت یہ شعبہ بُری طرح متاثر ہوا ہے۔

فیصل آباد کے ٹیکسٹائل شعبے سے وابستہ ایک فیکٹری مالک نے بتایا کہ ’میری 4 فیکٹریاں تھیں، لیکن برآمدات میں عدم توجہی کی وجہ سے صرف ایک فیکٹری چل رہی تھی۔ جب تحریک انصاف نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو اٹھانے کی بات کی اور مراعات دینے کا اعلان کیا تو میں نے بند فیکٹریوں کی مشینری کو ٹھیک کروانے کا فیصلہ کیا۔ میں خوش ہوں کہ وہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ آج میری چاروں فیکٹریاں دن رات چل رہی ہیں‘۔

یہ مثبت پہلو ہے جس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے لیکن ہمیں تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے۔ آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (ایپٹما) کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2019ء میں نومبر تک ٹیکسٹائل برآمدات 12 ارب 44 کروڑ ڈالر تھیں اور سال 2020ء میں نومبر کے اختتام پر یہ 11 ارب 67 کروڑ ڈالر تک محدود ہوگئیں۔

دسمبر 2020ء کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں جس وجہ سے صرف 11 ماہ کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ سال 2020ء کی برآمدات 2019ء کی نسبت تقریباً 6 فیصد کم ہیں۔ اگرچہ 2020ء کے حوالے سے ٹیکسٹائل کی بہتری کے دعوے کیے جارہے ہیں لیکن 11 ماہ کے اعداد و شمار کچھ اور ہی بتارہے ہیں۔

اس حوالے سے جب میں نے ایپٹما کے جنرل سیکرٹری رضا باقر صاحب سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ’یہ فرق کورونا کی وجہ سے آیا ہے۔ کورونا کی وجہ سے جب پاکستان نے مکمل لاک ڈاؤن کیا تو فیکٹریاں بند کرنا پڑیں جس کی وجہ سے برآمدات بُری طرح متاثر ہوئیں۔ اگر مہینوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد تقریباً ہر مہینے ٹیکسٹائل برآمدات پچھلے سال کے اسی ماہ کی نسبت زیادہ ہیں۔ جب پورے سال کی بات کی جاتی ہے تو لاک ڈاؤن کے مہینوں کی وجہ سے اوسط برآمدات خراب ہوئیں‘۔

پاکستان میں مکمل لاک ڈاؤن 24 مارچ 2020ء کو لاگو ہوا اور 9 مئی 2020ء کو لاک ڈاؤن ختم کردیا گیا۔ یہ تقریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ بنتا ہے۔ اس سے قبل فروری 2020ء کے مہینے میں بھی یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر پوری صلاحیت پر کام کر رہا ہے اور برآمدات میں تقریباً 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ڈیڑھ ماہ لاک ڈاؤن کے علاوہ تقریباً پورا سال یہ دعوٰی کیا جاتا رہا ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر کے پاس آرڈرز اس کی بساط سے زیادہ ہیں، جبکہ سال کی اوسط ٹیکسٹائل برآمدات حوصلہ افزا دکھائی نہیں دیتی۔

ایپٹما کے ایم آئی ایس منیجر عبدالوحید رانا صاحب سے جب اعداد و شمار کے حوالے سے رابطہ ہوا تو انہوں نے 2019ء اور 2020ء کی برآمدات کا تقابلی جائزہ مجھے ای میل کیا جو درج ذیل ہے۔

’اگر ماہانہ بنیادوں پر بھی موازنہ کیا جائے تو جن مہینوں میں بہترین کارکردگی کا دعویٰ کیا جا رہا ہے ان میں سب سے زیادہ اضافہ فروری 2020ء میں 17 فیصد ہوا ہے۔ جنوری میں 2.25 فیصد، جولائی میں 14.40 فیصد، ستمبر میں 11.30 فیصد، اکتوبر میں 6.18 فیصد اور نومبر میں 9.27 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تاہم اگست 2020ء میں تمام سہولیات ملنے کے باوجود برآمدات 15.39 فیصد کم ہوئی ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ایسا کیوں ہوا۔ اس کے علاوہ باقی مہینوں میں جو اضافہ ہے وہ کسی بھی طرح تسلی بخش دکھائی نہیں دیتا۔ یاد رہے کہ یہ فرق پچھلے سال کے اسی مہینے کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ اگر یہ موازنہ سال 2020ء کے مہینوں کے درمیان کیا جائے تب بھی خاطر خواہ اضافہ نظر نہیں آتا۔‘

برآمدات میں مطلوبہ اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے شک و شبہات جنم لے رہے ہیں کہ شاید ٹیکسٹائل انڈسٹری مکمل صلاحیت پر کام نہیں کر رہی۔ میں یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مکمل صلاحیت کی اصطلاح کیا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ملک میں ہر طرف شور ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹر مکمل صلاحیت پر کام کر رہا ہے۔ جب متعلقہ سرکاری عہدیداروں سے یہ پوچھا گیا کہ مکمل صلاحیت کا کیا مطلب ہے؟ کتنے فیصد انڈسٹری اگر کام کرے تو آپ اسے مکمل صلاحیت کہتے ہیں؟ ملک میں کتنی رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ لومیں کام کر رہی ہیں؟ تو ان کے پاس اس سے متعلق کوئی اعداد و شمار موجود نہیں تھے۔ لیکن مختلف نجی حلقوں میں کہا جارہا ہے کہ 50 فیصد سے زائد ٹیکسٹائل انڈسٹری بند پڑی تھی جو دوبارہ کام کرنے لگ گئی ہے۔ اس حساب سے برآمدات میں بھی 50 فیصد اضافہ ہونا چاہیے تھا جو دکھائی نہیں دے رہا۔

یہاں ہم کوشش کریں گے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا موازنہ پڑوسی ممالک سے کیا جائے، تاکہ صورتحال کو سمجھنے میں مزید آسانی ہوسکے۔

ہندوستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اور پاکستان

کپاس پیدا کرنے والے ممالک میں ہندوستان کا دنیا میں پہلا نمبر ہے۔ ہندوستان تقریباً 6 ہزار 423 میٹرک ٹن کپاس پیدا کرتا ہے۔ اس شعبے میں ہندوستان نے چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ میں یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ چین دنیا کی ٹیکسٹائل ضرورت کا تقریباً 40 فیصد پورا کرتا ہے لیکن کپاس کی پیداوار میں وہ ہندوستان سے پیچھے ہے۔ چین 5 ہزار 933 میڑک ٹن کپاس کی پیداوار کے ساتھ دوسرے نمبر ہر ہے۔ امریکا تیسرے، برازیل چوتھے اور پاکستان پانچویں نمبر پر آتا ہے۔

چند سال پہلے تک پاکستان سالانہ 15 لاکھ بیل پیدا کر رہا تھا جو 2020ء میں تقریباً 8 لاکھ بیل رہ گئی ہیں۔ پہلے کپاس برآمد کی جاتی تھی لیکن آج صورتحال اتنی خراب ہے کہ ہمیں کپاس درآمد کرنی پڑ رہی ہے۔

رضا باقر صاحب کے مطابق ’کپاس کی پیداوار میں کمی کی وجہ ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر کام نہ ہونا ہے۔ پاکستانی کسان کی فی ایکڑ پیداوار دنیا کی نسبت تقریباً 50 فیصد کم ہے۔ جس کے باعث کاشتکار کو جیب سے پیسے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ گوکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں ہماری کپاس کی قیمت دنیا کے برابر ہے لیکن فی ایکڑ پیداوار میں کمی ایک بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے۔ اس وجہ سے کسان کپاس کو چھوڑ کر دیگر اجناس کاشت کر رہے ہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کے سبب ملکی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے لیکن ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے یہ اچھی خبر نہیں ہےـ‘۔

مالی سال 20ء-2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان کی ٹیکسٹائل برآمدات تقریباً 36 ارب ڈالر ہے، جبکہ پاکستان کی برآمدات ساڑھے 12 ارب ڈالر کے قریب۔ اس فرق کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ہندوستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری صرف کپاس پر انحصار نہیں کررہی بلکہ پولیسٹر سے بھی کپڑے تیار کر رہی ہے۔ جبکہ پاکستان میں اس شعبے میں زیادہ کام نہیں ہوسکا ہے۔

پولیسٹر بنانے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور جو بنا رہے ہیں وہ منہ مانگی قیمت وصول کر رہے ہیں۔ اگر پولیسٹر کی درآمدات کی بات کی جائے تو اس میں بھی رکاوٹیں دکھائی دے رہی ہیں۔ امپورٹ ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسز کی اتنی بھرمار ہے کہ باہر سے منگوانے کی ہمت ہی پیدا نہیں ہوپاتی اور مجبوراً مقامی سطح پر بنانے والوں سے مہنگے داموں مال خریدا جاتا ہے جو کوالٹی میں بھی کم حیثیت کا ہوتا ہے۔

کورونا کے دنوں میں پاکستان کی کارکردگی ہندوستان سے بہتر دکھائی دیتی ہے جس کی بظاہر وجہ لاک ڈاؤن محسوس ہوتی ہے۔ ہندوستان میں کورونا کی بدترین صورتحال کے پیش نظر ٹیکسٹائل انڈسٹری بند رہی۔ اس سے ناصرف برآمدات کم ہوئیں بلکہ ملکی ضرورت کی ٹیکسٹائل مصنوعات بھی تیار نہیں کی جاسکیں۔ جبکہ پاکستان نے چند دنوں کے بعد انڈسڑی کھولنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کے کپاس اور ٹیسکٹائل شعبے کا موازنہ ہندوستان سے کرنے کی بات کی جائے تو یہ غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے۔ رقبے، ماحول، مقامی ضرورت اور معاشی سہولیات کے اعتبار سے ان کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا لیکن بنگلہ دیش سے موازنہ حقیقت کے زیادہ قریب ہوسکتا ہے۔

بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اور پاکستان

بنگلہ دیش دنیا میں ٹیکسٹائل برآمدات کرنے والا چین کے بعد دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ سال 2019ء کے اعداد و شمار کے مطابق بنگلہ دیش کی سالانہ ٹیکسٹائل برآمدات 34 ارب ڈالر ہیں جبکہ پاکستان کی 2019ء کی برآمدات تقریباً ساڑھے 12 ارب ڈالر ہیں۔ کورونا کے باعث بین الاقوامی آرڈر منسوخ ہونے سے بنگلہ دیش کو تقریباً 6 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے جس سے برآمدات کم ہوکر تقریباً 27 ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔ اس کا فائدہ مبیّنہ طور پر پاکستان نے اٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن مطلوبہ کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دی رہی۔

اگر رقبے، آبادی، علاقے، وسائل اور معیشت کے لحاظ سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان کا موازنہ بنگلہ دیش سے کیا جاسکتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل برآمدات کا بمشکل تیسرا حصہ ہے۔

ایپٹما کے مہیا کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق نومبر 2020ء تک پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات تقریباً 11 ارب 67 کروڑ ڈالر ہیں۔ ہم بنگلہ دیش سے کتنا پیچھے ہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ ایپٹما نے 2025ء تک پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو دوگنا بڑھانے کا ہدف رکھا ہے، یعنی تقریباً 25 ارب ڈالر، لیکن وہ بھی اس وقت جب حکومتی امداد اس رفتار سے ملتی رہیں جو آج مل رہی ہیں۔

ان مراعات میں بجلی کے نرخ اور خام مال میں سبسڈی اور ٹیکس ریفنڈ شامل ہیں۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ اس وقت حکومت کو بجلی کا ایک یونٹ 6 روپے میں پڑ رہا ہے اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کو بجلی تقریباً 9 روپے فی یونٹ مل رہی ہے۔ جبکہ دیگر صنعتوں میں یہ قیمت تقریباً 25 سے 30 روپے فی یونٹ ہے۔ یعنی کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کو عام صنعتوں کی نسبت 3 گنا کم ریٹ دیا گیا ہے۔

اگر بجلی کے بلوں میں دی گئی رعایت کو ہی پیمانہ مقرر کرلیا جائے تو برآمدات کا ہدف 3 گناہ طے کیا جانا چاہیے تھا۔ ٹیکس ریفنڈز حاصل کرنے میں بھی ٹیکسٹائل کا شعبہ سب سے آگے ہے۔ ایک طرح سے پاکستانی عوام کے ٹیکس کا پیسہ ٹیکسٹائل والوں کی جیب میں ڈالا جا رہا ہے تاکہ وہ ملک میں ڈالر لانے میں کامیاب ہوں لیکن ابھی پیالی کو لبوں تک آنے میں ہی شاید کافی وقت درکار ہے۔

ایپٹما نے 5 سالوں میں 25 ارب ڈالر کا جو ہدف طے کیا ہے وہ کم دکھائی دیتا ہے جبکہ ہمارے ہمسائے میں بنگلہ دیش بھی انہی سہولتوں کے ساتھ سالانہ 34 ارب ڈالر برآمدات کررہا ہے، اور بظاہر ایپٹما کو اس وقت سرکار سے کوئی گلہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے جو کچھ مانگا حکومت نے انہیں دے دیا۔ اس لیے یہاں یہ سوال بالکل اٹھتا ہے کہ ایسی صورتحال میں یہ ہدف بنگلہ دیش سے زیادہ یا اس کے برابر کیوں نہیں رکھا گیا ہے؟

مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت بھی اس پر چپ سادھے ہوئے ہے اور یہ پوچھا نہیں جارہا کہ بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسڑی کے پاس ایسا کیا ہے جو ایپٹما کے پاس نہیں ہے۔ اگر عوام کے ٹیکس کے پیسوں کی قربانی دی جا رہی ہے تو نتائج بھی عوام کی امنگوں کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اگر ایپٹما ابھی بھی ناخوش ہے تو وہ بتائے کہ اسے اور کیا چاہیے؟

چین کی ٹیکسٹائل انڈسٹری اور پاکستان

ٹیکسٹائل کا ذکر چین کے بغیر ادھورا ہے۔ 118 ارب ڈالر کی برآمدات کے ساتھ چین دنیا کا سب سے بڑا ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین دنیا کی ٹیکسٹائل برآمدات کا 40 فیصد پورا کرتا ہے۔ چین ناصرف سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے بلکہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسٹائل مارکیٹ بھی ہے۔

لیکن کورونا نے ابتدائی دنوں میں چین کی ٹیکسٹائل برآمدات کو بُری طرح متاثر کیا۔ تقریباً تمام آرڈرز کینسل ہوگئے، بارڈر بند ہوگئے، پروازیں روک دی گئیں اور تجارت تقریباً ختم ہوگئی۔ کورونا چونکہ سب سے پہلے چین پر اثر انداز ہوا تھا اس لیے ٹیکسٹائل برآمدات کرنے والے ممالک میں چین سب سے پہلے متاثر ہوا جس کا فائدہ پاکستان نے بھی اٹھایا۔

فروری 2020ء میں پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات میں 17 فیصد اضافہ ہوا تھا جو سال 2020ء کے کسی بھی ایک مہینے میں ہونے والے اضافے میں سب سے زیادہ ہے۔ جو گاہک فروری میں چین سے ٹوٹ کر پاکستان آئے وہ ابھی تک پاکستان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

اگر پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات کا چین سے موازنہ کیا جائے تو ڈالر کی قدر میں پاکستان تقریباً 11 گنا پیچھے ہے۔ اس کے علاوہ مشینری کی کوالٹی کا پاکستان سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ کوالٹی کی کپاس چین میں پیدا ہوتی ہے اس تک پہنچنے میں شاید کئی سال درکار ہوں۔

اگر پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات کا چین سے موازنہ کیا جائے تو ڈالر کی قدر میں پاکستان تقریباً 11 گنا پیچھے ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کی مشینری کی کوالٹی کا بھی کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ پھر جس معیار کی کپاس چین میں پیدا ہوتی ہے اس تک پہنچنے میں پاکستان کو شاید کئی سال درکار ہوں۔ اگر کوئی چیز پاکستان کے ساتھ مدِمقابل ہے تو وہ کپاس کی قیمت ہے۔

حکومتی کاوشوں کی بدولت پاکستانی کپاس کو وہی قیمت مل رہی ہے جو چین کو مل رہی ہے۔ یہ ایک مثبت پہلو ہے لیکن ٹیکسٹائل برآمدات کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں چینی ٹیکنالوجی اور جدید سائنسی طریقوں کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ چین کورونا سے کافی حد تک نکل چکا ہے اور پاکستان سے دوستانہ تعلقات کی وجہ سے ممکن ہے کہ وہ پاکستان کے گاہکوں کو واپس حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے اور پاکستانی برآمدات بہتری کی جانب گامزن رہیں، لیکن کاروبار میں اس طرح کے اقدام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے۔

قارئین، پاکستان میں ٹیکسٹائل شعبے کی ترقی کی دھوم ایک طرف لیکن موجودہ اعداد و شمار کے مطابق اگر ٹیکسٹائل کے شعبے میں ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے ہی موازنہ کرلیں تو پاکستان کی حیثیت آٹے میں نمک کے برابر معلوم ہوتی ہے۔ ہندوستان اور چین تو دُور کی بات ہے ہم سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش سے بھی مقابلہ نہیں کرسکتے۔ جتنے آرڈرز پاکستان کو موصول ہورہے ہیں کورونا ختم ہونے کے بعد ہم سے کم قیمت اور بہتر کوالٹی میں یہی مصنوعات ممکنہ طور پر ہندوستان اور بنگلہ دیش دنیا کو مہیا کرسکیں گے۔

لیکن ایپٹما کے جنرل سیکرٹری رضا باقر اس مؤقف سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری قیمتیں بین الاقوامی مارکیٹ کے برابر ہوگئی ہیں۔ جو گاہک پاکستان کے ساتھ کام کرنے پر راضی ہو رہے ہیں وہ طویل مدتی معاہدوں کی شکل میں کام کر رہے ہیں۔ کورونا ختم ہونے کے بعد بھی ہم مقابلے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ اعداد و شمار پہلے سے بہتر ہوں گے۔

مستقبل میں حالات کیا ہوتے ہیں اس کا فیصلہ آج کرنا شاید ممکن ہے، لیکن بُرے وقت کی پہلے سے تیاری کرنا بہتر نتائج کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے یہ حساب لگانا ضروری ہے کہ مشکل وقت میں پاکستان کہاں کھڑا ہوگا اور اس سے نمٹنے کے لیے کیا حکمتِ عملی ہونی چاہیے۔

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالم نگار ہیں، جبکہ ورلڈ کالمسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔