سائنسدانوں کی جانب سے اس قسم کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جارہا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں وائرس کے اندر متعدد تبدیلیاں آئی ہیں، جس کے باعث وہ انسانی خلیات سے زیادہ آسانی سے منسلک ہوجاتا ہے۔
کورونا کی اس قسم کو 501.V2 کا نام دیا گیا ہے جو ابتدائی تجزیے میں زیادہ تیزی سے پھیلنے والا اور جسم میں زیادہ وائرل لوڈ بڑھانے کی صلاحیت رکھنے والا ثابت ہوا ہے۔
یہ نئی قسم برطانیہ میں دریافت ہونے والی قسم سے مختلف ہے اور اصل وائرس کے مقابلے میں زیادہ متعدی ہے۔
اس نئی قسم سے بیماری کی شدت پر کوئی اثرات ابھی تک دریافت نہیں ہوئے، جبکہ مقامی سائنسدانوں کے نتائج پر ابھی دیگر سائنسدانوں نے نظرثانی نہیں کیا یا کسی جریدے پر شائع نہیں ہوئے۔
جنوبی افریقہ کی کووڈ وزارتی ایڈوائزری کمیٹی کے شریک چیئرمین ڈاکٹر سلیم عبدالکریم نے بتایا 'اس حوالے سے تشویش کی وجہ موجود ہے کیونکہ ہم نے ایسا وائرس دیکھا جو بظاہر بہت تیزی سے پھیل سکتا ہے'۔
انہوں نے زور دیا کہ عوامی رویے کیسز کے اضافے میں ایک بنیادی عنصر ہے۔
لوگوں میں پھیلنے کے بعد وائرسز کے جینیاتی سیکونسز میں معمولی تبدیلیاں آنا معمول کا حصہ ہے، عام طور پر یہ تبدیلیاں جن کو میوٹیشنز کہا جاتا ہے، زیادہ ہام نہیں ہوتیں، بلکہ مخصوص اقسام کے زیادہ عام ہوجاتی ہیں، مگر دنیا بھر کے سائنسدانوں کی انب سے اس طرح کی تبدیلیوں کا تجزیہ کرکے جانا جاتا ہے کہ اس سے ان کے پھیلاؤ، بیماری کی شدت اور علاج و ویکسینز کے ردعمل پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں وائرس کی نئی قسم میں آنے والی ایک میوٹیشن جسے این 512 وائے کے نام سے جانا جاتا ہے، وائرس کے اسپائیک پروٹین کے سیکونس کوڈ کے حصے میں ہوئی ہے۔
یہ میوٹیشن دیگر ممالک بشمول آسٹریلیا میں بھی دریافت ہوئی ہے، جو اس وائرس کو اپپنے پھیلاؤ پر کنٹرول کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔
رواں ہفتے برطانیہ کی جانب سے اسی طرح کا اعلان کیا گیا کہ وہاں دریافت ہونے والی نئی قسم لندن میں تیزی سے پھیل رہی ہے، حالانکہ ابھی کوئی تعلق ثابت نہیں کیا جاسکا ہے۔
جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی قسم اب اس ملک میں 90 فیصد سیکونسز تجزیے میں پائی گئی ہے۔